عاصمہ شیرازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خطے میں بے یقینی کے سائے گہرے ہو رہے ہیں۔ جُوں جوُں امریکی افواج کے انخلا کے دن قریب آ رہے ہیں تمام قوتیں اپنی جگہ مضطرب ہیں۔ 20 سال افغانستان میں جنگ لڑنے والی سُپر پاور، سابقہ سُپر پاور اور شاید مستقبل کی سُپر پاور۔۔۔ سب کے سب عجیب کشمکش کا شکار ہیں۔
بلی سامنے ہے اور کبوتر کی طرح آنکھیں بند۔۔۔ یہ بھی معلوم ہے کہ بلی کبوتر کو سامنے بٹھا کر اس کی غٹر غوں کو تو سُنے گی نہیں، لیکن پھر بھی حقیقت سے نظریں چُرائی جا رہی ہیں۔
ہماری نسل نے بُہت کچھ دیکھا ہے۔ 80 کی دہائی میں زوروں کی افغان جنگ۔۔۔ مجھے آج بھی خبر نامہ یاد ہے جب ہر روز ارجمند شاہین، مہ پارہ صفدر یا خالد حمید اور اظہر لودھی خبرنامے کا آغاز افغانستان کی صورت حال سے کرتے، ‘مجاہدین’ کی کامیابیوں اور معرکوں کو سرکاری ذرائع ابلاغ پر بھرپور طریقے سے دکھایا اور بتایا جاتا۔
آئے دن امریکی، برطانوی اورعالمی اشرافیہ پاکستان کے دورے کرتی۔ افغان پناہ گزینوں کو دی جانے والی امداد نمایاں طور پر بتائی جاتی۔ پاکستان کے مرد مومن مرد حق کی افغان مسئلے کے حل کے لیے کاوشوں کا ذکر کیا جاتا۔
اور تو کچھ بتانے کو تھا نہیں۔ نہ سیاسی جماعتیں نہ جلسے اور نہ ہی جلوس۔ کم سِن ہونے کے باوجود ابا کے دامن سے لگ کر مجبوراً خبریں سُنتے جو اس قدر رَٹ گئی تھیں کہ محلے والے اور سکول کی پرنسپل تک کہتی کہ چلو بھئی خبر نامہ سُناؤ۔
قصہ مختصر یہ میری ہی نہیں اُس دور کے ہر بچے کی کہانی ضرور ہے۔
افغان جنگ کے آغاز سے ہی بچپن کی یادوں میں ایک یاد بُہتات میں نظر آنے والے افغان بچے بھی تھے۔ یہاں وہاں، سکول میں، کلاس میں، ہر طرف۔ گلیوں میں کُوڑا چنتے ہوئے ننھے معصوم سرخ و سفید بچے اور بچیاں، جن کے گال سیبوں جیسے اور آنکھیں باداموں والی۔
گھروں کا بچا کُچا پھل کھاتے اور سوکھی روٹیاں اکھٹی کرتے۔ اس بات سے بے خبر کہ دُنیا اُن کے نام پر کس کس کو کتنی امداد اور کس کس کو کتنا اسلحہ دے رہی ہے مگر نہ تو اُن کو تحفظ، نہ خوراک اور نہ ہی شناخت مل سکی۔
ایسا لگتا ہے کہ 40 سال گُزر جانے کے باوجود افغانستان وہیں کھڑا ہے جہاں اس وقت کی عالمی طاقت سوویت یونین نے چھوڑا تھا۔
آج جب امریکہ 20 سال کی طویل جنگ جیتے بغیر افغانستان چھوڑ کر جا رہا ہے تو وہاں کی نسل سوال پوچھ رہی ہے کہ اُن کی آنے والی نسلوں کا مستقبل کن ہاتھوں میں ہو گا؟
کل کے مجاہدین آج کے طالبان بن چکے ہیں۔ دھڑے بندیاں اور قبائلی گروہ، جنگجو قبیلے ایک بار پھر کابل پر حملے اور قبضے کے لیے پر تول رہے ہیں۔
افغان طالبان درجنوں اضلاع پر قبضہ کر چکے اور کابل کے دروازے پر دستک دینے کو تیار ہیں۔ 90 کی دہائی کے اختتام کی طرح اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے اور افغانستان پر خلافت کا پرچم لہرانے کو بے تاب۔
خوف اس بات کا ہے کہ اب سے چند ماہ بعد جب امریکہ بظاہر اپنی فتح مگر دراصل اپنی شکست پاکستان کے سر تھوپتے ہوئے خطے سے نکلے گا تو ہم کہاں کھڑے ہوں گے۔
سنہ 96 کی طرح طالبان کی حکومت کو تسلیم کرتے ہوئے؟ طالبان کو اپنا ’نگہبان‘ مانتے ہوئے؟ نئی ’سٹریٹجک ڈیپتھ‘ کی دلیل دیتے ہوئے؟ یا اپنے دروازے پر کھڑے ہزاروں، لاکھوں افغان مہاجرین پر دروازے بند کرتے ہوئے؟
سوال تو یہ بھی ہے کہ اس وقت ہماری پالیسی کیا ہے؟ وزیر خارجہ کے اُسامہ بن لادن کو شہید مان لینے کی؟ خیبر پختونخوا اسمبلی کے رکن کے طالبان کو ہمارا نگہبان قرار دینے کی؟ یا افغانستان کے دیر پا امن کی خاطر بہادر اور ماضی سے مختلف پالیسی بنانے کی؟
اس بات سے انکار نہیں کہ پاکستان کی جغرافیائی حیثیت انتہائی اہم ہے۔ ہمیں اپنے ملک کو بھی محفوظ بنانا ہے اور ہمسائے کو بھی۔
لیکن کیا امریکہ یہ سمجھنے کو تیار ہو گا کہ وہ خطے میں ایک نامکمل اسائنمنٹ چھوڑ کر جا رہا ہے جس کی ذمہ داری صرف پاکستان پر ڈالنا کسی طور مناسب نہیں۔
جبکہ ہمیں بھی اپنا گھر اور اپنی پالیسی کو ماضی کی ناکامیوں کے روپ میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ انکل سیم ہزاروں میل دور ہیں اور افغانستان کا بُحران ہمارے دروازے پر ہے۔۔۔۔۔
یہ بھی پڑھیے:
جناب! عوام کو ہلکا نہ لیں۔۔۔عاصمہ شیرازی
’لگے رہو مُنا بھائی‘۔۔۔عاصمہ شیرازی
یہ دھرنا بھی کیا دھرنا تھا؟۔۔۔عاصمہ شیرازی
نئے میثاق کا ایک اور صفحہ۔۔۔عاصمہ شیرازی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر