اشفاق لغاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی جینے کے لیے دنیا میں ابھی تک کوئی زمینی نصاب تو تیار نہیں ہو سکا، مگر زندگی کو قید کر کے کاٹنے کے آسمانی نسخے ضرور موجود ہیں۔ زندگی کو سماجی روایات و آسمانی نسخوں کے قید سے آزاد کروانے کے لیے ہر دور کے سیاسی، سماجی اور نفسیاتی علوم کے ماہرین کی طرف سے اپنے اپنے خیال کی چابی پیش کی جاتی رہی ہے۔ گزشتہ ماہ مردوں کی سوچ اور نفسیات کے بارے میں ”سادھووں اور پاپیوں کے بیچ“ BETWEEN SAINTS AND SINNERS: Understanding Men کے نام سے ایسی ہی ایک چابی کا اضافہ ہوا ہے۔ ڈاکٹر کامران احمد کی جانب سے متعارف کروائی گئی یہ چابی ہزاروں سالوں سے آسمانی نسخوں، سماجی روایات و رسوم کے قید خانے میں بند انسان کی زندگی کو کھولنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے یا نہیں اس کے لیے ہمیں ایک بار چابی لے کر اپنے ذہن سے آزمانی ضرور ہے۔ یہ چابی ہم سب مردوں کو (وہ سادھ ہوں یا پاپی) اپنے اندر کی دنیا کو نہیں سرے سے دیکھنے کے مواقع مہیا کرتی ہے۔ مذکورہ کتاب کا مرکزی نقطہ پدرسری نظام میں مرد کی سوچ، نفسیات، رشتے، تعلقات، سماجی رہنی کہنی، مسائل اور خوشی و غمی ہے۔
ڈاکٹر کامران احمد پیشے کے لحاظ سے ماہر نفسیات ہیں، اقوام متحدہ کے ساتھ انہوں نے تقریباً 25 سالوں تک مختلف ممالک میں کام کیا ہے۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے مشرقی روحانیت کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ہے۔ دنیا کا کوئی بڑا مندر، مسجد، کلیسا اور مراقبے کا ایسا مرکز نہیں جہاں ڈاکٹر کامران نے وقت نہ گزارا ہو۔ ان کو انسانی حقوق، عورتوں کے حقوق، امن و رواداری قائم کرنے کے لیے کام کرنے والے ملکی و غیر ملکی اداروں اور تنظیموں کے ساتھ سرگرم رہنے کا اضافی تجربہ حاصل ہے۔ ڈاکٹر کامران کے اس وسیع تجربہ کا عرق ”سادھووں اور پاپیوں کے بیچ“ BETWEEN SAINTS AND SINNERS کے نام سے اب مارکیٹ میں موجود ہے۔
زندگی کو صرف مرد کی آنکھ سے دیکھنے والوں کے لیے ڈاکٹر کامران اپنی اس کتاب کی صورت میں جو دوائی لے کر آئے ہیں، اس کا ایک وزن ہر مرد و زن کے ذہن سے ضرور گزرنا چاہیے۔ کیونکہ ڈاکٹر کی یہ دوائی نہ صرف ایک ماہر نفسیات کی پیش کردہ ہے بلکہ انسانی حقوق، عورتوں کے حقوق اور روحانی رموز کے مفکرین اور تحریکوں کا قریب سے مشاہدہ و مطالعہ رکھنے والے ایک ڈاکٹر کی تجویز کردہ ہے۔ زندگی کو کسی قید میں ڈالے بغیر بھی متوازن بنا کر جیا جا سکتا ہے۔ وہ کیسے اس کے لیے ڈاکٹر کامران احمد کی بنائی گئی میزان ”سادھووں اور پاپیوں کے بیچ“ میں اپنے آپ کو رکھ کر اپنا وزن کرنا ہوگا۔
مرد کی حاکمیت کا جو تصور ہے، اس تصور کی بنیاد کیا ہے اس حاکمیت اور فتح کے تصور کی وجہ سے مرد و عورت کو کس طرح زندگی میں بھگتنا پڑتا ہے۔ اس بھیانک تصور کی وجہ سے مرد زیادہ تکلیف سے گزرتا ہے یا عورت؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر کامران کی طرف سے کرداروں کی مدد سے پیش کردہ کہانیاں ہماری مدد کر سکتی ہیں۔ مرد کا یہ حال ہے کے وہ اپنے کسی رنج و غم کے دوران دل بھر جانے کی صورت میں آنکھیں نم کرنے کا بھی اختیار نہیں رکھتا۔
صرف اس ڈر کے مارے کے لوگ کیا کہیں گے۔ اور کہیں سے کوئی یہ روایتی زہر آلود جملہ نہ کس دے ”مرد بن مرد، عورتوں کی طرح یہ رونا بند کر“ وغیرہ۔ اس طرح کے بہت سارے معاملات ہیں جو ڈاکٹر کامران کی اس کتاب میں زیر بحث لائے گئے ہیں۔ مرد اور عورت کے سماجی رتبے سے لے کر جذبات تک کو ڈاکٹر کامران نے گہرائی سے اپنے مطالعے، مشاہدے اور تجربات کی چھانی سے گزارنے کے بعد کتابی صورت میں لکھا ہے۔
اپنی سجنی اور ساجن کو روح کی بیٹھک میں بٹھانے کے لیے سوچ، جذبات اور حساسیت کا سامان اکٹھا کرنے کا انتظام کیسے ہوتا ہے، وہ سامان ٹوٹتا اور بکھرتا کیسے ہے؟ ڈاکٹر کا کہنا ہے کے اس کے لیے ہر فرد کا کسی تربیتی کورس سے نہیں بلکہ عشق نامی ایک ”صحتمند مرض“ سے گزرنا لازم ہے۔ اپنے اس دلیل کی وضاحت میں ڈاکٹر کامران فیض صاحب سے تھوڑی ادھار لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔
ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا سیکھا ہے
جز ترے اور کو سمجھاؤں تو سمجھا نہ سکوں
عاجزی سیکھی غریبوں کی حمایت سیکھی
یاس و حرمان کے دکھ درد کے معنی سیکھے
زیر دستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا
سرد آہوں کے رخ زرد کے معنی سیکھے
سچے واقعات اور کہانیوں میں ڈاکٹر کامران نے فرضی نام ڈال کر اپنی بات ہم تک موثر انداز میں پہنچائی ہے۔ سدھارتا، تانیا، سلمان، رانجھن، عدنان اور نتاشا اور دیگر کرداروں کی کہانیوں کے ساتھ ساتھ اس کتاب میں ڈاکٹر کامران کی اپنی کہانی جو کے سبق آموز اور بڑی پرکشش ہے وہ بھی پڑھنے کو ملتی ہے۔ اس کتاب کے لیے ڈاکٹر کامران نے انسانی جذبات اور دل کی تاریں چھیڑنے والے موضوعات چنے ہیں۔ ان موضوعات پر دنیا میں زیادہ تر خشک انداز میں مواد موجود ہے مگر ڈاکٹر کا یہ فن کمال ہے کے انہوں نے حقائق کو کرداروں کی مدد سے کہانی بنا کر پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر کامران سے پہلے بالکل اسی انداز سے ان کی بہن اور پاکستان میں عورتوں کے حقوق کی جدوجہد کا بڑا نام ڈاکٹر فوزیہ سعید اپنی کتاب ”بیھڑ کی خال میں“ Working with sharks لکھ چکی ہیں۔ جو جنسی ہراسانی پر ایک مقبول کتاب مانی جاتی ہے۔ بس تو جناب! کتاب پڑھیں اس سے پہلے کے تم پر کتاب پڑھی جائے۔
ڈاکٹر کامران کو ایک اور کتاب لکھنے پر مبارک۔
یہ بھی پڑھیے:
نایاب سیاسی نسل کے سیاستدان کی جدائی! ۔۔۔ اشفاق لغاری
ظالم صوبائی اکائیاں اور مظلوم وفاق! ۔۔۔ اشفاق لغاری
قوم کے بچے ہود بھائی اور حنیف نہیں، فیاض الحسن چوہان پڑھائیں گے! ۔۔۔ اشفاق لغاری
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر