نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ جمعہ کے روز شوکت فیاض ترین صاحب نے تحریری صورت میں میسر اپنی بجٹ تقریر کے متن کا میرے ’’جٹکے‘‘حساب سے کم ازکم 20فی صد سے زیادہ حصہ پڑھا ہی نہیں۔جو تقریر انہوں نے پڑھی اس میں چند ایسے نئے ٹیکسوں کا اعلان بھی کردیا گیا جنہیں کابینہ نے نامنظورکردیا تھا۔انٹرنیٹ کے استعمال پر تجویز کردہ ٹیکس اس ضمن میں اہم ترین تھا۔ وزیر خزانہ کی تقریر کے دوران اس کا اعلان ہوا تو تحریک انصاف کے کئی متوالے ہکا بکا رہ گئے۔
قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کرنے کے ایک دن بعد روایتی طورپر وزیر خزانہ ایک پرہجوم کانفرنس میں اپنے پیش کردہ بجٹ کے کلیدی خدوخال وضاحت سے بیان کرتے ہیں۔ ترین صاحب نے اس دوران انٹرنیٹ پر لگے ٹیکس کو ’’غلطی‘‘ ٹھہراکر اسے نظرانداز کرنے کی درخواست کی۔ان کی پڑھی تقریر میں ’’غلطی‘‘ مگر ایک نہیں بے شمار تھیں۔ ان کی نشان دہی کے لئے مگر لازمی ہے کہ شوکت فیاض ترین صاحب نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکر جو تقریر کی ہے اس کی آڈیو ریکارڈنگ حاصل کی جائے۔ قومی اسمبلی کا سٹاف اس ریکارڈنگ کو تحریری صورت میں قلم بند بھی کرتا ہے۔ اس کا حصول بطور پارلیمانی رپورٹر میرا حق ہے۔ میں اسے بآسانی حاصل کرسکتا ہوں۔
’’غلطیوں‘‘ کی نشان دہی کے لئے مگر اس کے بعد مجھے شوکت ترین صاحب کی تحریری صورت میں میسر تقریر کا قومی اسمبلی میں ہوئی تقریر کی آڈیو ریکارڈنگ سے موازنہ کرنا ہوگا۔ اس عمل سے گزرنے کے لئے کم ازکم ڈیڑھ گھنٹے کی بھرپور توجہ درکار ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ ’’غیر صحافی‘‘ ہوتے ہوئے میں یہ مشقت کیوں برداشت کروں۔سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی چسکہ بھری ویڈیوز سے اپنا جی کیوں نہ بہلائوں۔
فرض کیا نام نہاد پیشہ وارانہ ذمہ داری کی وجہ سے ابھرے احساس جرم سے مجبور ہوکر میں نے قومی اسمبلی سے شوکت ترین صاحب کی جمعہ کے روز ایوان میں ہوئی تقریر کی ریکارڈنگ حاصل کرلی۔ اس کے بعد نہایت توجہ سے اس کا تقابل تحریری صورت میں میسر تقریر سے کربھی لیاتو’’غلطیوں‘‘ کی تعداد اور حقیقت بیان کرنے والے کالم کو کتنے Likesاور Shareملیں گے۔ میری دانست میں صفر سے زیادہ نہیں۔خواہ مخواہ کی مشقت سے لہٰذا کیا حاصل۔یہ سوچتے ہوئے سکھ چین محسوس کروں کہ پاکستان مملکتِ خداداد ہے پیارے۔ یہاں سب چلتا ہے۔
ویسے بھی وزیر خزانہ کی جانب سے قومی اسمبلی میں ہوئی تقریر کے دوران جو غلطیاں سرزد ہوئیں ان کی نشاندہی بنیادی طورپر ان افراد کی ذمہ دار ی ہے جو ’’ہمارے نمائندے‘‘ کہلاتے ہیں۔ان میں سے 140کے قریب اپوزیشن بنچوں پر براجمان ہیں۔مسلم لیگ (نون) کی اگلی صفوں پر شاہد خاقان عباسی،خرم دستگیر اور احسن اقبال جیسے افراد بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ پاکستان ہی نہیں دنیا کے اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں کے طالب علم رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی نشستوں پر سید نوید قمر بھی موجود ہیں۔کئی بار ہمارے وزیر خزانہ رہے۔ اعلیٰ تعلیم کے دوران امریکہ میں شاہد خاقان عباسی کے ساتھ بھی کئی برس گزارے ہیں۔
جس مشقت کا میں غیر صحافی متمنی ہوں وہ ان کی بطور رکن قومی اسمبلی اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے ہوئے اخلاقی ذمہ داری ہے۔ ان کے پاس فرصت کے لمحات میسر نہ ہوں تو کسی ’’دو ٹکے کے رپورٹر‘‘ کو شوکت ترین کی تحریری تقریر کا پڑھی تقریر سے موازنہ کا ’’ٹھیکہ‘‘ دے سکتے ہیں۔ یوں میرے کسی غریب صحافی کا بھلا بھی ہوجائے گا۔ وہ دو گھنٹوں کی مشقت سے کمائی رقم سے اس سیزن کے تازہ پھل لے کر اپنے بچوں کو تھوڑی دیر کو خوش کرسکتا ہے۔
میری اطلاع کے مطابق ابھی تک اپوزیشن کی کسی جماعت نے اس پہلو کی جانب توجہ ہی نہیں دی ہے جس کو بیان کرنے کے لئے مجھے یہ کالم گھسیٹنا پڑا ہے۔ میرے اور آپ جیسے بے اختیار شہریوں کی طرح ’’ہمارے نمائندے‘‘ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ ہماری پارلیمان کی اصل اوقات کیا ہے۔ یہ کوئی ’’ادارہ‘‘ نہیں بلکہ ’’شوشا‘‘ والا تماشہ ہے جس کا بنیادی مقصد دنیا کو یہ باور کروانا ہے کہ پاکستان ایک ’’اسلامیہ جمہوریہ‘‘ ہے جہاں عوام کی منتخب کردہ پارلیمان ہی ’’سب پر بالادست ہے۔‘‘
بشکریہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر