شمائلہ حسین
میرے جیسے بہت سے اور گداز دل رکھنے والے لوگ مووی کے دوران ایسا ماتم بپا کرتے ہیں کہ ساتھ والوں کا وہ مناظر دیکھنا بھی حرام ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ فلمیں، جن میں ولن دراصل ہیرو ہوتا ہے ان میں بھی ہیرو کی تمام تر الٹی سیدھی حرکات اس حد تک جسٹیفائیڈ ہوتی ہیں کہ ساری ہمدردیاں اس کے ساتھ ہونے کے علاوہ ہم خود کو اس کی جگہ رکھ کر اتنا ہی مجبور سمجھتے ہیں اور ظالم سماج کو گالیوں سے نواز رہے ہوتے ہیں۔
جب وہ کسی انتقامی جذبے کے تحت کسی کو تشدد کا نشانہ بنا رہا ہوتا ہے تو اندر سے کہیں آواز آتی ہے، اور مارو ۔۔۔ اور مارو!
جن لوگوں میں ہیرو پنتی زیادہ تھی وہ اپنے دوستوں، بہن بھائی اور ہم جماعتوں میں اس کا اظہار کرتے پائے جاتے تھے۔ کسی کو اداکاری کا بہت شوق ہوا اور گھر والوں نے روک ٹوک نہ کی تو مقامی اسٹیج ڈراموں تک پہنچ گئے۔ کسی کی قسمت نے بہت یاوری کی تو ٹیلی وژن کی سکرین تک رسائی ہو گئی۔ کوئی زیادہ قسمت کا دھنی نکلا تو فلم کا ہیرو بن گیا۔ لیکن ان لوگوں کے نام ہم آج بھی انگلیوں پر گن سکتے ہیں۔
کوئی فلمی ستارہ ہونا بالکل ایسا تھا، جیسا آسمان پر موجود کوئی ستارہ، جسے دور سے صرف دیکھا جا سکتا ہے نہ اس کے قریب جانے کا کوئی راستہ ہو سکتا ہے اور نہ اس کی جگہ پہنچا جا سکتا ہے۔
ہمارے لیے فلموں اور ڈراموں کے اداکار کسی اور دنیا کی مخلوق ہوا کرتے تھے۔ انہیں اس حد تک مثالی سمجھا جاتا کہ وہ نہ تو اپنے گھر کے کام کرتے ہوں گے، نہ ہماری طرح کے عام گھروں میں رہتے ہوں گے، نہ ہمارے جیسا کھانا کھاتے ہوں گے اور نہ ہی کسی عام بازار سے خریداری کرتے ہوں گے۔ ان کے مکالمے، ان کا لباس، ان کی ادائیں کم وبیش ہر دیکھنے والے بچے اور بڑے کو یاد ہوتے۔
خود میں کسی ڈرامے، کمرشل یا فلم کی ہیروئن کے اثر سے کئی کئی دن نہ نکلتی اور اب سوچتی ہوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہر دور میں یہ چیزیں بچوں اور لڑکپن سے گزرتے نوجوانوں پر ایسے ہی اثر انداز ہوتی ہیں، جیسے ہم پر ہوتی تھیں۔
ہمارے لڑکپن میں ایسے ہر شوق کو دل میں دبا کر بس اپنی سہیلیوں کے درمیان یا شادی بیاہ کی تقریبات میں لش پش کر کے پورا کر لیا جاتا تھا۔ کوئی بہت ہمت والا یا ہمت والی ہوئی تو سارے خاندان اور محلے کے کوسنے سن کر بھی فیشن ایبل ہونے کا شوق پورا کر لیتے۔ لڑکے ہیں تو گلی محلے میں رعب دبدبہ جما لیا، لڑکی ہوئی تو شیشے کی حد تک یا چھت کی منڈیر تک گلیمر سجا لیا اور بس۔
مزے تو ہیں اب والے بچے بچیوں کے، اِدھر گلیمرس لگنا چاہا اُدھر سوشل میڈیا ایپس کا ایک جہان حاضر ہے۔ منہ پھاڑ سر جھاڑ بیٹھے ہیں ایک فلٹر لگایا یہ بہترین میک اپ، پیارے سے بال اور ہر طرح کی خامی سے پاک جلد، پھینی اور موٹی ناک ستواں، سانولا رنگ گورا اور پلکیں ایسے کہ ناوک نیم کش کا گماں ہو۔ ڈب میش، لپ سنگ یا ذاتی مکالمات کی ویڈیو بناؤ اور ڈال دو سوشل میڈیا پر۔
نہ کسی آڈیشن کا مسئلہ، نہ کسی پروڈیوسر ڈائریکٹر کی منتوں کی ضرورت، آپ ٹر ٹر بول سکتے ہیں تو فیصل آباد کی لڑکی عمارہ کی طرح دنوں میں شہرت پا لیں۔ کسی نے ازراہ تفنن ویڈیو بنا ڈالی اور کہہ دیا کہ ہماری پارٹی ہو رہی ہے تو ایسے وائرل ہوتی ہے کہ مستند فنکار، جنہیں ہم فلمی ستارے کہتے اور جی جان سے مانتے ہیں وہ بھی اس ٹرینڈ کا حصہ بن جاتے ہیں اور دنانیر دنوں میں بین الاقوامی شہرت پا لیتی ہے۔ ارشد چائے والا ہو یا احمد جیسا کیوٹ بچہ، ان ایپس کے ذریعے کوئی بھی کہیں بھی اپنے فنکار ہونے اور لگنے کا شوق پورا کر سکتا ہے۔
اس میں آپ کی عمر، کلاس، حلیہ اور امارت کا بھی کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ شوبز کی طرح نہ کسی آڈیشن کا جھنجھٹ نہ کسی کی سفارش یا ایک چانس ملنے کا انتظار۔ اس میڈیا پر وائرل ہونے کے لیے آپ کے پاس ایک عدد سمارٹ فون اور معاون اپلیکیشنز استعمال کرنے کی آگاہی ضروری ہے۔ یہ آگاہی بھی اس قدر آسان فہم ہے کہ کسی بھی عمر کا شخص بہ آسانی سمجھ سکتا ہے۔
کچھ مدت پہلے تک یہ میڈیا صرف شوق پورا کرنے کی حد تک استعمال ہو رہا تھا لیکن اب اس کے ذریعے روپے کمانا اور بھی دلچسپ محرک بنتا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر شہرت پانے والوں کو سوشل میڈیا سٹار کہہ کر پکارا جاتا ہے اور ان کا ٹشن بھی کسی سیلیبرٹی سے کم نہیں ہوتا۔ اب روایتی میڈیا کی عشروں سے قائم کردہ اجارہ اداری ٹوٹ رہی ہے اور مستقبل میں اسے مزید دھچکا لگے گا۔
کیا آپ، میں یا کوئی بھی دوسرا شخص عزت، شہرت اور دولت کو ناپسند کرتا ہے؟ یقیناً نہیں ! اپنے تمام منفی اثرات اور بدنامی کے باوجود یہ میڈیا جس تیزی سے ہماری روزمرہ زندگی میں اپنی جگہ بنا چکا ہے، اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ اس پر بین الاقوامی سروے کیے گئے اور اچھے اثرات کی فہرستیں مرتب کی گئی ہیں، جن میں سر فہرست خود اعتمادی میں اضافے کو شمار کیا جاتا ہے۔
آپ لوگوں کے سامنے بات کرنے سے گھبراتے ہیں، دروں بیں ہیں یا کم گو ہیں لیکن آپ اپنی بات، اپنی صلاحیت یا کوئی کارنامہ لوگوں تک پہنچانا چاہتے ہیں تو تنہائی میں ریکارڈ کیا گیا کوئی ایک پیغام کبھی بھی کہیں بھی پوسٹ کر سکتے ہیں۔ خود نمائی کے جذبے کی تسکین ہونے سے جو اعتماد شخصیت میں پیدا ہوتا ہے، اسے مہمیز کرنے کے لیے ہماری عمریں گزر جاتی رہی ہیں۔
کچھ لوگ تو اب ٹک ٹاک اسٹارز کو مستقبل کے صحافی قرار دیتے ہیں کیوں کہ یہ اپنی نسل کے نوجوانوں کو بہتر انداز میں اپنا پیغام پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مختصر یہ کہ اب آپ بھی کسی ڈرامے، مووی یا بڑی سکرین کے بغیر ہیرو اور ہیروئن بن سکتے ہیں۔ بس خیال رہے کہ یہ شوق کسی فوبیا کی شکل اختیار نہ کر لے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر