نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلوچستان کے ساحلی علاقوں سے بالآخر کوئٹہ پہنچے تووہاں تین روز تک قیام ضروری محسوس ہوا۔عثمان کاکڑ سے ان ہی دنوں تعارف ہوا تھا۔ محمود خان اچکزئی پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی کے بہت ہی متحرک کارکن تھے۔یہ جماعت کئی لوگوں کی نگاہ میں ناقابل برداشت حد تک ’’قوم پرست‘‘ ہے۔اس کی ’’حب الوطنی‘‘ پر بھی اکثر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔عثمان کاکڑ ذاتی طورپر لیکن حیران کن حد تک عاجز اور منکسرالمزاج نظر آئے۔ کم گو شخص تھے۔اپنے نظریات کو آواز بلند کئے بغیر فقط دلائل کے ذریعے بیان کرتے۔
توازن کھوکر پھسل جانے کی وجہ سے لگی چوٹ ان کی ناگہانی موت کا سبب بتائی گئی ہے۔ان کے چند پرستار مگر سوشل میڈیا پر وسوسوں بھرے سوالات اٹھارہے ہیں۔میں فقط یہ التجا ہی کرسکتا ہوں کہ وفاقی اور صوبائی حکومت باہم مل کر قابل اعتماد ڈاکٹروں کے ذریعے ان کی موت کے حقیقی اسباب کا جائزہ لے کر انہیں عوام کے روبرو لائیں۔وگرنہ…
’’ایہہ منظور تے ایہہ نا منظور‘‘ والا رویہ سوشل میڈیا پر رونق تو لگادیتا ہے مگر اس کے ذریعے افغانستان جیسے دیرینہ اور انتہائی پیچیدہ موضوعات کا گہرائی سے جائزہ لینا ممکن ہی نہیں۔سینٹ کے اجلاس میں پیر کے روز تقریر کرتے ہوئے محترمہ شیری رحمن درست وجوہات کی بنیاد پر شدت سے دہراتی رہیں کہ امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان سے اپنی افواج کو نکالنے کے لئے 4جولائی سے قبل ہی تلے بیٹھے ہیں۔جو تاریخ طے ہوئی ہے اس تک پہنچنے کو دو ہفتوں سے بھی کم وقت رہ گیا ہے۔قطر میں کئی مہینوں سے جاری مذاکرات کی بدولت ہمیں یہ امید دلائی گئی تھی کہ افغانستان سے بیرونی افواج کے انخلاء سے قبل افغان سیاست دان کے تمام اہم فریقین کی باہمی مشاورت سے کوئی ایسا بندوبست تشکیل دیا جائے گاجو غیر ملکی افواج کے انخلاء کی وجہ سے نمودار ہونے والے خلاء کو خوفناک خانہ جنگی کی طرف نہ دھکیلے۔یہ کالم لکھنے تک مطلوبہ بندوبست ہوا نظر نہیں آرہا ۔ نہ ہی اس کے ٹھوس امکانات دور دور تک دکھائی دے رہے ہیں۔دریں اثناء روزانہ کی بنیاد پر افغانستان سے خبریں آرہی ہیں کہ وہاں کے کئی صوبوں کے بیشتر علاقے سرعت سے طالبان کے کنٹرول میں آرہے ہیں۔یوں گماں ہوتا ہے کہ غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد موجودہ افغان حکومت کابل،قندھار اور جلال آباد جیسے بڑے شہروں تک محدود مگر کئی اعتبار سے محصور بھی ہوجائے گی۔ اس کے بعد کیا ہوگا اس کے بارے میں کسی کو خبر نہیں۔
میں یہ تسلیم کرنے سے انکاری ہوں کہ ہمارے ریاستی اداروں نے افغانستان کے مستقبل کی بابت طویل مشاورت کے بعد ممکنہ مناظر کی تفصیل مرتب نہیں کی۔انہوں نے ہر نوع کی صورت حال سے نبردآزما ہونے کے لئے چند اقدامات بھی سوچ لئے ہوں گے۔مجھے خبر نہیں کہ طویل سوچ بچار کے نتیجے میں تیار ہوئے مستقبل کے ایسے خاکے کس حد تک پارلیمان کے روبرو رکھے جاسکتے ہیں۔صحافیوں کو اعتماد میں لینا تو بہت دور کی بات ہے۔
’’صحافی‘‘ کو مگر اپنے تئیں بھی کچھ ’’مغزماری‘‘ کرنا چاہیے۔ہمارے کئی صحافی ادارے ’’مندی‘‘ کے موجودہ ماحول میں بھی نظر بظاہر اپنے اخبارات اور سکرینوں کی رونق برقرار رکھے ہوئے ہیں۔کاش ان میں سے چند اپنے نمائندوں کو افغانستان بھیجنے کی بابت بھی سوچیں۔برسرزمین حقائق کو صرف وہ ہی ہمارے لئے بیان کرسکتے ہیں۔ ٹھوس حقائق سے لاعلم رہتے ہوئے محض قیافہ اور قیاس آرائی ہوسکتی ہیں۔ افغانستان مگر ٹھوس حقائق کے اجاگر ہونے کا حق دار ہے۔ہم وہاں کی حقیقت سے غافل رہے تو ایسے مضمرات کا سامنا بھی کرنا پڑے گا جن کے لئے ہم ذہنی طورپر ہرگز تیار نہیں ہیں۔
بشکریہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر