محمد اکرم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناشتہ امرتسر میں، دوپہر کا کھانا لاہور میں اور رات کا کھانا کابل میں۔ بھارت کے سابق وزیراعظم من موہن سنگھ کے تقریباً ڈیڑھ دہائی قبل پاکستان کے دورے کے دوران کہے یہ الفاظ آج بھی اس بزرگ کی نصیحت جیسے محسوس ہوتے ہیں۔ جو وقت سے آگے جاکر دیکھنے اور سمجھنے کا گیان رکھتا ہو۔ اگرچہ من موہن سنگھ کے الفاظ تقسیم ہند سے قبل کے ان ادوار کا احاطہ کرتے ہیں جب بارڈر نہیں تھے، اور کوئی دلیپ کمار یا راج کپور پشاور سے ٹرین میں سوار ہو کر بمبی (ممبئی) یا کلکتہ (کولکتہ) جا کر نئے مستقبل کی شروعات کر سکتا تھا۔ لاہور سے دہلی یا امرتسر جانا ایک گھر سے دوسرے گھر جانے جیسا ہوتا تھا۔ پھر راستے مسدود ہوئے آنا جانا کم ہوتے ہوتے بند ہوا اور آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل کے مصداق لوگ کنویں کے کیچڑ میں پھنسے مینڈک جیسے بنتے گئے۔ لاہور والے امرتسر کی حلوہ پوڑی یا دودھ میں گندھے کلچے کا ذائقہ بھول گئے۔ دہلی والے اور امرتسری لاہور کے دوپہر کے کھانوں کی مہک تک سے محروم ہوئے اور ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کے لئے کابل تو جیسے ایک ایسی دنیا بن گیا جو اب کبھی خواب میں بھی نہیں آتا۔
وقت کا کانٹا چلتے چلتے جب 1979 تک پہنچتا ہے تو جیسے اس خطے کے لئے رک سا جاتا ہے۔ افغانستان کے لئے ادھورے انقلاب ثور سے شروع ہونے والا ابتلاء کا دور کفر و اسلام کی جنگ لڑتا ہوا، گرم پانیوں تک پہنچنے سے پہلے تزویراتی گہرائی میں ایسا دھنستا ہے کہ دہشت گردی اسے ناک ناک تک دلدل میں پھنسا دیتی ہے۔
پاکستان کا مرد مومن مرد حق امریکہ کی افغانستان میں لڑائی لڑنے کے لئے ایسا ملا ملٹری اتحاد بناتا ہے کہ اب اس کمبل سے لاکھ جان چھڑائیں یہ کمبل ہمیں نہیں چھوڑ رہا۔ پاکستان کے طول و عرض میں پہلے مجاہدین اور پھر طالبان بنانے کا دھندہ ایسا منافع بخش ثابت ہوا کہ مخصوص مسلک کے مدرسوں کی لڑیاں خود رو گھاس کی طرح اگنے لگیں۔ سلفی اسلام اور دیو بند مدارس کی فرینچائز ایسے علاقوں میں بھی کامیابی سے کاروبار کرنے لگیں جہاں اکثریتی آبادی بریلوی مسلک سے جڑی ہوئی تھی۔
دہشت گردی کی آگ جب 9 / 11 کی صورت میں مغرب کے ٹھنڈے ایوانوں کو بھی جھلسانے لگی تو طالبان کے گلے میں پھولوں کے ہار پہنانے والے نے روشن خیالی کا چوغہ اوڑھ لیا مگر لگاتار جھوٹ اور دوغلی پالیسی بھی اسے نہ بچا سکے، مگر اس کے نتیجے میں پاکستان کے عوام نے ایسی دہشت گردی بھگتی کہ جس کی دوسری مثال صرف افغانستان کی ہی ہو سکتی ہے۔ یا یہ کہ پاکستان کے فوجیوں کو وردی میں عوامی مقامات پر آنے جانے سے ہی روک دینا پڑ گیا۔
فاسٹ فارورڈ کرتے ہوتے موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جرمنی کے شہر میں تین برس قبل کی گئی تقریر کا حوالے اہم ہے جس میں انہوں نے تسلیم کیا کہ خطہ اور خاص طور پر پاکستان آج وہی کاٹ رہا ہے جو چالیس سال پہلے بویا گیا تھا۔ اس وقت کے قومی سلامتی کے مشیر نے بھی اسلام آباد میں تقریر کرتے ہوئے افغان طالبان کو ایسے سانپ قرار دیا تھا جنہیں دوسرے کے صحن میں پالتے وقت نہ سوچا گیا کہ یہ کل ہمیں بھی ڈسیں گے۔
امریکی صدر جو بائیڈن کے افغانستان سے امریکی اور دیگر مغربی ملکوں کی افواج کے انخلا کے اعلان کے بعد خطے میں تیزی سے تبدیل ہوتی صورت حال جہاں آج کی دنیا کو ویتنام میں امریکی پسپائی جیسے مناظر دوبارہ دیکھنے کا موقع کرے گی۔ وہیں افغانستان میں وہ مناظر دوبارہ دیکھنے کو مل سکتے ہیں جب افغان مجاہدین نے 1987 میں روسی فوجوں کی واپسی اور بعد کے حالات میں امریکی عدم دلچسپی کی بدولت کابل پر مجاہدین کی ٹینکوں کے ذریعے چڑھائی کی صورت میں دیکھے تھے۔ نہ صرف کابل کی اینٹ سے اینٹ بجائی گئی اور اس کھنڈرات کا ڈھیر بنایا گیا بلکہ بعد میں افغان صدر نجیب اللہ سمیت درجنوں لوگوں کو سرعام پھانسی دے کر ان کی لاشوں کو ہفتوں کے لئے چوراہوں پر لٹکا دیا گیا تھا۔
اب کیا ہوگا؟
دنیا اس خطرے کو تو بھانپ چکی ہے کہ افغانستان میں طالبان کو طاقت کے زور پر حکومت بنانے سے روکنا مشکل ہی نہیں نا ممکن نظر آ رہا ہے۔ ایک طرف پاکستان کا یہ کہنا کہ افغان طالبان پر اس کا اثر و رسوخ کم یا ختم ہو چکا اور یہ کہ امریکہ کو فوجی اڈے دے کر پرائی جنگ لڑنے کی غلطی نہیں دہرایا گا، نہایت خوش آئند ہی دلیرانہ بھی ہے، مگر وہیں بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول کی قطر میں افغان طالبان کے سیاسی مشیران سے ملاقاتیں، جو ایک طرف تو بھارت کا الٹا لٹکنے کے مترادف ہے، وہیں یہ پاکستان کے لئے افغانستان میں نیا پینڈورا باکس کھلنے کے برابر بھی ہے۔ محض یہ کہہ دینا کہ افغانستان میں طالبان کا دوبارہ اقتدار ناقابل قبول ہے اور یہ کہ اگر وہ اقتدار میں آ گئے تو انہیں انسانی حقوق خاص طور پر عورتوں اور بچیوں کو حقوق سے محروم رکھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، شکست کو مکمل طور پر تسلیم کرنے سے مختلف نہیں۔
یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ امریکہ اور مغربی طاقتوں کی پسپائی جہاں افغانستان میں ایک نئے انسانی المیے کو جنم دے رہی ہے وہیں وہ جنوبی ایشیا کے لئے جنگ کے نئے محاذ کھول دے گی اور پورا خطہ افغانستان میں ہونی والی خونریزی سے ایک بار پھر بری طرح سے متاثر ہوگا۔ افغانستان کے حالات کی ذمہ داری پوری دنیا اور خاص طور پر اس کے پڑوسی ملکوں پر عائد ہوتی ہے۔ افغان بھی اس ذمہ داری سے مبرا نہیں کہ انہوں نے تقریباً دو دہاییاں امریکی اور مغربی ملکوں سے ملنے والی امداد پر گلچھرے تو اڑائے مگر نہ سوچا کہ غیرت مندی امداد میں نہیں اس کے ذریعے قومی تعمیر میں ہے۔
اب کیا کیا جائے؟
اس سے پہلے کہ افغانستان میں جنگ مزید پھیلے اور ایک سے ایک نیا انسانی المیہ جنم لے۔ ، دنیا کو سوڈان کی تقسیم کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے، امن کی خاطر ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جن کا فیصلہ میدان جنگ میں نہیں بلکہ مذاکرات کی میز پر ہوا افغان طالبان سے خوفزدہ ہو کر ان کے ناز نخرے اٹھانے کی بجائے انہیں بتانا ہوگا ہے کہ وقت کا پہیہ پیچھے کی طرف نہیں مڑ سکتا۔ آگے بڑھنے کے لئے شراکت اقتدار اور امن کا راستہ چننا ہوگا۔ پاکستان اور ہندوستان کو افغانستان میں اپنے اپنے حلیفوں کو مضبوط بنانے کی بجائے اب کی بار ہٹ کر سوچنا اور فریقین کو مذاکرات کے ذریعے فیصلے کرنے پر راضی کرنا ہوگا۔ افغان طالبان کو افغانستان میں امن کو موقع دینا ہوگا۔ کابل انتظامیہ کو مال مفت دل بے رحم کا رویہ چھوڑ کر سماج کو ترقی دینا ہوگی۔
مایوسی اور نا امیدی کے اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں من مون سنگھ کی خواہش کہ آبا و اجداد کی طرح امرتسر میں ناشتہ، لاہور میں لنچ اور ڈنر کابل میں ہو تو خطہ ایک بار پھر امن اور ترقی کی منزلوں کو چھو سکے، محض شیخ چلی کا خواب ہی ہو سکتا ہے، مگر اگر خواب نہ دیکھے جائیں یا خواب آنے بند ہوجائیں تو یہ محض دماغ کا خلل نہیں ہوتا وہ سب کوتاہیاں بھی اس کی ذمہ دار ہوتی ہیں جو جہالت، مفاد پرستی، خود ستائشی یا نرگسیت کی کوکھ سے جنم لئے ہوتی ہیں۔
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
یہ بھی پڑھیں:
عام انسان اور ترجمان۔۔۔سہیل وڑائچ
فردوس عاشق کی 9 زندگیاں۔۔۔سہیل وڑائچ
تاریخ کا مقدمہ بنام اچکزئی صاحب!۔۔۔سہیل وڑائچ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر