قسور سعید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تُو گُفتار….. وہ کردار…… تُو ثابت وہ سیّارا
جب سے ہوش سنبھالا اپنے سر پہ ایک سائبان پایا…ایک ایسا سائبان جو خود جھلستا رہا مگر سورج سے الجھ گیا…. ایک ایسا عزم مصمم جو غم و آلام کی چٹانوں کو پاش کرتا چلا آیا …جو طوفانوں سے نبرد آزما رہا اور بیچ بھنوری پھنسی کشتی کو نکالنے بحر ظلمات میں کود گیا.
کوہ سلیمان پہاڑ کے ایک گائوں کے ڈسپنسر کی اوقات ہی کیا کہ شہروں میں جا کے بچوں کو پڑھائے اور یونیورسٹیوں کے اخراجات پورے کرے…
بنیادی مرکز صحت لتڑا کے بوسیدہ کوارٹروں میں ہمارا گھر تھا اور ساتھ والا کوارٹر نازو چپڑاسی کا تھا.ہر بدلتے ڈاکٹر کی آئو بھگت کرنا اور دل میں احساس کمتری کے ساتھ ایک امید کی کرن تھی جبھی میرے بابا یاماہا بائیک کی ٹینکی پہ مجھے سکول چھوڑنے جاتے اور راستے میں مجھے نیند آ جاتی تھی…
دادا دادی اور پورے گھر کے اخراجات کی تکمیل کے تناظر میں معیشت کے یہ حالات تھے کہ مٹھوان گائوں میں 80 روپئے کے بلے کیلیے میں گھنٹوں رویا تھا.دو کچے کوٹھے ،چھت والے دو پنکھے،ایک گائے ،ایک آٹے دان،ایک سلائی مشین، جہیز میں ملی ایک َبڑی صندوق ،صحن کا پنکھا، 5 مرلے کا گھر اور 5 بچے بابا کا کل اثاثہ تھے..
خداوند کریم کی نصرت پہ توکل کامل کرتے ہوئے بابا نے سارے رشتہ داروں کو الوداع کیا ، گھر، گائے بیچ دی اور 2004 میں تونسہ شریف میں دو ہزار کرایہ کے ایک پرانے مکان شفٹ ہو گئے.مکان کی بوسیدگی کا یہ حال تھ کہ ہر طرف خوفناک بچھو ہی بچھو ہوتے تھے یوں بابا سب سے پہلے اٹھتے اور ہم بچوں کی حفاظت کیلیے روزانہ کے آٹھ دس بچھو مارتے اور پھر نماز کیلیے ہمیں جگاتے….
کوہ سلیمان کے ایک بلوچ بچے کا لیول تونسہ سے کہیں کم تھا یوں چھٹی جماعت میں حرا سکول تونسہ والوں نے مجھے ایک انگلش ٹیسٹ کے بعد داخلہ دینے سے انکار کر دیا….یہ نئے نئے تونسہ آئے ایک لاچار باپ کیلیے گہرے صدمے سے کم نہ تھا.خدا پاک کی کرنی ایسی ہوئی کہ ہانچویں کا رزلٹ آنا ہی تھا کہ میرے نمبر حرا سکول کے بچوں میں سب سے زیادہ آئے تھے اور بابا پرنم آنکھوں سے حرا سکول والوں کی دہلیز پہ احساس شکوہ لیے دکھی پائے گئے….
دن گزرتے گئے…اخراجات بڑھتے گئے تو بابا نے عامر ہسپتال چند ہزار کے عوض پرائویٹ ملازمت کی…دن کو تونسہ سے 70 کلومیٹر دور لتڑا جاتے تو رات کو ساری رات پرائویٹ ہسپتال کام کرتے…..عبدالرحمن شاہ صاحب کے ساتھ تیمور ہسپتالبھی کام کرتے رہے. بابا جاب پہ جاتے تو اکیلی بائیک ادھر چلی جاتی ،رکشے کے پیسے نہ تھے یوں مجھے سہراب کا پہلا سائیکل ملا تو ماڈل مڈل سکول،ہائی سکول اور سنگھڑ اکیڈمی تک ہم نے خوب پیڈل گھمائے..بابا ایک ایک پنسل پوری کرنے سے لے کر ایک ایک استاد محترم کی منت و سماجت کرتے رہے..اور دیگر والدین کی طرح ہوم ٹیوشن نا ہی سہی اکیڈمیز میں ہمیں بھیجتے رہے…
فضل الہی کے طفیل 2006 میں اپنا گھر لیا مگر قرضوں کے بھاری بوجھ تلے دب گئے..رہے….بجلی کا نیا پیڈیسٹل فین جل جانے پر ہم بدلی کرانے کالج روڈ پہ بودو کے طارق قیصرانی دوکاندار کے پاس گئے تو اس نے بابا کو حقیر و غریب جانتے ہوئے بغیر وجہ جو ہتک کی… یاد کرتا ہوں تو آج بھی اشک رواں ہوتے ہیں…2007 میں کمپیوٹر کا دور عروج پہ پہنچا تو ہم نے اپنی نادانی اور کم سنی میں انکو مجبور کیا…پینٹیم 2 کا چھے جی بی ہارڈیسک والا کمپیوٹر جس کا مدر بورڈ اور ریم ہر روز جل جاتے تھے ان کیلیے کڑے امتحان سے کم نا تھے…
نویں جماعت سے بارہویں تک بابا صبح چار بجے ہمیں جگاتے اور خود چائے بنا کر بسکٹ پیش کرتے رہے تاکہ ہماری نیند ختم ہو جائے اور قیمتی وقت بھی ضائع نہ ہو…ایف سی فرسٹ ائیر میں محمودالحسن اور میں رات کے دو بجے تک ڈگری کالج تونسہ پڑھتے تھے..واپسی پہ گدام کے کتے کاٹتے تھے. بابا رات گئے تک گھر جاگتے رہتے اور دو بجے مجھے کالج سے واپس لے جاتے تھے…
انٹری ٹیسٹ کی تیاری پہ پورا مہینہ ایک ہلکے فلیٹ پہ میرے ساتھ رہے اور ہر ضرورت پوری کرنے کا خاص خیال رکھا..یوں انٹری ٹیسٹ کی ساری رات سر بسجود رہے…
ایم بی بی ایس کے پانچوں سال کوئی دن خطا نہیں رہا حب ان کی کال نا آئی ہو یوں میری سب سٹیج ،سٹیج اور ٹرم کا میرے سے زیادہ پتا ان کو ہوتا تھا.نماز وقت پہ پڑھنا،صبح کال کر کے سحری پہ اٹھانا! صحت کا خیال رکھنا، آج جلدی سونا ہر روز کی ان کی سپروژن ہمیشہ سایہ فگن رہی..ان کو کسی نے بتا رکھ تھا کہ سیکنڈ ایئر پاس ہونے سے قبل کالج سے ایکسپل کیا جا سکتا ہے چنانچہ میرے روم میٹ فیصل ندیم کو بار بار تاکید کرتے تھے کہ یار مل کے سیکنڈ ایئر پاس کرو آپکا احسان ہو گا.
الحمد للہ آج رب کعبہ کی کریمی اور انکی محنت کے عوض ان کی بڑی بیٹی سکیل 15 کی ٹیچر بنی، بڑا بیٹا پاکستان کی بہترین یونیورسٹی UET LAHORE سے مکینکل انجنیر بنا اور سی ایس سی ایس کا مقابلہ کا امتحان دے چکا..میں جنوبی ایشیا کے بہترین میڈیکل کالجوں میں سے ایک علامہ اقبال میڈیکل کالج لاہور سے ایم بی بی ایس کر کے ایف سی پی ایس نیفرالوجی(گردہ میڈیسن) کا طالب علم ہوں.
ان کی چھوٹی بیٹی اور بیٹا جنوبی پنجاب کی بہترین میڈیکل یونیورسٹی نشتر میں بالترتیب ہائوس آفیسر اور طالب علم ہیں…ماما بابا کے حج عمرہ کے ساتھ ساتھ پانچ میں سے چار بچوں نے بیت اللہ پاک کا طواف مبارک کیا ہوا اور نبی آخرالزماں ،خاتم المرسلین ،تاجدار ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام مبارک پیش کیا ہوا.
حرا سکول کے سب بچے پیچھے رہ گئے،طارق جس کی آج بھی کالج روڈ پہ موبائل کی دکان ہے میں نے پرشکوہ نمناک آنکھوں سے انہیں یاد دلایا اور التجا کی کہ کسی کے باپ کی ہتک صرف کمزوری کے عوض اس کے چھوٹے معصوم بیٹے کے سامنے دوبارہ کبھی نا کرنا..
کسی پودے پہ لگے گلاب خوش رو اور مہک سے لبریز دکھتے ہیں مگر ان کے مالیوں کو بھول جانا نا انصافی ہی تو ہے….باپ وہ سورج ہے جس کی کرنوں میں بعض اوقات چبھن تو محسوس ہوتی ہے مگر اگر وہ ڈوب جائے تو ہر سو گھپ اندھیرا چھا جاتا ہے… میرے اکائونٹ میں پیسے ہوتے ہیں مگر بابا کا اکائونٹ آج بھی خالی ہوتا.میرے پاس گاڑی ہے مگر بابا آج بھی اسی پرانی بائیک پہ شدید گرمی میں روزہ کی حالت میں دریائے سندھ کے کنارے خانہ بدوشوں کو پولیو کے قطرے پلاتے نظر آتے ہیں..
زیر نظر تصویر میں
میری پہلی تقرری انہی کے بنیادی مرکز صحت پر ہی ہوئی اور ان کو میڈیکل آفیسر کی کرسی پہ بٹھا کر میں اور بابا خوشی کے آنسوئوں میں نڈھال ہیں…
جہاں اس ننھے پودے کی آبیاری جاری ہے وہاں خداوند کریم کا کلام کتنا سچا ہے
فبای الاء ربکما تکدبن
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر