نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نواز شریف اور شہباز شریف سے میری دیگر سیاسی رہ نمائوں کے مقابلے میں بہت کم ملاقاتیں ہوئی ہیں۔بڑے بھائی سے جو ملاقاتیں ہوئیں مجھے یہ طے کرنے میں مددگار ہوئیں کہ موصوف سادہ نظر آتے ہیں مگر ہیں نہیں۔ اپنے خاموش مہذب اور دھیمے انداز کی بدولت درحقیقت دوسروں کو اپنے دل میں جھانکنے کا موقع ہی نہیں دیتے۔ شہباز صاحب کی ان کے مقابلے میں فقط ’’آنیاں جانیاں‘‘ ہیں۔’’میاں مدن‘‘ والی بات نہیں۔پیر کی سہ پہر شہباز صاحب نے ان کے بارے میں میری سوچ کو درست ثابت کردیا۔
جولائی 2018کے انتخاب کے طفیل ہمارے ہاں مگر جو قومی اسمبلی وجود میں آئی وہ اپنی سرشت میں کئی اعتبار سے ’’نرالی‘‘ ہے۔پارلیمانی روایات کو کسی خاطر میں نہیں لاتی۔بسااوقات اس کی کارروائی دیکھتے ہوئے مجھے اپنے اندرون لاہور کا وہ محلہ یاد آجاتا ہے جہاں کی خواتین بہت لڑاکوں مشہور تھیں۔ ان کے مرد صبح کے ناشتے کے بعد گھروں سے نکل جاتے تو چوباروں کی کھڑکھیوں میں نمودار ہوکر اپنی مخالف خواتین کو لفظی جنگ کے لئے للکارنا شروع ہوجاتیں۔ فریقین کے مابین اس ’’جنگ‘‘ کے دوران جن استعاروں اور تلمیحات کا استعمال ہوتا وہ ہجو لکھنے کے استاد مانے شعرا بھی اپنے تصور میں نہیں لاسکتے۔
پارلیمانی رپورٹروں کو ’’نرم‘‘ دکھائی دینے والا ہنگامہ بھی لیکن عمران حکومت کے سینئر ترین اور سنجیدہ تصور ہوئے وزراء بھی برداشت نہیں کرپائے ہیں۔انہوں نے ’’ادلے کا بدلہ ‘‘کا ارادہ باندھ لیا۔پیر کی سہ پہر شہباز شریف صاحب نے اپنی تقریر شروع کی تو اس کے ابتدائی تین فقرے ختم ہونے سے قبل ہی ملتان کے ذاتی طورپر ’’خوش گفتار‘‘ مشہور ہوئے مخدوم شاہ محمود قریشی صاحب نے سپیکر اسد قیصر سے پوائنٹ آف آرڈر پر بولنے کی اجازت طلب کرلی۔ اسد قیصر صاحب پر ’’غیر جانب داری‘ کی تہمت لگانا ممکن نہیں۔ شاہ محمود قریشی صاحب کو لیکن پیر کی سہ پہر انہوں نے ’’پارلیمانی روایات‘‘ یاد دلانے کا ڈرامہ رچایا۔وزیر خارجہ ان کی استدعا کو سنی ان سنی کرتے رہے۔دریں اثناء ڈیرہ اسماعیل خان کے امین گنڈا پور بھی اپنی نشست پر کھڑے ہوگئے۔ انہیں ’’شیر‘ ‘بنانے کے لئے حکمران جماعت کی پچھلی نشستوں سے شہباز شریف کو زچ کرنے کے لئے ’’چور چور‘‘کے نعرے بلند ہونا شروع ہوگئے۔
میری اطلاع کے مطابق شہباز صاحب نے اپنی تقریرتیار کرنے میں کامل دو دن لگائے تھے۔ محترمہ عائشہ غوث پاشا جیسی ماہر معیشت نے بجٹ تجاویز کی بھاری بھر کم دستاویزات کو ان کی سہولت کے لئے کھنگالا۔مفتاع اسماعیل نے کاروباری شخص کی نگاہ سے ان کا جائزہ لیا۔شاہد خاقان عباسی،خرم دستگیر اور احسن اقبال نے شہباز صاحب کی ممکنہ تقریر کے لئے سیاسی تڑکے فراہم کئے۔
یہ بات یقینی تھی کہ ہمارے 24/7چینلوں کی اکثریت قائد حزب اختلاف کی طولانی تقریر کو کسی کانٹ چھانٹ کے بغیر لائیو دکھاتی۔ سہ پہر چار بجے سے شام سات بجے کے درمیان ٹی وی چینلوں کے پاس ویسے بھی ناظرین کی توجہ حاصل کرنے کے لئے کوئی ’’سودا ‘‘نہیں ہوتا۔شہباز صاحب کی بجٹ کی بابت ہوئی تقریرپر ہی لہٰذا ٹکے رہتے۔پریس گیلری یا ایوان میں موجود کوئی شخص قائد حزب اختلاف کی تقریر کا ایک لفظ بھی سن پاتا یا نہیں مگر یہ تقریر ٹی وی چینلوں کی بدولت پاکستان کے لاکھوں نہ سہی ہزاروں گھروں تک براہ راست پہنچ جاتی ۔شہباز صاحب اس حقیقت کا اندازہ لگانے میں قطعاََناکام رہے۔
سپیکر اسد قیصر شہباز صاحب کے مقابلے میں پہلی بار قومی اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے ہیں۔پیر کے روز مگر وہ قائد حزب اختلاف کے مقابلے میں کہیں زیادہ چالاک ثابت ہوئے۔کمال ہوشیاری سے اعلان کردیا کہ ایوان میں پرسکون ماحول کو یقینی بنانے کے لئے وہ قومی اسمبلی کی کارروائی کو 20منٹ کے لئے معطل کررہے ہیں۔ وقفے کے دوران حکومت اور اپوزیشن کے نمائندے ان کے دفتر میںآئیں۔وہاں باہمی گفت وشنیدکے ذریعے طے کیا جائے کہ بجٹ پر ہوئی عام بحث کے دوران قومی اسمبلی کا ماحول کیسے’’خوش گوار وباوقار‘‘رکھا جائے۔شہباز شریف اور ان کے ساتھی نجانے کیوں سپیکر کی جانب سے برتی ’’باریک واردات‘‘کے جھانسے میں آگئے۔
جو ’’وقفہ‘‘ محض 20منٹ کے لئے تھا تین سے زیادہ گھنٹوں تک جاری رہا۔سپیکر کے دفتر میں جو اجلاس ہوا وہاں حکومتی نمائندے مصر رہے کہ شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کو بجٹ کے حوالے سے ہوئی تقاریر صرف اسی صورت پرسکون ماحول میں مکمل کرنے کی سہولت فراہم کی جائے گی اگر حزب اختلاف کی جماعتیں یہ ’’تحریری وعدہ‘‘ کریں کہ وہ وزیر اعظم اور دیگر وزراء کی تقاریر کو بھی احترام سے سنا کریں گی۔
’’عزت واحترام‘‘ کا تقاضہ صرف وزیراعظم صاحب کی ذ ات کی بابت ہی نہیں ہوا۔پاکستان پیپلز پارٹی سے یہ یقین دہانی بھی طلب کی جاتی رہی ہے کہ اس جماعت کے قادرپٹیل تحریک انصاف کے بلند آہنگ اور جواں سال وزیر جناب مراد سعید کی ذات پر’’غیر مہذب فقرے‘‘ نہیں اچھالا کریں گے۔میرا خیا ل ہے کہ اپوزیشن جماعتیں تحریری طورپر مطلوبہ ’’نیک چال چلن‘‘ کا وعدہ فراہم نہیں کرسکتیں۔نیک چال چلن کے جو وعدے عمران حکومت کے نمائندے قومی اسمبلی کے اپوزیشن اراکین سے جس انداز میں طلب کررہے ہیں وہ عموماََ لاہور کے تھانوں کے ایس ایچ او اپنے علاقے کے ’’دس نمبری‘ ‘بدمعاشوں سے طلب کیا کرتے ہیں۔
بطور پارلیمانی رپورٹرمیری جانب سے یک سطری پیغام یہ ہے کہ تمام تر تیاری کے باوجود شہباز صاحب بطور قائد حزب اختلاف پیر کے روز شوکت ترین کے پیش کردہ بجٹ کے بارے میں وہ تقریر نہ کر پائے جس کا ہم سب کو شدت سے انتظار تھا۔سیدھے سادے ’’دیہاتی‘‘ نظر آتے اسد قیصر لاہور کے ’’شہباز‘‘ سے کہیں زیادہ ہوشیار اور چالاک ثابت ہوئے۔
بشکریہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر