نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران خان صاحب جب سے وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوئے ہیں مسلسل یہ گلہ کرتے چلے ا ٓرہے ہیں کہ سیاست دانوں کا روپ دھارے ’’چور اور لٹیروں‘‘ پر مشتمل اپوزیشن جماعتیں انہیں قومی اسمبلی سے خطاب کا موقعہ نہیں دیتیں۔وہ تقریر کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو ان کے خلاف رکیک فقرے کسے جاتے ہیں۔اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے چند اراکین اسمبلی اپنی نشستوں سے اٹھ کر وزیر اعظم کے لئے مختص نشست کا نعرہ لگاتے ہوئے ’’گھیرائو‘ کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔
مخدوم شاہ محمود قریشی جیسے ’’اصلی نسلی وضع دار ‘‘ وزیر بھی جب ’’پیا‘‘ کو راضی رکھنے کی خواہش میں اپنی بردباری والی شہرت کو نظرانداز کرتے نظر آئیں تو وفاقی کابینہ کے دیگر وزراء ’’نرم‘‘ کیوں نظر آئیں۔وفاقی کابینہ کے ہر قابل ذکر رکن نے پیراور منگل کے روز قومی اسمبلی میں ہنگامہ آرائی بھڑکانے میں لہٰذابڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کیا۔مراد سعید البتہ اپنی نشست کے اوپر کھڑے ہوکر اپوزیشن بنچوں کی جانب بجٹ کی بھاری بھر کم دستاویزات میزائلوں کی صورت اچھالتے ہوئے سب وزراء پر چھا چھوگئے۔فواد چودھری کی مہارت ان کے ہوتے ہوئے اپنا جلوہ نہ دکھاپائی۔محترمہ شیریں مزاری بھی پنجابی محاورے والی ’’لسی‘‘ یعنی کمزور نظر آئیں۔ امین اللہ گنڈاپور کی دہشت پھیلانے والی ’’گج وج‘‘ اگرچہ اپنی جگہ برقرار رہی۔
شہباز شریف کو زچ کرنے کی خاطر وزراء کی اجتماعی بے تابی نے اسلام آباد سے قومی اسمبلی کے لئے پہلی بار منتخب ہوئے علی اعوان کی کاوشوں کو مناسب انداز میں اجاگر ہونے نہیں دیا۔سوشل میڈیا پر ان کی ’’خوش گفتاری‘‘ نے البتہ بہت رونق لگارکھی ہے۔
قومی اسمبلی کی کارروائی کے بارے میں لکھے اپنے اردو اور انگریزی کالموں میں گزشتہ دو دنوں سے اصرار کئے چلا جارہا تھا کہ اپوزیشن جماعتوں کو یہ ’’تڑی‘‘ لگاکر’’مہذب‘‘ انداز میں اپنانے کو مجبور نہیں کیا جاسکتا کہ اگر انہوں نے اپنا رویہ نہ بدلا تو شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری بھی قومی اسمبلی میں خطاب نہیں کر پائیں گے۔وزیر اعظم کے کسی ’’نابغے‘‘ مصاحب نے اپوزیشن جماعتوں کو لگام ڈالنے کے لئے ’’ضابطۂ اخلاق‘‘ کے نام سے ایک دستاویز بھی تیار کی۔ اپوزیشن جماعتوں کو حکم ملا کہ وہ مجوزہ ضابطہ پر کامل درآمد کی ’’تحریری‘‘ ضمانت دیں۔حکومت کے تجویز کردہ ’’ضابطہ اخلاق‘‘ کے بغور مطالعہ کے بعد میں یہ لکھنے کو مجبور ہوا کہ ایسی زبان میں لکھے ’’نیک چال چلن‘‘ والے وعدے تھانوں کے ایس ایچ اوز اپنے علاقے کے ’’دس نمبری‘‘بدمعاشوں سے طلب کرتے ہیں۔اپوزیشن جماعتیں حکومت کے تجویز کردہ ’’ضابطہ‘‘ پر عملدرآمد کی ’’تحریری ضمانت‘‘ دینے کو ہرگز تیار نہیں ہوں گی۔
منگل کی سہ پہر لہٰذا شہباز صاحب نے فیصلہ کیا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے وہ قومی اسمبلی میں اپنی تقریر ہر صورت پڑھیں گے۔قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتے ہی انہوں نے اپنے کانوں پر ہیڈ فون چڑھائے اور لکھی ہوئی طویل تقریر پڑھنا شروع ہوگئے۔ پریس گیلری میں بیٹھے مجھے اس کا ایک لفظ بھی سنائی نہیں دیا۔مختلف ٹی وی چینلوں پر ان کی تقریر مگر بآسانی براہ راست نشریات کی بدولت سنی جاسکتی تھی۔ان کی روانی روکنے کی خاطر سپیکر اسد قیصر نے دوبار طویل وقفوں کا اعلان بھی کیا۔یہ ترکیب بھی تاہم شہباز شریف کے دئیے پیغام کو نشر ہونے سے روک نہیں پائی۔بالآخر زچ ہوکر حکومتی بنچوں نے شہباز صاحب کی تقریر کے آخری مراحل میں ’’گھسن مکی‘‘ کا آغاز کردیا۔اس کے بعد جو ہوا اسے بیان کرنے کا میرے دل ناتواں کو حوصلہ نہیں۔
میرااصل دُکھ مگر یہ ہے کہ منگل کے روز سے قومی اسمبلی میں ’’فریقین‘‘کے مابین اوباش لوگوں (شاید’’غنڈے‘‘لکھنا مناسب ہوتا) کی طرح سربازار ہوئی ’’گھسن مکی‘‘ کا درحقیقت آغاز ہوا ہے۔یہ سلسلہ اب تھمے گا نہیں۔اس میں مزید شدت آئے گی۔
بشکریہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر