رؤف لُنڈ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرائیکی زبان کے عظیم شاعر جناب فیض علی فیض اپنی شاعری میں دنیا سے اپنے دوستوں کے بچھڑنے کی تکلیف دہ کیفیت بارے کہتے ہیں کہ ” جانی جُدا تھی ویندن ارمان بہہ کریندوں ۔ پہلے پہر کہیں دا ، پچھلے پہر کہیں دا ” ۔۔۔۔۔
کل صبح برِ صغیر کے عظیم انسان دلیپ کمار کی رحلت کی خبر سنی۔ ان کی جدائی کے دکھ ، درد اور غم کی کیفیت سے باہر نہیں نکلے تھے کہ شام کو ہمیں اٹک سے ھمارے عظیم انقلابی رہنما کامریڈ پرویز ملک کی جسمانی جدائی کی اطلاع مل گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔
فیض احمد فیض کے بقول ” درد کا رشتہ ، سب سے بڑا رشتہ ہوتا ھے”۔ دلیپ کمار ہو کہ پرویز ملک ۔۔۔ ان سے ھمارا رشتہ درد کا رشتہ ھے۔ یہ ھماری بد قسمتی کی برصغیر کے وجود پر پڑی لکیر کی دوسری طرف دلیپ کمار کے سیاسی کردار اور جدوجہد سے ھم لا علم ہیں۔ لیکن جنتا ھم دلیپ کمار کو اس کی ادا کاری ، انسانی رویوں اور ان کی مجلسی گفتگو کے ذریعے جانتے ہیں۔ ان کے عظیم اور لیجنڈ ہونے پر شاید ان کا کوئی مخالف یا دشمن بھی معترض نہیں ہوگا۔۔۔۔
رھے پرویز ملک ! ان کے ساتھ تو بیٹھنے اٹھنے ، ان کو سننے، ان سے سیکھنے، ان سے شکتی حاصل کرنے اور نظریاتی تربیت حاصل کرنے میں تو ھمیں کئی ماہ و سال ان کی صحبت میں گزارنے کو ملے ۔۔۔۔۔۔ کامریڈ پرویز ملک ایک عملی سیاسی ، انقلابی مارکسسٹ کارکن اور رہنما تھے۔ کامریڈ پرویز ملک نے اپنی شعوری زندگی کی نصف صدی سے زائد سالوں کو پاکستان جیسے ملک میں کیمونسٹ نظریات کی آبیاری میں گزارے ۔ این ایس ایف سے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔ اور آخری سانس تک مارکسسٹ نظریات کی روشنی میں طبقاتی جدوجہد کرتے رھے ۔ کامریڈ پرویز ملک کی طبقاتی سماج کے بدلاؤ بلکہ خاتمے کی جدوجہد کے دشت کی سیاحی میں بے شمار شاگرد ہیں۔ جو آج خود استاد بن کر مارکسسٹ نظریات کا پرچم بلند کیے ہوئے ہیں ۔ ھم نے بہت عرصہ ان سے سیکھا۔ وہ طبقاتی جدوجہد کے انتہائی بزرگ ساتھی تھے۔ مگر انقلابی تنظیم یا ان کے ارد گرد کے سماج میں ان کی عزت و تکریم کی وجہ ان کے سفید بال یا چہرے کی جھریاں نہیں تھیں۔ بلکہ ان کے احترام اور ان سے محبت کی بنیادوں میں ان کا مارکسسٹ نظریات پر غیر متزلزل یقین تھا۔۔۔۔۔۔
ھم نے کئی بار اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کامریڈ پرویز ملک جب کبھی اپنی جسمانی کمزوری کی وجہ سے نقاہت کے ساتھ کسی تنظیمی میٹنگ یا سالانہ کانگریس کے سٹیج پر بات کرنے آتے مگر جب بات شروع کرتے تو وہ سماجی مسائل کو سمجھنے کی پختگی اور اپنے لہجے کی گھن گرج سے تمام دوستوں کا لہو گرما دیتے تھے ۔ میرے سمیت ھمارے سب دوست اور ان کی قربت میں وقت گزارنے والے سب لوگ اس بات کے گواہ ہیں کہ پرویز ملک کو کسی ایک لمحے کیلئے بھی حالات کا رونا روتے یا اپنے ذاتی مسائل کا ذکر کرتے کسی نے نہیں دیکھا ۔ کامریڈ پرویز ملک عمر کے لحاظ سے بہت شفیق اور بزرگ تھے۔ مگر اپنے عمل اور اپنے کل وقتی یا ہر وقتی قہقہوں کے لحاظ سے بہت جوان اور توانا۔۔
ھم آج ان کے جسمانی وداع کے بعد ان کی شفقت کے مقروض اور احسان مند ہیں جبکہ ان کی نظریاتی، انقلابی مارکسسٹ کمٹمنٹ اور قہقہوں سے شکتی لیتے ہوئے اس طبقاتی سماج کے خاتمے کیساتھ ساتھ محنت کش طبقے کی زندگی سے ہر طرح کے رنج، دکھ، درد ، غم ، ذلتوں اور اذیتوں کے خاتمے کی جدوجہد کا عزم کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ کامریڈ پرویز ملک ! سرخ سلام ۔
مبارک باد اور سرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ
اک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں۔۔۔رؤف لُنڈ
کامریڈ نتھومل کی جدائی ، وداع کا سفر اور سرخ سویرے کا عزم۔۔۔رؤف لُنڈ
زندگی کا سفر سر بلندی سے طے کر جانے والے کامریڈ کھبڑ خان سیلرو کو سُرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر