ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیر اعظم عمران خان نے نیشنل ایمچور شارٹ فلم فیسٹیول کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلموں میں ہم نے بھارتی کلچر اپنایا جبکہ ہمیں پاکستانیت کو فروغ دینا ہو گا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ سافٹ امیج دوسروں جیسے کپڑے پہنے سے نہیں خوداری سے آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سافٹ امیج کوئی چیز نہیں یہ ایک احساس کمتری ہے۔ ہمیں احساس کمتری سے نکل کر پاکستانیت کو فروغ دینا ہو گا۔ وزیر اعظم کا بیان نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
یہ بدقسمتی ہے کہ ہم نے بھارت سے آزادی حاصل کر لی مگر ثقافتی طور پر بھارت کی غلامی سے آزاد نہ ہو سکے۔ وزیر اعظم نے درست کہا ہے کہ فلموں میں بھارتی کلچر کو اپنایا گیا جس کی وجہ سے پاکستانی کلچر سامنے نہ آسکا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان گلدستے کی مانند ہے یہاں مختلف ثقافتیں اور مختلف زبانیں ہیں۔ سب کے اپنے اپنے رنگ اور اپنی اپنی خوشبو ہے۔ ہم نے پہلے دن سے پاکستان کی ثقافتوں اور زبانوں کی طرف توجہ نہیں دی اور جس ملک سے ہم نے آزادی حاصل کی اسی ملک کی ثقافت کو اپنا لیا۔ پاکستان کی زبانوں کو بھی پھلنے پھولنے کا موقع نہ دیا۔
جس پر مشرقی پاکستان کے بنگالی بھائی بول پڑے اور انہوں نے اپنی زبان اور ثقافت کا مطالبہ کیا مگر ہم نے اُن کی بات سنی ان سنی کر دی۔ پاکستان میں صوبہ سندھ واحد صوبہ ہے جہاں سندھی پڑھائی جاتی ہے اور سندھی ثقافت کے فروغ کیلئے ادارے بھی موجود ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کی تمام زبانوں اور تمام ثقافتوں کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا جائے اور پاکستان کی قدیم زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دیا جائے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ آج کی اردو معمولی فرق کے ساتھ ہندوستان کی ہندی زبان ہے مگر یہ بھی دیکھئے کہ ہندوستان میں صرف ایک زبان ہندی کو قومی زبان قرار نہیں دیا گیا وہاں سولہ سے زائد قومی زبانیں ہیں۔
زبان اور ثقافت کے مسئلے پر نئے سرے سے غور اور مشاورت کی ضرورت ہے ورنہ سافٹ امیج ہمیشہ احساس کمتری کا باعث رہے گا۔ ثقافت کے مسئلے پر انگریزوں نے بہت سے کانٹے بوئے اب یہ کانٹے صاف کرنے کی ضرورت ہے اور سنجیدگی کے ساتھ پاکستان میں بولی جانیوالی زبانوں اور ثقافتوں کو فروغ دینا ہو گا اور جیسا کہ وزیر اعظم نے فرمایا بھارتی کلچر سے جان چھڑانا ہو گی۔ یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ انگریز نے 1849 ء میں جب ہندوستان پر قبضہ مکمل کیا تو اس نے اردو کو پروان چڑھایا کہ اس کو دھرتی کی اصل زبانوں کی طاقت کا علم تھا، انگریز نے یہ بھی کیا کہ مختلف قوموں کو مختلف صوبوں میں ایک دوسرے کے ساتھ گڈ مڈ کر دیا تاکہ وہ متحدہ طاقت کی شکل میں سامنے نہ آ سکیں، اس نے صوبائی حد بندیاں اپنی استعماری ضرورتوں کے تحت مقرر کیں، انگریزوںنے اپنے مذموم مقاصد کے تحت دھرتی کی ثقافتوں اور زبانوں کو جڑ نہ پکڑنے دی۔
وزیر اعظم عمران خان کے بیان سے یاد آیا کہ کچھ عرصہ پہلے ہندوستان کی سونیا گاندھی نے کہا تھا کہ ہم نے ثقافتی جنگ جیت لی ہے۔ یہ بات اُس نے اس بناء پر کہی کہ انگریزوں سے آزادی حاصل کی مگر گنگا جمنا کی زبان و ثقافت سے آزاد نہ ہو سکے۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا حملہ آور حکمرانوں کے اپنے اپنے مقاصد اور اپنی ترجیحات ہوتی ہیں، مغلوںنے فارسی کو مسلط کیا، انگریزوں نے 1849ء میں قبضہ کیا تو اس نے فارسی کو رخصت کرنے کے لئے اردو کو نافذ کیا اور ساتھ ہی انگریزی کو بھی آگے بڑھاتا رہا، انگریز نے ماسوا سندھی باقی تمام زبانوں کا سر کچلا، اسے زبانوں و ثقافتوں کی طاقت اور قوت کا مکمل ادراک تھا۔
اسے علم تھا زبان و ثقافت سے قوم بنتی ہے اور پھر جب قوم اپنے وسیب ، اپنے خطے اور اپنی ماں دھرتی کے دفاع کیلئے باہر اتی ہیں تو پھر حملہ آور بدیسی حکمران نیست و نابود ہو جاتے ہیں، اس لئے انگریز نے قوموں کا وجود ہی نہ بننے دیا اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستانی زبانوں اور ثقافتوں کو فروغ دے کر پاکستان کا نام روشن کیا جائے اور غلامی سے آزادی حاصل کی جائے۔
ہمارے حکمران اس پات پر تو زور دیتے رہے ہیں کہ اردو پڑھائی جائے کہ یہ قومی زبان ہے، انگریزی پڑھائی جائے کہ اردو اعلیٰ تعلیم اور دفتری امور کے تقاضے پورے نہیں کر سکتی ، عربی پڑھائی جائے کہ یہ مسلمانوں کی مذہبی زبان ہے، فارسی کو بھی ختم نہ ہونے دیا جائے کہ اس نے برصغیر پر ہزار سال حکومت کی۔ لیکن انہیں یہ خیال کم ہی آیا ہے کہ ماں دھرتی کی بولیاں اور زبانیں جو اس دھرتی کی اصل وارث ہیں، کا بھی کوئی حق ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ بدیسی زبانوںکو آپ مسلط کر دیں اور جو دیس کی زبانیں ہیں ان کو آپ کچل کر رکھ دیں۔
اس سے بڑھ کر لسانی دہشت گردی اور لسانی تعصب کیا ہوگا؟ میں واضح بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی قومیں زبانیں پاکستانی زبانیں ہیں، ان زبانوں کو علاقائی زبانیں کہنا انکی توہین ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ جن زبانوںکے بولنے والوں کی تعداد قلیل ہو ، ریاستی امور میں بھی وہ زبان شامل نہ ہو، تعلیمی اداروںمیں بھی نہ پڑھائی جاتی ہو، وہ مٹ جاتی ہے اور ختم ہو جاتی ہے، لیکن دنیا میں ایسے ادارے بھی متحرک ہو چکے ہیں جن کی کوشش اور مقصد یہ ہے کہ کوئی ایسی زبان جن کے بولنے والے چند ہزار یا چندسو ہی کیوںنہ ہوں کو زندہ رکھنے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ لیکن ہمارے ہاں یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ پاکستانی زبانوں کو بولنے والے کروڑوں کی تعداد میں اس کے باوجود پاکستان کے حکمران ان زبانوں کو ختم کرنے کے در پے ہیں، کسی بھی زبان اور ثقافت کے ختم ہونے کا مقصد خطے کی تاریخ و تہذب کا اختتام اور موت سمجھا جاتاہے لیکن ہماری حکومتوں نے کبھی اس کی پرواہ نہیں۔ حالانکہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں یہ واضح لکھا ہے کہ ماں بولیوں کا نہ صرف یہ کہ تحفظ کیا جائے بلکہ ان کو پھلنے پھولنے کے مواقع مہیا کئے جائیں، پاکستان نے اقوام متحدہ کے چارٹر پر دستخط کر رکھے ہیں مگر عملا اس کے برعکس ہو رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر