امجد نذیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پانچواں درشن:
برطانوی محاصرہء ملتان
(ایک ڈرامائی بیانیہ)
یکم اپریل 1848 تا 26 جنوری 1849
مآخذات: (جاہن جونز کولے، مرزا ابن حنیف، پروفیسرعزیزالدین احمد، احمد رضوان، ہسٹری سیریز: دی فال آف سکھ امپائر، اور دوسرے ذرائع)
تعارف : ریاست ملتان کی قدامت، دریائے سندھ اور چناب کی عطا کردہ خوشحالی اور اہم ترین محلِ وقُوع کیوجہ سے ریاست ملتان کے ایک نہیں کئی محاصرے ھوئے اور ھوئے ھونگے، کُچھ معلوم اور کچھ نا معلوم ۔ مثلا 325 قبل مسیح میں سکندر مقدونی (جِسے ایران میں سکندر ملعون کے نام سے جانا جاتا ہے) کا محاصرہ، 712 میں محمد بن قاسم کی یلغار، 1175 میں محمد غوری کا حملہ، 1296 میں علاوٗالدین خِلجی کا محاصرہ، 1320 میں غیاثالدین بلبن کی تباہ کاریاں، 1397 میں تیمور لنگ کے پوتے پیر محمد کا قبضہ، 1810 سے 1818 تک نجیت سنگھ کی پئے در پئے یلغاریں اور قبضہ وغیرہ مگر تاریخ میں جسقدر جُزیاتی تفصیل برطانوی محا صرے اور ملتانی مزاحمت کی موجود ھے شاید کِسی اور کی موجود نہیں ۔
کسی بھی ڈرامائی بیانیے میں واقعات، کردار، تنازعات اور انجام ڈرامائی ایکشن کی جان ھوتے ھیں، اور 1848 میں کئیے گئے برطانوی محاصرے میں یہ تمام خصوصیات برجہء اُتم موجود ہیں، اِسی لئے برطانوی محاصرہ شاید واحد محاصرہ ھے جسے اپنے ڈرامائی خوبیوں سمیت دوبارہ بیان کیا جا سکتا ھے ۔ زیر نظر تحریر اسی نوعیت کی ایک کوشش ہے ـ آخر میں یہ عرض کرنا بھی ضروی ہے کہ راقم الحروف نے جاہن جوہنز کولے کے ‘پروٹاگونسٹ’ اور ‘اینٹاگونسٹ’ کو اَدل بَدل کرڈالا ہے اور مزید حالات و واقعات کی منظر کشی کے لئے درج بالا مصنفین سے استفادہ کیا ہے تاکہ ملتان دھرتی کا دفاع کرنے والوں کو تاریخ میں اُن کا درُست مقام دلوایا جا سکے ـ
اور یہ عرض کر نا بھی ضروری ہے کہ رنجیت سنگھ کی جارحیت کے پس منظر میں پنجابی (سِکھ) حُکمران ہونے کے ناطے مُولراج کی سیاسی حیثیت بھی سرائیکی اور ملتانی مورخین و مبصرین کے نزدیک زیادہ پسندیدہ نہیں رہی ـ راقم الحروف نے زیر نظر تحریر، جو تحقیق، ترجمہ اور تخلیق کا مرکب ہے، عروُس البلاد ملتان کی محبت اور اہمیت کے پیش نظر لِکھی ہے تاکہ برطانوی عسکری یلغار کیساتھ ساتھ تقریبا” پونے دو سو سال پہلے کے ملتان اوراسکے گردو نواح کا معاشرہ اور انگریزوں کے ساتھ مختلف معرکوں کا منظر اپنی جُزیات سمیت دِکھایا جا سکے ـ اِس پورے منظر میں مُولراج اور دوسرے سکھ ، مسلمان اور ہندو مزاحمت کاروں، سپاہیوں اور مُجاہدوں کی جو بھی سیاسی اور تاریخی حیثیت بنتی ہے، اُسکا فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیا گیا ہے ـ
پانچواں درشن : جوگ مایا پر محاذ آرائی اور قلعہ کی طرف مارچ:
برطانوی فوج اور اُسکے اتحادیوں نے اِس (غالبا” موجودہ پُل موج دریا سے بہنے والی) نہر کے ارد گرد تقر یبا” تیس چالیس توپیں نصب کر دیں ۔ لیفٹینینٹ لیک کے ٹروُپس نے دائیں کنارے اور لیفٹینینٹ ایڈورڈز کے ٹروُپس نے بائیں کنارے اپنے قدم جما لئے جبکہ عَقبی جانب اُنھوں نے گُھڑ سواروں کے زیر نگرانی اپنے تحفظ کا بندوبست کیا ۔ جن کے پیچھے غیر ھموار بُھربُھرا میدان اور کھیتی باڑی کے لئے کُچھ نالے تھے ۔ اِتحادی افواج نے اپنی دھاک بٹھانے کے لئے کُچھ خالی گولے فضا میں دا غے ۔ لیکن ابھی وہ خود سمبھلنے ہی نہ پائے تھے کہ گولیوں کی ایک بُوچھاڑ اُنکے دستوں کو چیرتی ھوئی نکل گئی ۔ اُنھیں خبر ہی نہ ھونے پائی تھی کہ مُلتان کے ھوشیار دَستوں نے اُن پر حملہ کر دیا ۔ وہ سراسیمہ اور ششدر اپنے دفاع کے لئے ھڑبرا کر آگے بڑھے ۔ مگر فورا” ہی مسکیٹری کی مسلسل اور یکمشت فائرنگ کی ذد میں آگئے ۔ کُچھ ھی دیر میں ایڈورڈز اور لیک نے مزید دَستوں اور گُھڑ سواروں کو آگے بڑھ کر اَندھا دُھند فائرنگ کا اشارا کیا ۔ نسبتا” ذیادہ گولہ بارود اور بندوقیں رکھنے کی وجہ سے مُلتانی سپاہ کا بہت نقصان ھوا اور اُنہیں پیچھے ہٹنا پڑا ۔ مجموعی طور پر آٹھ دَس اتحادی اور کوئی پچیس تیس کے قریب مُلتانی سپاہی مارے گئے یا زخمی ھوئے ۔ دراصل ھوا یوں کہ مَتی جیل سے کچھ پہلے جنرل وہش نے بھی اپنا کیمپ لگا رکھا تھا اور انہوں نے ملتان کے سپوتوں کو درمیان میں ھی دبوچ لیا جسکے لئے وہ ذہنی طور پر تیار نہیں تھے ۔ اور اس ناگہانی کُشتگانی نے بھی انہیں افسوسناک نُقصان پہنچایا اور دشمن کی فوج ایک یقینی شکست سے بچ رھی ۔
19 اگست 1848 کو جنرل وہش کے دَستوں نے دو کالموں میں ملتان پہنچ کر قلعہ کے شمال مشرق میں شیتل ماڑی پر اپنے خیمے فائرنگ رینج سے ذرا دور نصب کئے ۔ کچھ اِکا دُکا شاٹس یہاں تک بھی پہنچے لیکن فاصلے کیوّجہ سے بے اثر رہے ۔ جنرل وہش کی کمان میں اسحہ بردار دو گھڑ سوار دستے، اور گُھڑ سواروں کا ایک رسمی اور ایک غیر رسمی دستہ، خَندقیں اور پُلیں بنانے اور مرمت کرنے والے انجینئرز اور مزدوروں کا ایک بَینڈ اور چار مقامی پیادہ دَستے شامل تھے ۔ اِسکے علاوہ اسلحہ رسد کا ایک چھوٹا بحری جہاز بھی فیروزپور سے بہاولپور تک دریائے ستلج کے بندشی گھاٹ کے ذریعے آن پہنچا ۔ جس میں بیسیوں بندوُقیں، 12 چھوٹے بڑے گولے، 6 ھاوزرز اور بہت سا اور عسکری سامان شامل تھا ۔ جنرل وہش کے دستوں میں بھاڑے پر لئے گئے تنومند جوّان اور کُچھ تربیت یافتہ مرد بھی شامل تھے ۔ تمام تر رسد وصول کرنے اور میدانِ جنگ کا مکمل جائزہ لینے کے بعد جنرل وہش نے اپنے دستوں کو پہلے سے موجود برطانوی دستوں میں شمولیت اختیار کرنے کا حکم دیا ۔
یّکُم ستمبر 1848 کو ضمنی دستے نے بھی سورج کُنڈ نہر پار کی اور پہلے سے موجود دستوں کیساتھ میدان میں اپنی پوزیشن سمبھال لی ۔ کُچھ دستے نہر کے مغرب میں رھے اور کچھ شُمال مَشرق میں منظم ھو گئے ۔ تقریبا” 8 بجے صبح، کھجوروں اور آموں کے باغات اور کچھ چھوٹی بڑی بستیوں میں سے گزرتے ھوئے اُنہوں نے قلعہء ملتان کیطرف مارچ کیا ۔ مگر ملتان کے چاک و چوبند سپاہیوں نے گھات لگا کر دشمن کو راستے میں ہی آن لیا ـ جِسکے نتیجے میں انکے کئی دستےتتر بتر ھوئے مگر پھر بھی خاطر خواہ نقصان سے بچ رھے ۔ کیونکہ لیفٹینینٹ پولاک کی سر کردگی میں مارچ کرنے والے سپاھی جلد ھے سمبھل گئے تھے ۔ لیکن اِسکے باوجُود اُنکو یہ اندازہ نہ ھو سکا کہ تھوڑے ہی فاصلے پر ملتانی سِپاہ آموں کے باغات میں مورچہ بند تھی جس نے تھوڑے ہی وقفے کے بعد دُشمن پر یْکایْک توپچیوں کے فائر کھول دیے ۔ دوُسری طرف ملتان شہر کے عام شہری بھی وَطن کے دِفاع میں شامل ھو گئے ۔ کئی گھنٹوں تک دو طرفہ فائرنگ جاری رھی ۔ تقریبا” 2 بجے کے قریب میدان میں لڑنے والی سپاہ نے شہریوں کے ساتھ مل کر مضبوط دفاعی لائن بنا لی ۔ دشمن نے جوگ مایا پر پوزیشن سمبھال کر آس پاس کے گاوں اور باغات میں توپیں نصب کر لیں ۔ اور پھر شام تک بلکہ رات بھر دیوانہ وار خاموشی رہی ۔
البتہ 2 ستمبر 1848 کو دشمن دوبارہ قلعہ بند شہر کیطرف عازمِ سفر ھوا ۔ جسے پہلے محاصرے کی جانب پہلا قدم قرار دیا جا سکتا ھے ۔ تاھم نہ تو یہ فاصلہ کم تھا اور نہ ہی ملتان کے بہادر سپوت بے خبر تھے ۔ کئی بار اُنہوں نے دشمن کی مورچے اور خندقیں برباد کیں اُور انہیں ایک محفُوظ فاصلے تک روکے رکھا ۔ چھوٹی چھوٹی لڑائیاں اب نواحی بستیوں سے نکل کر بڑے معرکے کی طرف بڑھنے لگی تھیں ۔ لیکن یہ پسپائی اور پیش رفت دشمن کے لئے نہایت کٹھِن رھی ۔ ھر چند کہ مزاحمت کارانِ مُلتان کا اِس میں کچھ نقصان ھوا لیکن خالصہ لشکر اور انگریزی افسران کو بھی بھاری جانی اور مالی خسارے سے دوچار ہونا پڑا ۔ سپاہِ ملتان گھروں، بستیوں، مساجد اور مندروں میں بھی مورچہ بند ھو کر لڑتی رھی اور آگ اور خون کا یہ کھیل کئی دن تک جاری رھا ۔
پھر بھی 7 ستمبر 1848 تک اِتحادی فوج رام تاریت پر کسی حد تک اپنا قبضہ جمانے میں کامیاب ھو گئی ۔ مُلتانی سپاہ کے درجنوں لوگ زخمی ھوئے اور کُچھ واصل بَحق بھی مگر تھوڑے بہت فرق سے گوروں کے بھی کئی جنگجو زخمی ھوئے، کم از کم نصف درجن افسران مارے گئے اور لیفٹینینٹ این آئی ڈریوّ بے طرح زخمی ھوگیّا ۔ لڑائی کے عین عروُج پر لیفٹینینٹ رچرڈسن نے ایک گھر سے شدید فائرنگ ھوتی ھوئی نوٹ کی جو انکے دَستوں کو لا پیمانہ زِک پہنچا رہی تھی ۔ وہ بچتے بچاتے تیزی سے اس گھر مییں در انداز ہو گیا اور قریب سے حملہ آوران کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ۔ جَب اُسے محسوس ھوا کہ مورچہ بند سپاہی عنقریب اسے گولیوں سے بُھون ڈالیں گے تو اُسنے آگے بڑھ کر اپنی تلوار ایک مقامی سِکھ کے سینے میں گھونپ دی ۔ اور اُسکے مرتے ھوئے بدن کی اوٹ میں بڑی ڈھٹائی سے باھر نکل آیا ۔ برگیڈئیرمَرکَھم بھی جان لیوا زخموں سے تڑپ رہا تھا جبکہ لیفٹینینٹ کرسٹوفر کچھ ہی دنوں میں چھاتی کے گھاو کے درد سے تڑپ تڑپ کر چَل بسا ۔ لیفٹینینٹ لائیڈ نے بھی ایسے زخم کھائے کہ وہ بھی چند دِن آہ و بکا کرتے کرتے کرتے نِرک نصیب ھوا ۔ دراصل فائرنگ کے تبادلے کے دوران مزاحمت کاروں کا ایک ٹوٹا ھوا دستہ آگے بڑھا ۔ لائیڈ کے وفادار بھی آگے بڑھ کر حملہ کرنے ھی والے تھے کہ وہ اونچی آواز میں بولے "ھم نواب بہاول خان کے آدمی ھیں” ۔ لائیڈ نے اپنے آدمیوں کو ایک لمحے کے لئے روکا لیکن آن کی آن میں سپاہیوں نے لائیڈ اور اسکے آدمیوں کا بُھرکس نکال دیا ۔
12 ستمبر 1848 کو موجودہ مقام پر ہی ایک اور گُھمسان کی لڑائی ھوئی ۔ دونوں طرف سے شدید فائرنگ کے بعد خوفناک گتھم گتھا تلوار بازی اور سنگین بازی شروع ھو گئی ۔ لڑائی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی خواھش میں مُزاحمت کاروں کے بیسیوں فدائین نے جان، جان آفرین کے سپرد کی ۔ مگر دشمن کے بھی کئی افسران، خالصہ سپاھی اور دوسرے غدار مارے گئے جِن میں اُنکے 23 کارکنان اور ڈیڑھ سو کے قریب مزخوم آدمی شامِل تھے ۔ کرنل پاٹون اور میجر مورٹیزمبرٹ نے اولے زخم کھائے ۔ لیفٹینیٹ کیوٹل اور مسٹر ٹیلر بھی خون تھوکتے رہ گئے ۔ علاوہ ازیں کوئی 13 مزید افسران بھی اپنے عبرت ناک انجام کو پہنچے ۔
اِنگلیسی فوج اب نڈھال ہو چُکی تھی ۔ اُن میں سے کئی ایک اپنے مورچے چھوڑ کر بھاگ گئے تھے ۔ خندقوں میں چند ایک جوان جو باقی رہ گئے تھے، تھکاوٹ سے مرنے لگے تھے ـ کیونکہ ان میں سے ذیادہ تر 48 اور کچھ 72 گھنٹوں سے موت کی ان راہداریوں میں بھوکے پیاسے اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر اپنی اپنی بندوقوں کا بوجھ اٹھائے پاگلوں کیطرح فائر پھینک رھے تھے ۔ خالصہ اِتحادی اور مُقامی غدار بھی جارح انگریز کی معیت میں اپنا دفاع اور ملتانی افواج کی سیسہ پلائی ھوئی دیوار کو گراتے اَدھ موئے ھو چُکے تھے ۔ مُلتانی سپاہیوں کے گولا بارود، زمبوروں اور مُتواتر فائرنگ سے کئی بار اُنکے کیمپوں میں آگ بھڑک چُکی تھی ۔ اور بیسیوں لوگ اپنے دست و بازو ناکارہ کروّا چُکے تھے ۔ سینکڑوں جانیں گنوانے اور بے پناہ مصائب بُھگتنے کے با وجود بھی وہ انگریز کَمان کے نیچے قلعہ کیطرف پیش قدمی کرتے رھے ۔ کئی ایک غلط راستے اور غلط حزب و اطراف چُننے کی بنا پر موت کے عمیق گڑھوں میں جا گرے ۔
توقع سے ذیادہ مدِ مُقابل فوج کی پامردی اور استقامت اور اپنی افواج کی ہدف سے کمزور ہمتی اور قریب از مرگ تھکاوٹ دیکھ کر جنرل وہش کے ھاتھ پاؤں پُھولنے لگے ۔ اسے خدشہ تھا کہ تھکاوٹ اور کمخوابی کے مارے جلد اُسکے سپاہی مر جائیں گے ۔ جَبکہ مُلتانی سپاہی، عام شہری اورغیر تربیت یافتہ مردوجوان بھی ٹِڈی دَل کیطرح اپنی مٹی کا دفاع کرنے کے لئے اُمڈے چَلے آرھے تھے ۔ اسی دوران مُولراج کا ساتھ دینے کے لئے بھائی مہارات سنگھ کی سرکردگی میں ایک لڑاکا جتھا ملتانی سپاہ کی مدد کے لئے روانہ ھوا لیکن خالصہ دربار کی ریگولر فوج نے چناب کنارے اپنے ہی لوگوں کی پیٹھ میں خنجر جا گھونپا ـ جس میں ذیادہ تر لشکری یا تو مارے گئے یا پھر دریا میں ڈوب گئے ـ نتیجے میں عام سکھ اور ملتانی عوام خالصہ دربار اور انگریزوں کے مذید خلاف ہو گئے ـ اور مزاحمت پر ڈٹ گئے ۔
14 ستمبر 1848 کو شیر سنگھ اٹاری والا نے باالآخر انگریزوں کا ساتھ چُھوڑ دیا جسکی وجہ دراصل اُسکے والد کا خط تھا ، جِس نے اُسے لکھا کہ” تم لیفٹینینٹ ایڈوّرڈ سے کہو کہ وہ اُسکی بیٹی (یعنی شیر سنگھ کی بہن) سے مہاراجہ دلیپ سنگھ سے شادی کا حسب منصوبہ اور حسب وعدہ بندوبست کروائے” تا کہ دلیپ سنگھ ( اور دوسرے لفظوں میں پنجاب میں اٹاری والا خاندان کی) حکمرانی کا راستہ ھموار ھو سکے ـ اور اسی امید پر ہی باپ بیٹا انگریز اور خالصہ دربار کا ساتھ دے رہے تھے ـ دِلی سے ریذیڈنٹ کا جواب آیا کہ "اس سلسلے میں وہ دربار سے مشورہ کرے گا لیکن ساتھ ہی اُسنے یہ بھی لکھ دیا کہ اس شادی سے ریذیڈینٹ کے دلیپ سنگھ کو پنجاب راج واپس کرنے کے وعدے پر کبھی فرق نہی پڑے گا ، اس لئے وہ تسلی رکھے” ـ
اٹاری والا خاندان اس واہمے کا شکار تھا کہ گوبند سنگھ کی ساکھی (پیشین گوئی) مُطابق دلیپ سنگھ نامی فرد مہاراجہ رنجیت سنگھ کی اَمپائر دوبارہ کھڑی کرے گا ـ انگریز دوستی کے کارن اور سُجان سنگھ نامی ایک سکھ کے شیر سنگھ کو ذہر دینے کے شُبے میں اُسے توپ سے اُڑا دینے کے باعث بھی عام سکھ اورمُولراج پہلے ہی اٹاری والا خاندان پر اپنا بھروسہ تَرک کرچُکے تھے ـ اور انہں یقین تھا کہ انگریز سکھوں کو پنجاب کی حکمرانی واپس کرنے کا اپنا وعدہ کبھی پورا نہیں کریں گے ـ دوسرے لفظوں میں سکھ سردار اپنے مفادات کی خاطر ریذیڈینسی کا راج قائم رکھنے کے خواہش مند تھے جبکہ عام عوام خلاف ـ
اُدھر چتر سنگھ (شیر سنگھ کا والد) شمال مشرق میں ہزارا کے علاقے میں موجود تھا ـ جہاں کا ڈپٹی کمشنر جیمز ایبٹ اُس سے ڈبل گیم کر رھا تھا ـ اور وفاداری کے باوجود اُسکی رتی برابر عزت باقی نہیں رہنے دی تھی ـ بلکہ اُسنے وھاں کے قبائلیوں کے ذریعیے اُسے قتل کروانے کی کوشش بھی کی ۔ پناہ لینے کے لئیے جب چتر سنگھ نے ہری پور کے قلعے میں موجود ایک امریکی ‘کرنل کینورا’ سے درخوست کی تو نہ صرف اسنے انکار کیا بلکہ اسے اور اسکے ادمیوں کو توپ کے نشانے پر رکھ لیا ـ کسی سبب توپ نہ چلنے پر ردِ عَمل میں چَتر سنگھ کے لوگوں نے کینورا کی گردن اُڑا دی ـ جیمز ایبٹ کو چتر سنگھ کو زلیل اور رسوا کرنے کا ایک اور موقع ہاتھ آ گیا ـ کیپٹن نکلسن نے، جو بظاہر جیمزایبٹ اور چتر سنگھ میں صلح کرانے آیا تھا، الٹا چَتر سِنگھ کی جائیداد قُرق کرا دی ـ چتر سنگھ نے جو کافی ضعیف اور کمزور نظر بھی تھا، انگریزوں کے ھاتھوں رسوا ھونے کے بعد ایک بار پھر شیر سنگھ کو لکھا مگر اِس بار اپنی آنکھیں کھل جانے کے باعِث اُسے انگریزوں کے خلاف جنگ کے لئے اُٹھ کھڑا ہونے کی ترغیب دی ـ مگر حقیقت یہ ہے کہ تخت لاھور پر براجمان ھونے کی ھوس میں اب باپ بیٹا دونوں ہر طرف سے اور ہر طرح سے بے توقیر اور بے عزت ھو چکے تھے اورعوام پر سے اپنا اعتماد گنوا چُکے تھےـ
13 ستمبر کو شیر سنگھ ، رات کو ایڈورڈ اور کارٹلیند کی ڈنر ٹیبل پر گیا اور ایڈورڈ کی ساتھ والی نشست پر بیٹھ گیا ـ یہ دیکھ کر وانز کارٹلیند اُٹھ کر باہر چلا گیا ـ کچھ ہی دیر میں اُسے معلوم ہوا کہ اُسکا ٹینٹ گھیرے میں لیا جا رہا ہے لیکن وہ اپنے قتل یا گرفتاری کی سازش بھانپتے ھوے فورا” ہی وہاں سے فرار ھو گیا ـ انگریز سرکار کی ریشہ دوانیوں کو سمجھتے ھوئے اگلے روز ہی اُس نے اُنکا کا ساتھ چھوڑ کر مولراج کو اپنی حمایت کا یقین دلانے کی کوشش کی مگر بے سود ٌ وہ کوئی تین ہفتے یہی کوشش کرتا رھا ـ مگر مُولراج نے ہرگز اُس پر بھروسہ نہ کیا ـ کیونکہ درپردہ ایک خودساختہ خط کے ذریعے، جو کارٹلینڈ نے خود لکھ کر اور ڈرامہ کرکے خود ہی مولراج کے ہاتھ لگوایا تھا ـ مولراج کو یقین پُختہ یقین ہو گیا کہ شیر سنگھ دھوکے سے اُسے قتل کرنا چاہتا ھے ـ اِس لئے مُولراج نے باوجُود شیر سنگھ کی سچائی کے اُسے اپنی کمان میں نہ آنے دیا ـ سچ یہ ہے کہ اب اب نا قانل واپسی دیر ھو چُکی تھی ـ
بہر حال شیر سنگھ کی وفاداریاں بدلنے کی بنا پر انگریزوں کو نہ صرف بہت بڑا جھٹکا لگا بلکہ انہیں دوبارہ سورج کنڈ کیطرف پسپائی اختیار کرنی پڑی ۔ ساتھ ھی ساتھ اِس کمی کو پورا کرنے کے لئے اُسنے مذید غیر مُنظم مقامی غداروں کا ایک دستہ تیار کرنا شروع کر دیا ۔
سُورج کنڈ پہنچ کر شمال مغرب کی جانب اُنہوں نے اسی گاوں میں پڑاو ڈالا جہاں پر آتے ھوئے ڈالا تھا ۔ اور وہ کُچھ روز وہیں دَبکے رھے ۔ پھر ملتانی سپاہ کی مزید چڑھائی سے گھبرا کر 1000 تا 1500 میٹر اور پیچھے کِھسک گئے ۔ اور اپنے ہی غیر منظم دستے کے بائیں بازو میں پناہ لی ۔ اس پسپائی کے دوران 16 ستمبر 1947 کو ملتان کے جری جوانوں نے انہیں کافی ذیادہ جانی و مالی نقصان پہنچایا ۔ کئی بار انکے دستوں کو تتر بتر کیا مگر کارٹلینڈ کی جوابی کاروائی سے اُنہیں پیچھے ہٹنا پڑا ۔ کارٹلییڈ اور ایڈورڈ نے کئی بار اپنے منظم اور غیر منظم فوجی دستوں کی ترتیب و تقسیم اور احکامات بدلے مگر مُلتانیوں کو شکست دینا آسان نہ تھا ۔
انگریز افواج غیر منظم دَستوں کو یا تو ثانوی حیثیت میں اپنے ساتھ رکھتے تھے یا پھر الگ سے انہں کوئی ٹاسک دے دیا کرتے تھے ۔ اس مَعاندانہ حکمت عملی کی وجہ سے انگریز سپاہیوں کے مقابلے میں مقامی سپاہی ذیادہ آسانی سے اور ذیادہ تعداد میں مارے جاتے تھے ۔ کئی ایک ایسے تھے جو اِس رویے سے تنگ آکر یا اپنے ضمیر کی ملامت پر واپس گھروں کو بھی چلے گئے ۔ جو باقی رہ گئے انکا انجام اچھا نہ ھوا ۔ پہلی محاذ آرائی سے شکست خوردہ ، تھکی ماندی اور زخموں سے چور برطانوی فوج جنرل وہش کی کمان میں اب بمبئی سے نئی کُمک کا انتظار کرنے لگی ۔ اُنکا خیال تھا کہ اگر بمبئی سے اُنکی مرکزی قیادت انہیں مزید اسلحہ اور تازہ دم فوج بھیج دے تو شاید انکی ہلاکتیں کم ھو جائیں، اُنہیں بار بار پسپائی اختیار نہ کرنی پڑے اور انکی فتح کا خواب حقیقت میں بدل جائے ۔ اِسی انتظار اور اسی تصور میں انہوں نے جیسے کیسے سورج کنڈ میں اپنے تحفظ اور بقاء کا عارضی بندوبست کر لیا ۔
***
اے وی پڑھو:
تریجھا (سرائیکی افسانہ)۔۔۔امجد نذیر
چِتکَبرا ( نَنڈھی کتھا )۔۔۔امجد نذیر
گاندھی جی اتیں ٹیگور دا فکری موازنہ ۔۔۔امجد نذیر
گامݨ ماشکی (لُنڈی کتھا) ۔۔۔امجد نذیر
سرائیکی وسیع تر ایکے اتیں ڈائنامکس دی اڄوکی بحث ۔۔۔امجد نذیر
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر