نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

میلہ منگڑوٹھہ ||فضیل اشرف قیصرانی

آج وہ کوڑو فقیر کا پیٹا زندہ ہوتا تو ہم اسے ضرور بتاتے کہ حضور کاہے کی بے حیائ کہ اب لوگ ہنسنا مسکرانا بھول چکے ہیں۔بھول چکے ہیں وہ کہ تفریح کس بلا کا نام ہے

فضیل اشرف قیصرانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سنڑ اُٹھیں دا جتوال!!
دل اڑ گی تیڈےنال!!
انسانوں کا رضاکارانہ میلاپ میلہ کہلاتا ہے۔کوہِ سلیمان جہاں تنہائی
اور یکسوئ کی زمین ہے وہیں ہمارا کوہِ سلیمان اِنسانوں کے میلاپ یعنی میلوں کی سر زمین بھی ہے۔تنہائ،یکسوئ،دوری اور یکسانیت سے اکتاۓ کوہِ سلیمان کے باسی میلے کو صرف ایک تہوار کے طور پر نہیں مناتے بلکہ وہ میلے کے روحانی،ثقافتی،سماجی اور معاشرتی اثرات و ثمرات کو بھی سمیٹنے کی غرض سے میلے میں شریک ہوتے ہیں۔
زندہ پیر،سخی سرور،امیر شاہ،چتر وٹہ اور منگڑوٹھہ کا میلہ چند ایک میلے ہیں جو کوہِ سلیمان یا اُسکے دامن میں مناۓ جاتے ہیں۔منگڑوٹھہ کا میلہ دیگر تمام تر میلوں سے قدیم ہے۔اِس میلے کی تاریخ ہندو مذہب کے روحانی و ثقافتی تہوار دوسہرا کے مُنعقد ہونے سے مُنسلک ہے جسے دھرتی واس ڈاسارا کہتے ہیں۔
دُوسہرا کے تہوار کو ہندو مذہب میں دوسرے تہواروں ہولی اور دیوالی پر سبقت ہے کہ مانا جاتا ہے کہ ہولی اور دیوالی عوام مناتے ہیں جبکہ راجہ اور مہاراجہ یعنی خواص دوسہرا مناتے ہیں۔
ایک جانب مذہب اور تہوار قدیم اور دوسری جانب مقامِ میلہ منگڑوٹھہ کی قدامت اور پھر میلے کی جغرافیائ،لِسانی،کاروباری،معاشرتی اور ثقافتی وُسعت اس میلے کی انفرادیت ہیں۔
May be an image of animal and outdoors
غیر منقسم ہندوستان اور افغانستان بذریعہ بلوچستان کا ثقافتی اور لِسانی سنگم اگر آپ ڈھونڈنے نِکلیں تو منگڑوٹھہ وہ مقام بنتا ہے کہ جہاں دو جدا تہازیب باہم ملتی ہیں۔آج بھی روائتی خانہ بدوش/پاوندے جو غیر مقیم ہیں اُنکا آخری مقام دریاِ سندھ کا مغربی کنارہ ہی ہوتا ہے اور منگڑوٹھہ ٹھہرا بلوچ وطن کا مغربی جانب بڑا کاروباری مرکز۔
جہاں ہر شۓ کو ارتقا ہے وہیں منگڑوٹھہ کا میلہ بھی اپنے کئ ارتقا دیکھ چکا ہے۔اس میلے کی بنیادی انفرادیت بلوچ کے پرانے ساتھی اونٹ کی خرید و فروخت ہے۔کئ نسلوں اور کئ رنگوں کے اونٹ۔ماھرے،دامانی،بگے،بھورے،روہیلے،کالے اور نجانے اور کتنی نسلوں کے اونٹ۔ان اونٹوں کے مالک سُچل دھرتی واس بلوچ،پشتون،دامانی،بٹوڑی،روہی دے روہیلے اور سرائیکی اپنی ساری ثقافت کی خوبصورتی ساتھ لیے آپکو اس میلے سے لطف اندوز ہوتے نظر آئیں گے۔پلانڑ ساز،ٹِلی فروش،نکیل،مھار اور مھار اور نکیل کی رسی بیچنے والے،جھانجر فروش،اونٹوں کے بالوں کو تراش کر اونٹوں کی سجاوٹ کرنے والے فنکار،اونٹ کی کھال پر مہندی سے نقش بنانے والے اور اونٹ کی گردن اور پُشت پر الفاظ کندہ کرنے والے کلاکار اور میلے کی خرید و فروخت میں اپنا کِردار ادا کرنے والے دلال اس میلے میں اونٹ مالکان کے علاوہ ناگزیر لوگ ہیں۔
ہمیں مگر اپنی ہر خوبصورت شۓ میں زوال ہے اور ہم مجبور ہیں کہ جب تک زوال کا ذکر نہ کریں دھرتی کا واجب قرض ادا نہیں ہوتا۔نجانے وہ کون تھا جو بُخاری شاہ اور کوڑو فقیر کا پیٹا انسان تھا جسے میلے کے لوازمات میں بے حیائ نظر آئ تھی۔کون تھا وہ جسے موت کے کُنویں،تھیٹر،تاش کے پتوں،نڑ سُر،جھمر اور چھکوں میں بے حیائ،عُریانی اور فحاشی نظر آئ تھی۔
May be an image of 1 person and outdoors
آج وہ کوڑو فقیر کا پیٹا زندہ ہوتا تو ہم اسے ضرور بتاتے کہ حضور کاہے کی بے حیائ کہ اب لوگ ہنسنا مسکرانا بھول چکے ہیں۔بھول چکے ہیں وہ کہ تفریح کس بلا کا نام ہے۔تھیٹراور موت کے کنویں میں ناچ کر محنت سے کمانے والے فنکار آج سگنلز پر بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔تاش اور چھکوں پر دس روپے فی کس تفریح کے لیے کھیلا جانے والا جوا آپ سے برداشت نہ ہوا اور اب خیر سےسعودی عرب میں casino کھل رہے ہیں۔جُھمر کے دولی مر کھپ گۓ کہ آپکو تب ملنے والا پیسہ آپکو باور کرا چکا تھا کہ یہ ہماری تہذیب نہیں۔آپکو تئوکلی مست کی وہ بدعا لگی کہ آپ صرف آنکھوں سے اندھے نہیں ہوے بلکہ عقل و شعور سے بھی جاتے رہے کہ ہماری تہذیب تھی ہی ڈھول اور جھمر اور ہمیں اس پہ بجا طور پر فخر ہے۔
مگر دھرتی واس،son of soil اور گل زمین کے فرزند سلامت کہ میلے آج بھی ہو رہے ہیں اور میلے کے رنگ سلامت کہ ہم آج بھی ان سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ہمارا فرض اپنے میلے اپنے نسلوں کو سپرد کرنا ہے اور ہم یہ کر کے رہیں گے۔
سو ہمارے میلے زندہ آباد
میلے کے رکھوال اور جت وال زندہ آباد
اور یقیناً میلوں سے لطف اندوز ہونے والے،اسے اپنانے والے اور اُن پہ فخر کرنے والےسب زندہ آباد

About The Author