گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پنشن پر جانا بھی عجیب رپھڑا ہے ۔ پاکستان میں جب آپ کسی بڑی پوسٹ پر ہیں تو آپ کے ماتحت آپ کو باور کراتے ہیں کہ آپ ارسطو اور افلاطون کی طرح قابل ترین شخص ہیں اور اگر آپ ریٹایر ہوئے تو متعلقہ محکمہ اور اس کی عمارت دھڑام سے زمین پر آ گرے گی۔
ریٹایرمنٹ کے دن ایک دعوت کر کے آپ کی قابلیت کے گیت گاے جاتے ہیں آپ کو ہار پہناے جاتے ہیں اور تحایف بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے آپ کی ریٹایرمنٹ سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی بھی پر نہیں ہو سکے گا اتنی تعریفیں سن کر ریٹائیرڈ بندہ خود کو سچ مچ ٹارزن سمجھنے لگتا ہے کہ یار یہ دفتر تو میری وجہ سے چل رہا تھا اور اب تو اندھیرا ہی اندھیرا ہو گا۔ بہت دفعہ عظیم تر قومی و ملکی مفاد کی خاطر اور قسمت یاوری کرے تو بندہ کوئی جیک شیک لگا کر ایکسٹینشن لینے میں کامیاب ہو جاتا اور ریلوے کے انجن کی طرح محکمے کو خسارے میں چلاتا چلا جاتا ہے۔ لیکن ایکسٹینشن کا یہ دور اتنا خوشگوار نہیں ہوتا کیونکہ اس کی وجہ سے پروموشن کی ایک سیریز رک جاتی ہے اور پھر ماتحت لوگوں میں بھوں بھوں اور بھاں بھاں شروع ہو جاتی ہے۔ اگر آپ وقت پر ریٹائیر ہو گیے ہیں اور جو پھُوک یعنی ہوا آپ میں بھری گئی ہے اور وہ آپ دفتر نکال کے نہیں آے تو آپ کی مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔آپ غلط توقعات کے ساتھ پرانے سٹاف کے جس بندے سے بات کرتے ہیں اس کے مورکھ جواب سے آپ کی مایوسی مزید بڑھ جاتی ہے۔
ان توقعات میں سب سے بڑی توقع جو ہر سال پنشنرز لگاتے ہیں وہ بجٹ میں پنشن کے اضافے کی ہے۔ پچھلے سال پنشنرز شیخ چلی کی طرح خواب دیکھتے رہے مگر بجٹ کی نان سٹاپ ٹرین ان کے سٹیشن پر رکے بغیر منزل پر پہنچ گئی اور پنشنرز غبار دیکھتے رہے۔ کہا گیا اقتصادی طور ملک نازک دور سے گزر رہاہے مگر حکومت کے اللے تللےاور کرپشن تو اتنی بڑھ گئی کہ ایک آدمی کی لوٹ سے ملک کے سارے پنشنرز کو کئی سال پنشن دی جا سکتی ہے۔ ادھر IMF جس سے ہماری حکومتوں کی پرانی یاری ہے وہ تو گورنمنٹ سرونٹس اور پنشنرز کا ازلی دشمن ہے ۔وہ کہتا ہے کہ تنخواہوں اور پنشنوں کو ہمیشہ کے لیےفریز کر دو تاکہ ان کا اپنا سود اور قرضے ادا ہو سکیں۔ بڑے بڑے منصوبوں جیسےموٹر وے ۔میٹرو ۔اورنج ٹرینیں ۔ تیل سے چلنے والے بجلی گھروں کے لیے اربوں ڈالر قرضے لیے گیے اور کہا گیا قوم کی قسمت بدل دینگے ٹایگر بنا دیں گے۔ ان بجلی گھروں کے آنے سے لوڈ شیڈنگ چار گنا بڑھ گئی اور بجلی کے ریٹ آٹھ آنے یونٹ سے 42 روپے جا پہنچے ۔ واپڈا کے میٹر ریڈرز کے پاس جرمانے کرنے کے ایسے اختیارات جو امریکی صدر جو بائیڈن کے پاس نہیں ۔ ڈیرہ والوں کا تو جرمانے کر کے بھرکس نکال دیا گیا۔ یہ ٹایگر بنانے کا خواب تھا جو تعبیر ہوا ۔ موٹر ویز سڑکوں کی تعمیر سے جو پیسہ ملا اس سے دگنا عوام کی جیب سے نکال کے قرض ادا کیا جاتا ہے۔ یار پہلے بھی ہم انگریزوں کی بنی سڑکوں پر سفر کر رہے تھے کبھی موٹر وے کی ڈیمانڈ عوام نے تو نہیں کی۔ مہنگائی اور بے روزگاری آسمان چھونے لگی ۔دوائیوں کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کر دیا گیا ۔مگر پنشنرز کا نام لینا بھی گوارا نہیں۔ اب تو سنا ہے پشاور یونیورسٹی کے ملازمین اور پینشنرز سے کٹوتی کا پروگرام ہے۔ گومل یونیورسٹی کے پنشنرز کب سے رل رہے ہیں کوئی سنتا نہیں۔ ان حالات میں بھی ہمارےپنشنرز بزرگ ہمیں کہتے ہیں پنشن میں اضافے کا مطالبہ کرو گزارا نہیں ہوتا ۔ ہمارے دوست ریاض انجم صاحب کہتے ہیں۔۔۔ سرکاری ملازمین روئے پیٹے اور جلوس وغیرہ نکالے ، تو ان کا کام بن گیا ! لیکن پنشنروں کا تو کوئی ولی وارث بھی نہیں ! لہذا —- پنشنرز تو ، اس بات کی دعا کریں کہ ان کی پنشن سے کسی قسم کی کٹوتی کی تجویز زیر غور نہ ھو ! وہ پرانی پنشن کی خیر منائیں کہ وھی بحال رھے !
وگرنہ حکومت کا بس چلے تو تمام پنشنرز کو کنٹینروں میں ڈال کر بحیرہ عرب میں پھینک آئیں ۔جی۔۔ علامہ اقبال رح نے سچ کہا تھا — اور شاید پنشنرز کی حالت زار کو ھی پیش نظر رکھ کر کہا تھا ؎ تری بندہ پروری سے میرے دن گذر رھے ھیں…
نہ گلہ ھے دوستوں کا ، نہ شکایت زمانہ ! اور گلہ یا شکایت اگر کریں بھی تو کس سے ؟ زمیں سخت ھے ، آسماں دور ھے !
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر