ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم عجیب سی الجھن کا شکار ہو گئے جب ہماری بیٹی نے ہم سے وہ سوال پوچھا۔ پہلے تو سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ کیا جواب دیں؟ سمجھ آیا تو دل مچل اٹھا کہ کون کون؟ پھر یوں ہوا کہ دل بے تاب کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے ہمیں فہرست مرتب کرنے کی ضرورت پیش آ گئی۔
ارے یہ تو بتایا ہی نہیں کہ سوال کیا تھا؟ ہوا کچھ یوں کہ ہماری بیٹی کچھ ایسے واقعات کے بارے میں پڑھ رہی تھیں جب کوئی ماہر روحانیت کسی طریقے سے عدم میں قیام پذیر روحوں سے ہم کلام ہوئے۔ اب یہ تو ہمیں علم نہیں کہ کیا کہا گیا اور کیا سنا گیا مگر ہماری بیٹی نے ہمیں یہ پوچھ کر ضرور مخمصے میں ڈال دیا۔
“اگر آپ کسی روح سے بات کرنا چاہیں تو وہ کس کی ہو گی؟”
صاحب فہرست تو طویل تھی لیکن ہم نے سوچا کہ آج کل احباب ہم سے عورت نامہ کے حوالے سے کافی زچ نظر آتے ہیں سو کیوں نہ انہی سے بات کر لی جائے جو ڈنکے کی چوٹ پہ عورت کو کائنات کا بنیادی رنگ ٹھہرا گئے۔
عورت کو راندہ درگاہ سمجھنے والے معترضین ان کی طرف اپنی توپوں کا رخ نہیں کر سکے کہ ان کی فہم و فراست پہ کسی کو کوئی شک نہیں۔ مشرق سے لے کر مغرب تک چاہنے والے اور یقین کرنے والے موجود۔
سو اگر روح سے ہم کلام ہونے کا موقع ملے تو ہم چھوٹتے ہی کہیں گے،
“علامہ صاحب یہ جو آپ کہہ گئے ہیں نا وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ… ذرا اس کی وضاحت تو فرما دیجیے کہ وجود زن سے کیا بھایا آپ کو، گھٹاؤں جیسے گیسو یا آہوئے چشم، گلاب سے رخسار یا پنکھڑیوں سے لب، موتیوں سے دانت یا ہرنی جیسی چال۔
“ارے خاتون کیا تم نے اپنی ہم جنس کو اس قدر ارزاں سمجھ رکھا ہے کہ جس کے پاس لب ورخسار پہ نازاں ہونے کے سوا کچھ اور نہیں ؟
کیا تم بھول گئیں کہ تخلیق کے سوتے تمہاری ذات سے پھوٹتے ہیں؟ تم نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ زندگی کا منبع تمہاری ذات بنائی گئی ہے اور جس نے بنائی وہ کائنات کا تخلیق کار ہے۔ اس نے اپنے کمال کا پرتو تمہیں بنایا، جیسے وہ خلق کرتا ہے، اسی طرح حیات کی نمو کا ہنر تمہیں سونپا گیا ہے۔ تم اس کے بے شمار مظاہر کی ہلکی سی جھلک ہی تو ہو” اقبال کے لہجے سے شفقت جھلک رہی تھی۔
“لیکن علامہ صاحب، معاشرہ تو کچھ اور سمجھتا ہے۔ کہنا یہ ہے کہ بارآوری کا بیج تو کہیں اور سے آتا ہے سو عورت کی کیا حثیت؟ یعنی چہ پدی،چہ پدی کا شوربہ!” ہم نے مودبانہ اختلاف کیا۔
“مانتا ہوں برآوری کی طاقت کو لیکن بیج کیا کرے گا جب زمین ہی موجود نہ ہو۔ مرد کے پاس مادہ منویہ ہے، درست لیکن وجود میں آنے والا نطفہ جنم نہیں لے سکتا جب تک عورت اس کی آبیاری نہ کرے۔ عورت کا بطن محض بطن نہیں، ایک کائنات ہے۔ عورت کا رحم ایک عضو نہیں بلکہ روئے زمین پہ جنم لینے والے ہر انسان کی پہلی جائے پناہ اور ماہواری ہر ذی روح کی پہلی غذا۔ ماہواری کا خون ہی رگ رگ میں آب حیات بن کے دوڑتا ہے” اقبال بہت اچھے موڈ میں نظر آتے تھے۔
لیکن علامہ صاحب، ادب میں بھلا کون ان موضوعاتپہ بات کرتا ہے ؟ کہا یہ جاتا ہے کہ عورت سے جڑے مسائل چلمن کے پیچھے طے تو کیے جا سکتے ہیں لیکن مشاہیر ادب کی محفل میں ان کا کیا کام؟ عورت تو دل بہلانے کی چیز ہے سو شاعری عورت کے گیسو، رخسار، لب، اور جسم کے بغیر تو مکمل نہیں ہو سکتی لیکن اس سے آگے پر جلنے کا مقام آتا ہے۔ ماہر فن کے فہم کے مطابق عورت سے پھوٹتے زندگی کی تخلیق کے سوتے اس قابل ہی نہیں کہ ادب کے بہاؤ میں شامل ہو سکیں”
سنو خاتون، نمو کی اس طاقت سے انکار کرنے والا ادب جو عورت کے وجود کو سونپی گئی ہے، خود بنجر زمین کا ٹکڑا بن جاتا ہے۔ اگر ادب زندگی کے بہاؤ میں عورت کے اس کردار کے متعلق کھل کے اظہار نہیں کر سکتا، بات کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا، اپنی حد بندی پہ مصر رہتا ہے تو سن لو، ایسا ادب تخلیقی جوہر سے محروم ادب ہے۔ ایسی کتابی باتیں کرنے والا ادب جو کتابوں میں ہی رہ جاتا ہے، زندگی کے اس میلے تک نہیں پہنچ پاتا جہاں زندگی سانس لیتی ہے۔
عورت کے جسم کی تلخ حقیقت جب تک ادب کا موضوع نہیں بنے گی، بات آگے نہیں چل سکتی۔ جو ادیب یہ سمجھتا ہے کہ لب و رخسار، گیسوئے دراز اور جسمانی پیچ وخم تک ہی محدود رہ کر، سنگین مسائل سے پہلو تہی کر کے داستان میں رنگ بھرا جا سکتا ہے، کم فہمی کا شکار ہیں۔
ادب زندگی ہے اورزندگی ادب ہے۔ ادیب جب تک زندگی کی ان کہی، ان سنی نہیں کہے گا، زندگی کی بنیادی سچائی اور تلخ حقیقت کا نقاب اتار کر اسے معاشرے کے سامنے نہیں رکھے گا، اس کے الفاظ کی طاقت دلوں کے بند کواڑ نہیں کھول سکتی۔
یہ بات بھی سمجھ لو کہ جس زبان میں ان سماجی موضوعات پہ بات کرنے کی ممانعت ہو، جہاں ماہواری، پردہ بکارت، کنوارپن جیسے الفاظ کا استعمال ادیبوں کو اپنا قلم روکنے پہ مجبور کر دے، جہاں لغت میں موجود ان الفاظ کےاستعمال میں خوف آنے لگے، جہاں مخصوص اعضا کا ذکر شرم کی چھتری تلے چھپا دیا جائے، جہاں دوسری زبانوں میں اظہار پانے والے ان موضوعات کو تحقیر کی نظر سے دیکھا جائے، تو اظہار کی وسعت بے حد محدود ہو جاتی ہے۔ اس زبان کے ادیب کی نظر، خیال اور مشاہدہ نہ صرف نحیف رہتا ہے بلکہ نقاہت زدہ قلم کبھی بھی شاہکار تخلیق نہیں کر سکتا۔ سنگلاخ سرزمین پہ گلاب نہیں اگا کرتے!
میرا یہ پیغام سب تک پہنچا دو کہ عورت اکائی ہے اور کوئی بھی معاشرہ اور اس معاشرے میں لکھا جانے والا ادب اس وقت ثمر آور نہیں ہو سکتا جب تک اس کی بنت اور بنے گئے لفظ اس اکائی کے گرد نہ گھومتے ہوں۔ عورت کا دکھ سکھ، الم چین، کرب و آگہی، تنہائی، جسم و روح، مسائل و تکالیف جہالت کے پردے اٹھا کر زندگی کے سٹیج پر لے آنا ہی تو اصل ادب اور ادیب کا کام ہے۔ لوگوں کی ہچکچاہٹ، انا، جھوٹی شرم و حیا، اور مصنوعی اقدار و روایات کا نقاب چاک کرنے میں ہی تو ادیب کی حیات جاوداں ہے۔
دیکھو، منٹو نے میرےاس پیغام کو سمجھا اور کچھ ایسا بھی زبان میں لکھ دیا جسے لوگ دور سے دیکھ کر ناک پہ رومال رکھے رستہ بدل لیا کرتے تھے۔ عورت پہ گزرے اندھے اور اندھیرے شب وروز کا کرب زہر بن کر اس کی رگ رگ میں تو پھیل گیا مگر منٹو نے اپنے آپ کو امر کرلیا۔
معاشرہ اس کے لکھے گئے الفاظ اور موضوعات کو جو سماج کا پردہ چاک کرتے تھے، ادب ماننے سے انکاری تھا ۔ کچھ لوگ فحش نگار سمجھ کے اس کے سائے سے بدکتے تھے اور کچھ ادبی رسالے اس کی تحریر کو چھاپنے سے انکاری تھے۔ کچھ ساتھی ادیبوں کے لئے اس کا ذہن غلاظت کا ڈھیر تھا جو عورتوں کے جسم سے وابستہ مسائل اور بے کسی کا ذکر کسی شرم و حیا کے بغیر کرتا تھا۔
لیکن آج کیا تمام ادیب منٹو کے مقام کو رشک کی نظر سے نہیں دیکھتے؟
بس مجھے اور کچھ نہیں کہنا”
ہماری ملاقات کا وقت ختم ہو چکا تھا۔
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر