نومبر 18, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہمیں طویل خاموشی کی ضرورت ہے!!||احمد اعجاز

یہاں کے عام لوگوں کی اس سے بڑی توہین و تضحیک کیا ہوسکتی ہے کہ شریف خاندان کے لو گ جو بزنس کرتے ہیں ،اُن کے گھر لندن میں ہیں اور جو یہاں ہیں ،وہ وزیرِ اعظم بننا چاہتے ہیں۔ ہمیں ایک خاموشی کی ضرورت ہے
احمد اعجاز 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہاں توہین و تضحیک سے جینا ہے تو بے شک جئیں جائیں ،یہاں عزت سے جینا منع ہے،جن کے پیٹ بھرے ہیں ،اُن کے دماغ میں بھوسہ بھرا ہے اور دِل انتہائی سخت ہیں۔ایسوں کو زمین پر سانس لیتے جیتے جاگتے انسان کیڑے مکوڑے دِکھائی دیتے ہیں ،یہ پیڑوں پر بیٹھے پرندوں اور اُن کے گھونسلوں سے کہاں واقف ہوں گے؟پرویز خٹک صاحب فرماتے ہیںکہ پورے صوبے میں کوئی کچا گھر دِکھا دیں،غربت ختم ہوچکی،مہنگائی کا نام و نشان نہیں ،بے روزگاری کا خاتمہ ہوچکا ،ہمیں اپنے گھروں میں رکھنے کے لیے ملازم نہیں ملتے۔
پرویز خٹک کو کیا معلوم کہ گھر وں میں دُکھوں اور اَلمیوں کی آکاس بیلیںدرودیوار سے کیسے چمٹی ہوئی ہیں؟پرویز خٹک کے نزدیک صوبے کی مائیں اس لیے بچے جنم دیتی ہیں کہ وہ اِن کے گھروں میں ڈرائیو،گارڈ ،باورچی اور خاکروب لگ سکیں۔وزیرِ اعظم صاحب فرماتے ہیں کہ خواتین پردہ نہیں کرتیں،یوں مَرد روبوٹ نہیں،لہٰذا فحاشی پھیلتی ہے۔ایک کے بعد ایک توہین اور تضحیک کااحساس یہاں پھوٹتا رہتا ہے۔
یہاں کے مَرد…یہاں کے مَردوں نے بھی اَخیر کررکھی ہے۔پڑھے لکھے ،اَن پڑھ میں کوئی اَمتیاز نہیں۔جامعا ت میں پروفیسرز حضرات کے قصے منظرِ عام پر آتے رہتے ہیں،مدارس سے جڑے اساتذہ کی حالیہ ویڈیوز بھی سامنے ہیں۔ایک مفتی صاحب کی ویڈیو منظر ِ عام پر آئی ،اگلے روز ڈھٹائی سے بیان دیا کہ جھوٹی ہے اور کسی نے شہرت کمانے کے لیے وائرل کروائی ۔
اُدھر برطانیہ کے وزیرِ صحت کی اخلاقیات ملاحظہ فرمائی جاسکتی ہیں،نہ کوئی جواز،نہ عذر،بس غلطی تسلیم کی اور استعفیٰ دے دیا،یہ کہہ کرکہ غلطی ہوگئی اور شرمندہ ہوں ۔یہاں غلطی کرکے اُس پر ڈٹ جاتے ہیں ،قسمیں کھاتے ہیں اور صفائیاں دینے کے نت نئے بہانے تراش لاتے ہیں۔کیا دُکھ کی گھڑی آن پہنچی ہے کہ یہاں کا سیاست دان سیاست دان نہیں رہا،یہاں کا اُستاد ،اُستاد نہیں رہا،،یہاں کا عالم ،عالم نہیں رہا،یہاں کاسرپرست ،سرپرست نہیں رہا۔دماغوں میں بھوسے بھرے ہوں اور دِل سخت ہوں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ وزیرِ اعظم صاحب فرماتے ہیں کہ انگریزی زبان اور لباس کا استعمال احساسِ کمتری ہے،سافٹ امیج کو فروغ دینے کے لیے ہمیں پاکستانیت کو فروغ دینا ہوگا،جس کو خود سے شرم آئے ،دُنیا اس کی عزت نہیں کرتی،ہار سے ڈرنے والا شخص کبھی جیت نہیں سکتا۔ میرے جیسا ادنیٰ سا طالبِ علم وزیرِ اعظم صاحب سے یہ پوچھنے کی جسارت کرسکتا ہے کہ اُن کی پاکستانیت سے کیا مُراد ہے؟
اگر پاکستانیت سے مُراد ،یہاں کا کلچر،زبان اور لباس ہے تو پھر قومی اسمبلی میں ارشاد سیال کوسرائیکی زبان میں خطاب کیوں نہیں کرنے دیا گیا؟پنجابی میں خطاب کی اجازت کیوں نہیں ملتی،دیگر قومی زبانین بھی اسی اجازت سے بندھی ہیں ۔اجازت اس لئے نہیں ملتی کہ وہ مقامیت کی نمائندگی کررہے ہیں؟اگریہ انگریزی میں خطاب کرتے تو اِن کو ٹوکا جاتا؟وزیرِ اعظم صاحب!جب پاکستانیت کی بات ہوگی تو معاملہ تہتر چوہتر سال تک محدود نہیں رہے گا،بہت پیچھے تک جائے گا۔ یہاں کے فرد کو اُس کے شناختی ورثے سمیت قبول تو شروع دِن سے نہیں کیا گیااور اُس کو مصنوعی شناخت دی گئی ،جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔جب پاکستانی دوسروں کی لڑائیاں لڑلڑ بڑے ہوئے ہوں ،جب پاکستانی دوسروں کی ’’پراکسی‘‘رہے ہوں ،جب پاکستانیوں کے مفادات دوسروں کی بھینٹ چڑھے ہوں ،تو پھر پاکستانیت اچانک کہاں سے آسکتی ہے؟
وزیرِ اعظم کے اس بیان کو محض بیان ہی سمجھا جائے گا،جیسے اِن کے دوسرے بیانات کو محض بیانات ہی سمجھا جاتا ہے اور جیسے اِن سے پہلے والوں کے بیانات کی تاریخ ہے۔یہی المیہ ہے ،یہاں کوئی قول ،قول ہی نہیں رہا،کوئی فرمان ،فرمان ہی نہیں رہا،کسی کا لکھا،لکھا نہیں رہا،کسی کا کہا ،کہا نہیں رہا،سب کچھ بے برکت اور بے توقیر ہو چکا ہے کہ یہاں لکھا اور کہا بہت گیا ،عمل نہیں کیا گیا۔یہاں بولنے اور زیادہ بولنے کی صلاحیت کو خوبی سمجھا جاتا ہے۔
حکومتی وزراء بولنے کے پیسے لیتے ہیں، ہمارے ٹیکسوں سے اُن کی بھاری تنخواہیںاور مُراعات کی تکمیل ہوتی ہے۔گذشتہ حکومت نے چند بولنے والے رکھے ہوئے تھے،اس حکومت نے بھی چند بولنے والے رکھے ہوئے ہیں۔ہر وقت بولتے ہیں۔یہ اتنا بولتے ہیں ،اتنا بولتے ہیں کہ اب اِن کے حلق سے آوا ز نہیں نکلتی،زبان اور ہونٹ ہلتے محسوس ہوتے ہیں ۔مگر اِن بولنے والوں کو یہ احساس نہ ہوسکا کہ اُن کی آواز اُن کے حلق سے نکلنا بند ہوچکی ہے۔ہمارے محبوب وزیرِ اعظم صاحب کو بھی بولنا آتا ہے۔یہ وزیرِ اعظم سے زیادہ ایک بڑے دانشور کے طورپر تاریخ میں اپنی شناخت کروانا چاہتے ہیں۔جب اِن سے سوال کیا جائے کہ مہنگائی قابو میں نہیں آرہی،غربت بڑھ رہی ہے،نوجوان بے روزگار ہیں ،یہ اخلاقی درس دینا شروع کردیتے ہیں اور یہ بتاتے ہیں کہ فحاشی کیسے پھیلتی ہے۔مجھے تو حیرانی ہوتی ہے،اُن پاکستانی اینکرز اور صحافیوں پر ،جن کو کبھی وزیرِ اعظم سے انٹرویو کا موقع ملتا ہے،کیسے کیسے سوال کرتے ہیں اور کیسے کیسے جواب سنتے ہیں؟کبھی اس طالبِ علم کو موقع ملا تو پھر معلوم پڑے گا کہ سوال کس کو کہتے ہیں؟
ہمارے ایک جیّد صحافی نے گذشتہ دِنوں جو تقریر کی ،اُس کو تقریر کہتے ہیں؟یہاں سب کچھ غیر متعلقہ ہورہا ہے۔تقریریں غیرمتعلقہ،باتیں غیر متعلقہ،سوالات اور پھر اُن کے جوابات غیر متعلقہ۔ دَرحقیقت یہاں کا آدمی ہی غیر متعلق ہو چکا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پرویز خٹک کو کچا گھر نہیں ملتا،اپنے پختہ گھر میں رکھنے کے لیے ملازم نہیں ملتے،وزیرِ اعظم صاحب کو عورتوں کے لباس میں فحاشی نظر آتی ہے۔حمزہ شہباز کو یہ معلوم نہیں کہ اُن کے اکاونٹ میں بھاری رقوم کون بھیجتا رہا۔
یہاں کے عام لوگوں کی اس سے بڑی توہین و تضحیک کیا ہوسکتی ہے کہ شریف خاندان کے لو گ جو بزنس کرتے ہیں ،اُن کے گھر لندن میں ہیں اور جو یہاں ہیں ،وہ وزیرِ اعظم بننا چاہتے ہیں۔ ہمیں ایک خاموشی کی ضرورت ہے۔طویل خاموشی کی۔طویل خاموشی کی ساعتوں میں ہمیں سوچنے اور کچھ کرنے کا موقع ملے گا۔اگر بولنے والے خاموش نہ ہوئے تو اُن کے حلق سے اُن کی آوازیں نکلنا بند ہو جائیں گی۔یہ کسی حد تک بند ہو بھی چکی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

بندگلی میں دَم کیسے گھٹتا ہے؟۔۔۔احمد اعجاز

حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز

حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز

یہی خزاں کے دِن۔۔۔احمد اعجاز

احمد اعجاز کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author