نور الہدیٰ شاہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس ملک کا پہلا صادق و امین جنرل ضیاء تھا۔
جو خود ایک ایسا نفسیاتی مریض تھا جسے بھٹو دشمنی میں جل کر سیاہ ہو چکے مولویوں اور فتویٰ سازوں نے وردی کے اوپر امیرالمومنین کی شیروانی پہنائی تھی۔
انہوں نے اسے اس ذہنی بیماری میں مبتلا کر دیا تھا کہ ایک بھٹو کو پھانسی چڑھا کر تم بخشے جا چکے ہو۔ تمہارے تمام پوشیدہ گناہ کبیرہ بھی اور صغیرہ بھی معاف ہو چکے ہیں۔ اب تم باوضو ہو۔
ہر انسان کی طرح وہ بھی اپنی ذاتی زندگی میں گناہوں اور خطاؤں سے گزرا ہی ہو گا۔
جب آیا تھا تو گناہوں کی سی نحوست برستی تھی اس کے چہرے پر۔ بڑی بڑی مونچھیں اور ایک نارمل انسانی چہرے سے مختلف دکھتا چہرہ۔ آنکھیں ویرانے کی طرح بھائیں بھائیں کرتی تھیں اس کی۔ مسکراتا تو دانت نکوستا ہوا محسوس ہوتا۔ عام سی بے تاثر آواز۔ ہاں اردو اس کی صاف ستھری تھی۔
ان دنوں مغربی میڈیا اسے گھوڑے جیسی شکل والا لکھتا تھا۔
5 جولائی 1977 کو پاکستان ٹیلی ویژن کی اسکرین پر اس نے اپنی پہلی رونمائی بسم اللہ الرحمان الرحیم ۔۔۔۔ نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم کہتے ہوئے جھوٹ کے ساتھ کی کہ وہ کوئی لمبی پلاننگ کرکے نہیں آیا۔ نوے دن میں اقتدار عوامی نمائندوں کو لوٹا دیا جائے گا۔
انہی نوے دنوں کے دوران ہی، گزرتے وقت کے ساتھ جوں جوں اس کے اندر اپنے بخشے ہوئے ہونے کی خوش فہمی کا زعم تناور درخت بنتا گیا اور اسے بھٹو کی عفریت سے جان چھڑانے کے صلے میں صادق اور امین ہونے کی مقدس شراب پلائی جاتی رہی، وہ بھی ابلیس کی طرح سرکش ہوتا چلا گیا کہ آدم کو سجدہ کیوں کروں!
وہ بھی اس آدم کو جو زمین پر فساد برپا کرنے والا ہے!
بھربھری کھنکتی مٹی سے بنا ہوا!
No way ۔۔۔۔۔
میں خود اعلیٰ تخلیق ہوں جس کے سجدوں کا حساب ممکن نہیں۔
مگر یہی تو عیاں معاملہ ہے کہ خالق نے خود ہی اپنے سجدوں پر فخر کرنے والے اور آدم سے نفرت کرنے والے کو ابلیس قرار دیا اور نفس کے مارے بیچارے آدم کو اشرف المخلوقات قرار دیا۔
اپنے سجدوں کے زعم میں ضیاء الحق نے روزِ محشر سے پہلے پاکستان میں برسوں حشر کا میدان برپا کیے رکھا۔ خود بڑے تکبر سے تنی گردن کے ساتھ اپنی ہر محفل کی ابتدا اس نعت سے کرواتا ۔۔۔۔۔ یہ سب تیرا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے۔۔۔۔ ! جیسے کرم صرف اسی پر ہے۔
اوپر سے اس کے ہاتھ جہاد کا کارڈ آ گیا۔
ضیاء الحق کا جہاد دیکھنا ہو تو آج بھی یو ٹیوب پر پڑی ہوئی وڈیو دیکھی جا سکتی ہے جس میں مارگریٹ تھیچر کے ساتھ وہ یوں کھڑا ہے جیسے وکٹوریہ کے ساتھ غلام۔ مارگریٹ تھیچر اپنے قدموں کے قریب زمین پر بیٹھے افغان طالبان سے نعرے لگوا رہی ہے۔ وہ کہتی ہے، نعرہِ تکبیر۔ اور اس کے قدموں کے قریب زمین پر بیٹھے مجاہدین کہہ رہے ہیں اللہ اکبر۔
اس ضیاء کے دماغ میں یہ بھُس بھرا گیا تھا کہ وہ قدرت کی طرف سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سب سے اونچی کرسی کے لیے خاص طور پر منتخب کیا گیا ہے، کیونکہ ایک وہی ہے جو صادق اور امین ہے۔
کیونکہ ایک وہ ہی ہے جو اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم رکھتا ہے اور اسلام کے منشور کردہ فرائض کا پابند ہے اور نیز کبیرہ گناہ سے اجتناب کرتا ہے۔
کیونکہ ایک وہ ہی ہے جو سمجھدار ہے، پارسا ہے، ایماندار اور امین ہے اور کسی عدالت کا فیصلہ اس کے برعکس نہیں ہو سکتا۔
کیونکہ ایک وہ ہی ہے جو کسی مجاز عدالت کی طرف سے فاتر العقل قرار نہیں دیا جا سکتا۔
نتیجتاَ اس نے بھی لفظ اسلام کو جگہ جگہ استعمال کر کے اس فاترالعقل قوم کو اس طرح پھنسا دیا کہ ہر گنہگار فطری طور پر اس کے بُنے ہوئے جال کے خلاف آواز اُٹھانا تو درکنار، سوچنا بھی گناہ سمجھنے لگا۔
کون جا کر تحقیق کرتا ہے کہ قرآن میں کیا لکھا ہے اور کیا نہیں! کونسی حدیث مستند ہے اور کونسی ضعیف!
اسلام کیا کہتا ہے اور کیا نہیں اور کیا حکم کہاں لکھا ہے اور اس کے معنی کیا ہیں اور اس کی لاتعداد تشریحات کیا کیا ہیں؟ پھر وہ تشریحات فرقہ وارانہ درجوں میں کیسے کیسے بٹی ہیں؟
یوں بھی ہر مسلمان اپنے اپنے دنیاوی گناہوں کی پوٹلی بغل میں دبائے پھرتا ہے اوپر سے انجانے میں حکمِ خداوندی سے انحراف کا مجرم نہ قرار پا جائے، اس خوف سے اس مسلمان قوم نے اپنی اپنی گردن اپنے اپنے گھٹنوں میں چھپا لینے ہی کو آخرت کی نجات جانا۔
ضیا ذہین نہیں تھا۔ بلکہ تابع فرمان تھا۔ اس کا اندازہ مارگریٹ تھیچر والی وڈیو دیکھ کر ہوتا ہے۔ اور یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اس کھیل کا ڈزائینر بننے کے بھی وہ اہل نہیں تھا۔
بس ڈزائین کی فوٹو کاپیاں بنا بنا کر اس مسلمان قوم میں تقسیم کرنا اس کا کام تھا۔
وہ فطری طور پر تابع فرمان تھا۔ ایک ایسا تابع فرمان جو کمر سے زرا سا جھک جھک کر چلتا ہے۔ چہرے پر مصنوعی انکساری رکھتا ہے۔ سامنے والے سے نگاہ چُرا کر ملتا ہے۔ بازو غلامانہ انداز میں باندھے رکھتا ہے۔ جس کی مسکراہٹ میں خلوص نہیں شرمندگی اور احساسِ کمتری ہوتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا کر چلتا ہے، کہ دوسرے کو گمان گزرے کہ وہ اس سے ایک قدم پیچھے ہو کر چل رہا ہے۔
جبکہ یہ ایک طاقت ور فوج کے سپہ سالار یا کسی ملک کے سربراہ کا پوسچر ہو ہی نہیں سکتا۔
مگر اس کے اس انداز کے پیچھے سے بھی اس کا تکبر جھانکتا تھا کہ دیکھو ایسا، مجھ جیسا ہوتا ہے مکمل مومن اور صادق اور امین۔ مجھ جیسا ہی اس ملک پر حکمرانی کر سکتا ہے۔ جو کہ میں ہوں۔
اسے اپنے مداح بنانے کا بھی شوق تھا اس لیے وہ آگے بڑھ بڑھ کر درباریوں کو جھپیاں مارتا تو درباری کھل کھل اٹھتے اور فخر کرتے اور مداح بن جاتے اور مزید مداح گھیر گھیر کر لاتے۔
اس کا یہ شخصی ڈزائین مزید اس لیے پالش کیا گیا تھا کہ اسے پھانسی چڑھ چکے ایک سویلین لیڈر کی بپھری ہوئی روح سے مقابلہ کرنا تھا، اس کے تضاد میں ایک منکسرالمزاج جسم کی صورت۔
اس کے جنون کا اظہار یہ تھا کہ اس کے حکم پر لاتعداد لوگ ناکردہ گناہوں کی سزا میں ننگی پیٹھ پر کوڑے کھا رہے ہوتے، سڑکوں پر عورتیں بالوں سے پکڑ کر گھسیٹی جا رہی ہوتیں، قید خانے بھرے جا رہے ہوتے اور فریاد سنے بغیر تھوک کے حساب سے کھڑے کھڑے سزائیں سنائی اور دی جا رہی ہوتیں اور جیل بھرے جا رہے ہوتے اور وہ بھیگی بلّی کی سی شکل بنائے مسکرا مسکرا کر لوگوں کی بھیڑ میں چہل قدمی کر رہا ہوتا۔ اس بھیڑ کا اہتمام بھی مختلف محفلوں کی صورت اپنے گرد کروانا اس کا خاص شغل تھا۔ اسے شاید سکھایا تھا اسے ڈزائین کرنے والوں نے کہ آرٹسٹوں، گلوکاروں، اداکاروں، ادیبوں، شاعروں، صحافیوں اور دانشوروں کو اپنے گرد جمع کیا کرو۔ یہ تمہارے گرویدہ ہو گئے تو سمجھو تم نے پھانسی چڑھ چکے سویلین لیڈر کی بپھری ہوئی روح کو مات دے دی۔
یہ نام نہاد صادق اور امین لوگوں کی ذاتی زندگیوں تک میں گھس گیا۔ اس نے مذہب کا استعمال سکھایا۔ شخصی عدالتیں لگانا اور انسانوں کے خون سے اپنے پوشیدہ گناہ اور اپنے بدبودار نفس کو دھونا سکھایا۔
اسکولوں کی زرا زرا سی بچیوں کو سفید ململ کے دوپٹے زبردستی اوڑھا کر یہ جتلایا کہ لڑکی کا سینہ ہی غور سے دیکھنے کی چیز ہے اور اسی میں مرد کے نفس کا شیطان چھپا ہے۔ دوسری طرف اپنی لاڈلی بیٹی کو ننگے سر، بوائے کٹ بالوں اور لڑکوں کے لباس میں سرکاری محفلوں میں ساتھ ساتھ لیے پھرتا تھا۔ پیچھے اس کے حکم پر جمہوریت کی جنگ لڑتی عورتوں کو بالوں سے پکڑ کر سڑکوں پر گھسیٹا جا رہا ہوتا۔
اسی نے اس سوچ کی بنیاد ڈالی کہ ایمان اور عبادت اللہ اور بندے کے بیچ کا معاملہ نہیں بلکہ یہ میلہ لگانے کا کام ہے۔ عبادت کا جگمگاتا بھڑکیلا شو پیش کرنا ہوتا ہے۔ ان مذہبی میلوں میں ثواب کی بندر بانٹ کرنے کا بازار لگانے کے ساتھ ساتھ اس نے اس قوم کو عام گنہگاروں کے پوشیدہ و ظاہری گناہ و خطائیں کھوجنے اور گنہگاروں پر ٹوٹ پڑنے کے شغل میں لگا دیا۔
یوں اس نے مذہب کو کمرشلائز اور گلیمرائز کیا۔
اسی نے دولہا بنے رنگ برنگے نعت خوانوں کی محفلیں اپنے آپ کو عاشق رسول ثابت کرنے کے لیے سجانا شروع کیں اور اپنے گرد نعت خوانوں کا جمگھٹا لگایا۔ اسلام کے نام پر کانفرنسز بلائیں۔
یوں کئی بڑے بڑے ادیبوں، دانشوروں اور مذہبی شخصیات نے اس کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا اور ضیاء کا ساتھ دینا گویا عین اسلامی قرار پایا۔
اپنے بیٹوں کو صدارتی محل میں محفوظ رکھا اور اپنے دور میں جوان ہوتے اس قوم کے بیٹوں کو اس نے جہاد کے نام پر رچائے گئے غیر مسلموں کے کھیل میں اتارا۔ اس کے پاس پھانسی چڑھ چکے سویلین لیڈر کی بپھری روح کے مقابلے میں دنیا کے سامنے سُرخرو ہونے کا یہی ایک راستہ تھا کیونکہ وہ دنیا کی نظروں میں برا ہو چکا تھا۔
سویلین لیڈر کو پھانسی چڑھانے کے جنون میں وہ کئی اسلامی ملکوں کے سربراہان کی اپیل کو ٹھینگا دکھا چکا تھا۔ اب اسے اسلام کے نام پر انہی کے سامنے سرخرو بھی ہونا تھا۔ اس کے لیے اس نے حکم ملتے ہی پاکستان میں جہاد کا اسٹیج سجایا اور سب کو اس میں لگا دیا۔
گو کہ اس میں اس کی پشت پر غیر مسلم جہاد ڈزائینرز کھڑے تھے۔ ورنہ وہ خود ایسی سہمی شخصیت کا مالک تھا کہ جہاد تو دور کی بات، وردی کی حالت میں بھٹو کے سامنے اس نے گھبرا کر جلتا ہوا سگار پتلون کی جیب میں ڈال دیا، جس کی تصویر آج بھی کہیں نہ کہیں موجود ہے۔
قوم اسلام اسلام کھیلنے میں لگ گئی۔ وہ اسلام جس کی بنیاد کلمہِ حق کہنے پر رکھی ہے اسی اسلام کے نام پر ضیاء نے کلمہِ حق کہنے والی زبانوں کو اپنا ثنا خوان بنا دیا۔
اس نے انہی ثنا خوانوں میں سے اپنی پسند کے صادق اور امین چُنے بھی اور مزید صادق و امین تخلیق بھی کیے۔
یہ صادق و امین اسے اپنے لیے نہیں چاہیے تھے۔ یہ جوان صادق و امین اسے ایک نہتی لڑکی کے مقابلے میں اتارنے تھے۔
سندھ میں ایم آر ڈی کی موومنٹ کی آگ کو بجھانے کے لیے ایک اور الاؤ چاہیے تھا۔ اس کے لیے کراچی میں ویسپا اسکوٹر سے ایک صادق و امین کو اتار کر طاقت کی ماچس تھما دی گئی۔
پنجاب میں نظیراں کے لیے اُن شعلہ بنے پنجابیوں کو ٹھنڈا کرنا تھا جو پنج دریاؤں کی طرح 1986 میں لاہور شہر میں ایک نہتی لڑکی پر اُمڈ پڑے تھے جو بندوقوں سے ڈرتی نہیں تھی اور ایک بار پھر اس وقت بندوقوں کے سامنے اتر آئی تھی جب ضیاء کا عروج نصف النہار پر تھا۔
ضیاء کے بنائے ہوئے صادق و امین بھی سندھ اور پنجاب میں نفسیاتی طور پر اسی زعم میں مبتلا کر کے اتارے گئے کہ وہی عقلِ کُل ہیں۔ وہی طاقت کا سرچشمہ ہیں۔ عقل سے پیدل یہ قوم ان کی رعایا ہے۔ سندھ ہو کہ پنجاب، ان صادق و امینوں کی زاتی ملکیت ہے۔ ان پر اس زمین پر موجود ہر چیز حلال ہے۔ کوئی ان سے پوچھنے والا ہو نہیں سکتا، کیونکہ وہ صادق و امین ہیں۔
پنجاب کا صادق و امین تو اپنے پیر و مرشد جنرل ضیاء سے اس حد تک متاثر ہوا کہ اپنا آپ اسی کے سانچے میں ڈھال لیا۔ وہی کمر سے جھکا ہوا پوسچر۔ وہی روتی صورت۔ وہی احساسِ کمتری میں بھیگی مصنوعی مسکراہٹ۔ اس کے عقب میں چھپا وہی تکبر۔ وہی اسلامی ڈھال۔ وہی اپنے نیکوکار ہونے کا زعم۔ وہی بے سر و پا بات کرنے کا انداز۔ وہی جھوٹ اور ببانگ دھل جھوٹ۔ وہی خوشامدیوں اور درباریوں کا جھرمٹ۔
ضیاء کے صادق و امینوں میں سے ایک صادق و امین مولوی مشتاق بھی تھا۔ عدالت کی کرسی پر بیٹھا ہوا مکمل صادق و امین، صداقت و امانت کے قلم سے فیصلہ سنایا اور قلم توڑ دیا۔
مرا تو قبرستان کے راستے میں جنازے پر شہد کی مکھیوں نے حملہ کر دیا۔ لوگ جنازہ شہد کی مکھیوں بھرے درخت کے نیچے چھوڑ کر بھاگ گئے۔ جنازہ کتنی دیر وہاں پڑا رہا۔ پھر آگ جلا کر مکھیاں ہٹائی گئیں اور جنازے کی تدفین کی گئی
صادق و امین انسان ہو نہیں سکتا مگر خود پر صادق و امین ہونے کا گمان اور زعم گمراہی کا ایک ایسا راستہ ہے جو انسان کو ابلیس بنا دیتا ہے۔ اپنے سجدوں پر نازاں ابلیس۔
ابلیس جب شیطان قرار پایا۔ تو اس نے صداقت و امانت اور سجدے چھوڑ کر انسان کو غلط راستے پر بہلانے کی مہم شروع کر دی۔
یہی پالیسی مشرف نے اپنائی۔
وہ آیا۔ اس نے بظاہر ضیاء سے مختلف فلسفہِ حکمرانی پیش کیا لیکن دراصل ڈزائین اسی ڈزائین کی آؤٹ لائن کے اندر تھا۔ مگر اس بار رنگین تھا۔
مشرف نے گبر سنگھ کی طرح ضیائی دور سے پھنسی ہوئی بسنتی کو آواز دی کہ ناچ بسنتی ناچ ۔۔۔۔ کپڑے اتار کر ناچ۔
گھٹن کا شکار ہو چکا سماج اور افراد اور میڈیا ناچنے کی آزادی کے حلوے پر ٹوٹ پڑا۔ مشرف نے کھلے عام کہا کہ یہ جاہل قوم ہے۔ ان جاہلوں نے جاہلوں کو چُن کر اسمبلیوں میں بٹھایا ہے۔ یہ ان پڑھ اس قابل نہیں ہیں کہ حکومت کریں۔ انہیں انگریزی بولنا نہیں آتی۔ سوٹ پہننا نہیں آتا۔ اس جاہل قوم کو ہینڈسم، سوٹیڈ بوٹیڈ انگریزی دان لوگوں کی ضرورت ہے جو شراب کا گلاس سر پر رکھے پارٹی میں ناچنا جانتے ہوں۔ جن کے کتے اعلیٰ نسل کے اور قابلِ احترام ہوں۔ جو مدرسوں میں پڑھنے والی نسل سے نفرت کرتے ہوں اور جن کی نسلیں مہنگے اور انگلش میڈیم اسکولوں میں تیار ہوتی ہوں۔ آزاد شو بز اور آزاد میڈیا کی مارکیٹ تخلیق ہوئی، جس میں بسنتی کھل کر ناچی۔ دوپٹے میں پھنسی قوم رقص و موسیقی اور اظہار رائے کی آزادی کے نام پر مرغے لڑانے میں مصروف تو ہوئی مگر دو خوفناک انتہاؤں میں بٹ گئی۔ شہری اور دیہی۔ ان پڑھ اور انگریزی دان۔ لبرل اور مولوی۔ مدرسہ اور انگریزی میڈیم اسکول۔
دونوں انتہائیں دست و گریباں ہوئیں اور آج تک ہیں۔
یہ صادق و امین والی پالیسی کا ہی اگلا صفحہ تھا کہ اسمبلی میں گریجویٹ بیٹھے گا۔ ڈگری کا مسئلہ بلکل یونہی عدالتوں میں گھسیٹا گیا جس طرح آج صادق و امین۔
مشرف صادق و امین کے آرٹیکل کو بوٹ کی نوک تلے رکھے، انگریزی دان گورا صاحب کے بقایاجات کی صورت بیٹھا رہا اور ضیا کی طرح اس قوم پر سرٹیفکیٹس جاری کرتا رہا۔ اس نے بھی جنہیں استعمال کیا انہیں متکبرانہ رویے میں مبتلا کیا۔
وردی اور شیروانی اتری تو اس کے اندر سے ایک عام، اوسط درجے کا پڑھا لکھا، unintellectual اور سہما ہوا شخص نکلا۔ ضیاء کا ہی روپ۔
مشرف کا شہری اور سوشل میڈیائی حلقہِ اربابِ ذوق عمران خان کو وراثت میں ملا ہے۔ عمران خان اس مصنوعی پنیری کی طرح ہے جو دو مختلف اجناس کے بیجوں کو ملا کر ایک تیسری جنس کے طور پر تخلیق کی جاتی ہے۔ اس کا پلس پوائنٹ یہ ہے کہ وہ سویلین گملے میں بویا گیا ہے۔ وہ دو اجناس کا امتزاج ہے۔ صادق و امین کے زعم میں بھی مبتلا ہے اور گناہِ کبیرہ کا بھی مرتکب ہے۔ انگریزی اور شہری بابوُ بھی ہے اور اچھا طالبان بھی ہے۔ وہ کمر سے جھکا ہوا اس لیے نہیں ہے کہ کرکٹر ہے۔ احساسِ کمتری میں مبتلا نہیں ہے، کیونکہ ورلڈ کپ جیتا ہوا ہے۔ آکسفرڈ سے پڑھا ہوا ہے۔ گوروں میں اپنا نام رکھتا ہے۔ گوری کی وفا کا اہل ہے۔ کپتان ہے اس لیے اسے تکبر کی للکار آتی ہے۔ وہ گنہگاروں اور خطاکاروں کو للکار سکتا ہے۔ وہ بڑھک مار سکتا ہے۔ وہ خود صادق و امین ہو نہ ہو، وہ ان سب کے کپڑے اتار سکتا ہے جو صادق و امین نہیں ہیں۔
اس انوکھے لاڈلے نے کھیلن کو چاند مانگا۔ اسے چاند مل گیا۔ اسے نہیں پتہ کہ چاند داغدار ہے۔ لوگوں نے محبوب کے جلوے کی تشبیہ چاند سے دینا چھوڑ دی ہے۔ اب محبوب وہ ہے جو دل میں بستا ہے۔ ان لوگوں کے دل میں جو جاہل ہیں۔ ان پڑھ ہیں۔ بیمار ہیں۔ بھوکے ننگے ہیں۔ مٹی سے گندھے ہیں۔ مٹی میں بستے ہیں۔ مٹی سے اُگتے ہیں۔ مٹی سے زمین بناتے ہیں۔ زمین کو دھرتی ماتا بناتے ہیں اور دھرتی ماتا سے ملک بناتے ہیں۔
یہ جو سراج الحق صاحب صادق و امین کے آرٹیکل کے تحفظ کے لیے بے چین ہیں تو وہ بھی دراصل اپنے اوپر صادق و امین ہونے کا گمان اور زعم اور تکبر ہے۔ لاتعداد سجدوں کا غرور ہے۔
ابلیس و آدم کی جنگ ہے یہ ۔۔۔۔۔
اللہ آدم کا طرفدار ہے۔
آدم جو عوام ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ