نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اسلامیہ یونیورسٹی میں نئی دنیا آباد||ظہور دھریجہ

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ حاکمان وقت نئی یونیورسٹیاں اور نئے ادارے قائم کرنے کیساتھ ساتھ وسائل بھی مہیا کریں۔ میری زیادہ ملاقاتیں نہیں لیکن میں نے پہلی ہی ملاقات میں اُن کو نگاہ بلند سخن دلنواز اور جاں پُر سوز پایا ۔

ظہور دھریجہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

موجودہ بجٹ میں پندرہ نئی یونیورسٹیوں کا اعلان سامنے آیا ہے ان میں سے پانچ یونیورسٹیاں وسیب میں بنیں گی۔ یہ کام وزیر اعظم عمران خان اور سردار عثمان خان کے دور میں مکمل ہو جائے تو یہ بہت بڑا کریڈٹ ہو گا۔
یونیورسٹیاں جہاں بھی قائم ہوئیں وہاں کی زبان و ثقافت کی پروموشن کے ساتھ وہاں کے آثار پر تحقیق ہونی چاہئے اور ان یونیورسٹیوں میں مقامی زبانوں کے شعبے قائم ہونے چاہئیں کہ ماہر تعلیم اور تھنک ٹینک بتاتے ہیں کہ یونیورسٹی کے کسی بھی سربراہ کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنی تعیناتی جگہ پر اس خطے کی تاریخ ، ثقافت اور آثار سے واقفیت حاصل کرے اور خطے کے لوگوں کی زبان و ثقافت سے مانوس ہو اور اُس سے اگلی بات یہ کہ وہ دلی طور پر اُس خطے کی تہذیب و ثقافت اور زبان سے محبت کرے اورمقامی تاریخ ثقافت اور آثار پر ریسرچ کرائے۔ اس موقع پر میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ کسی بھی تعلیمی ادارے کے سربراہ کو فادر کا رول ادا کرنا ہوتا ہے ۔
اوروہ مایوسی کو اُمید اور تاریکی کو اُجالے میں بدلے، ادارے کے سربراہ کو کسی بھی صورت میں تھانیدار نہیں بننا چاہیئے ۔قابل فخر منتظم وہ ہوتا ہے جو اساتذہ اور سٹاف ممبران پر اعتماد کرے اور ادارے کے ممبران کو عضوِ معطل بنانے کی بجائے اُن سے کام لے اور ان کی صلاحیتوں کو پالش کرے اسی طرح ادارے کے سربراہ کو بچوں کی تخلیقی اور ذہنی صلاحیتوں کی آبیاری کے ساتھ ساتھ اُن میں لیڈر شپ کے اوصاف پیدا کرنا ہوتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ادارے کی ترقی کیلئے زندگی کے مختلف شعبوں سے قرب اور تعلق اور سوچ کا دائرہ اس حد تک بڑھانا ہوتا ہے کہ اس کے ادارے کا نام نہ صرف ملکی سطح بلکہ عالمی سطح تک لیا جائے ۔
مجھے خوشی ہے کہ یہ تمام اوصاف ڈاکٹراطہر محبوب کی ذات میں موجود ہیں جیساکہ اُستاد قوم کا معمار ہوتا ہے ، معمار سازی وہ کرتا ہے جسے قومی شعور ہو ، ان کو اس کا ادراک بھی ہے اور احساس بھی ، اسی بناء پر اسلامیہ یونیورسٹی میں نئی دنیا آباد ہے اور اُن کے عہد میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کو نئی پہچان اور نیا مقام ملا ہے۔ وائس چانسلراسلامیہ یونیورسٹی ڈاکٹر اطہر محبوب صاحب سے درخواست کرونگا کہ یونیورسٹی کے رحیم یارخان اور بہاولنگر کیمپس میں سرائیکی شعبہ جات قائم ہونے چاہئیں کہ کسی بھی یونیورسٹی کے قیام کا پہلا مقصد خطے کی تہذیب ، ثقافت ، زبان و ادب اور اس کے آثار پر تحقیق ہوتا ہے ۔
 ڈاکٹر اطہر محبوب اس حقیقت کو بخوبی سمجھتے ہیں ۔ سرائیکی شعبہ کی الگ عمارت ہونی چاہیئے اور ایسی عمارت جو کہ سٹیٹ آف آرٹ کہلائے کہ کسی بھی یونیورسٹی کاچہرہ مقامی زبان و ادب کا شعبہ ہوتا ہے اور ملکی و غیر ملکی گیسٹ ہمیشہ مقامی زبان کے شعبے کو دیکھنااور اس کو پسند کرتے ہیں ۔ یونیورسٹی کے کیمپس تحصیل سطح پر قائم کئے جانے چاہئیں، اس سلسلے میں خان پور کیمپس کو نہیں بھولنا چاہیئے کہ خان پور خواجہ فرید اور مولانا عبیداللہ سندھی کی سرزمین ہے ۔
 اسلامیہ یونیورسٹی کی لائبریری میں سرائیکی پورشن الگ سے قائم کیا جائے ، کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک دوست نے سرائیکی کتابیں یونیورسٹی کو دینا چاہیں تو یونیورسٹی کا کمپیوٹر سسٹم لفظ سرائیکی کو قبول نہیں کر رہا تھا ۔ یہ بات کسی المیہ سے کم نہیں کہ جس خطے میں یونیورسٹی قائم ہے سسٹم اس کی زبان کو قبول نہیں کر رہا۔یہ چند ایک گزارشات ہیں جس پر وائس چانسلر صاحب ضرور توجہ کریں ۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ ہماری درخواست پر انجینئرنگ خواجہ فرید یونیورسٹی میں ڈاکٹر اطہر محبوب صاحب سرائیکی شعبہ قائم کرنا چاہتے تھے مگر آپ وہاں سے تبدیل ہوئے تو سرائیکی شعبہ بھی رہ گیا۔
نئے وائس چانسلر نے خواجہ فرید یونیورسٹی میں آرٹس لٹریچر کے دیگر شعبے قائم کر دئیے مگر سرائیکی کو اب تک نظر انداز کیا ہوا ہے ۔ حالانکہ خواجہ فرید کی زبان اگر یونیورسٹی میں قبول نہیں تو نام کو ہم کیا کریں گے۔اس کا نام بھی تبدیل کر دیا جائے ۔اسی بناء پر میری چند ایک چھوٹی موٹی گزارشات کو وائس چانسلر صاحب اس سے پہلے شرفِ قبولیت بخشیں کہ ان کا کسی اور جگہ تبادلہ ہو جائے اور ہم پھر سے انتظار کی سُولی پر لٹکے رہیں ۔
 ہماری گورنر چودھری محمد سرور جو کہ یونیورسٹی کے چانسلر بھی ہیں وہ یونیورسٹی کو نئے کیمپس کی تعمیر کے لیے فنڈ مہیا کریں اور جام شورویونیورسٹی سندھ کے شعبہ سندھیالوجی کی طرح اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپو رمیں سرائیکالوجی کی منظوری دیں اور وسیب کے زبان و ثقافت کے ساتھ ساتھ وسیب کے آثار پر تحقیق کے لیے فنڈ مہیا کریں۔ وسیب تہذیب و ثقافت سے مالا مال خطہ ہے وسیب کی ذرخیزی بھی اپنی مثال آپ ہے ۔ البتہ وسیب میں سہولتوں کا فقدان رہا ہے۔ اسی بناء پر وسیب کو پسماندہ نہیں بلکہ پس افتادہ کہا جاتا ہے پس افتادہ کا مطلب ہے کہ وہ چیز جسے اٹھا کر پیچھے پھینک دیا گیا ہو۔ بلاشبہ سرائیکی وسیب ذرخیز بھی ہے اور مردم خیز بھی ، اس سرزمین پر بڑی بڑی شخصیات نے جنم لیا۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ حاکمان وقت نئی یونیورسٹیاں اور نئے ادارے قائم کرنے کیساتھ ساتھ وسائل بھی مہیا کریں۔ میری زیادہ ملاقاتیں نہیں لیکن میں نے پہلی ہی ملاقات میں اُن کو نگاہ بلند سخن دلنواز اور جاں پُر سوز پایا ۔ کہتے ہیں کہ سفر وسیلہ ظفر ہے ، کوئی آدمی بڑا ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ جہاں دیدہ نہ ہو، بڑی بات یہ ہے کہ ڈاکٹراطہر محبوب کے والد صاحب ملازمت کے دوران مختلف ممالک میں تعینات رہے ۔
اسی بنا ء پر موصوف کو انگلینڈ اور امریکہ اور دیگر ممالک ملازمت سے پہلے دیکھنے کے مواقعے میسر آئے ۔جب میں ڈاکٹر صاحب کی قائدانہ صلاحیتوں کو دیکھتا ہوں تو اس میں بھی اُن کے والدین کے علاوہ اساتذہ کا حصہ نمایاں نظر آتا ہے ،اُن کے ننھیال اور ددھیال کا تعلق تعلیم کے شعبے سے تھا بلکہ وہ بانی پاکستانی قائد اعظم محمد علی جناح کے رفیق کار تھے ۔بلاشبہ موصوف کو تعلیمی اداروں سے محبت بھی ہے اور ان کو وجود میں لانے کا قرینہ بھی جیسا کہ 2015ء میں بانی وائس چانسلر کی حیثیت سے انہوں نے خواجہ فرید یونیورسٹی رحیم یارخان کا چارج سنبھالا تو بہت قلیل مدت میں نہ صرف یہ کہ یونیورسٹی قائم ہو گئی بلکہ کلاسوں کا آغاز ہوا ۔ ہمارے لئے یہ یونیورسٹی کسی بڑی نعمت سے کم نہیں ہے۔

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author