ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ موبائل کالز ، ڈیٹا اور ایس ایم ایس پر ٹیکس واپس لے لیا گیا ہے۔ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف پروگرام پر کاربند ہے۔ ستمبر تک معاملات طے ہو جائیں گے۔ وفاقی بجٹ پر تبصروں کا سلسلہ جاری ہے۔ حکومتی حلقوں کی طرف سے اسے بہترین بجٹ قرار دیا گیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس بجٹ سے عام آدمی کو ریلیف نہیں ملا اور معاشی ترقی کیلئے اقدامات نظر نہیں آئے۔ معاشی ترقی کیلئے برآمدات میں اضافے اور صنعتی ترقی کی فضاء ضروری ہوتی ہے، مگر بجٹ میں اقدامات نظر نہیں آئے۔ جب تک زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ نہیں ہو گا کرنسی کو استحکام نہیں مل سکتا اور نہ ہی قرضوں کا بوجھ کم ہو سکتا ہے۔
زر مبادلہ کے ذخائر میں تارکین وطن کی طرف سے بھیجی گئی رقوم اہم کردار ادا کرتی ہیں مگر صورتحال یہ ہے کہ کورونا کے علاوہ خارجی پالیسیوں کے تحت بیرون ملک کام کرنے والے لاکھوں لوگ واپس آچکے ہیں جو کہ تشویشناک امر ہے۔
وزیر خزانہ کی طرف سے موبائل کال پر ٹیکس لینے کا فیصلہ بہتر ہے مگر اس پر عملدرآمد کرانا ہو گا کہ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ جیسے کمان سے نکلا تیر واپس نہیں آتا اسی طرح قیمتوں میں ہونیوالا اضافہ بھی کبھی واپس نہیں آیا۔ موبائل کمپنیوں کی لوٹ مار ایک الگ گورکھ دھندہ ہے جس پر کبھی توجہ نہیں دی گئی۔ آخر کیا وجوہات ہیں کہ موبائل کمپنیاں پاکستان جیسے غریب ملک سے بھی کھربوں کما رہی ہیں اور پاکستان کا غریب غریب تر اور ملٹی نیشنل کمپنیاں امیر سے امیر تر ہوتی جا رہی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ موبائل کمپنیاں منافع کے علاوہ ہیر پھیر اور کرپشن کے ذریعے ہر سال اربوں روپیہ صارفین کی جیب سے نکال لیتی ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر مولانا سراج الحق کی طرف سے موجودہ بجٹ کو آئی ایم ایف کا بجٹ قرار دیا گیاہے کہ اس میں تعلیم اور صحت کیلئے محض تین فیصد رقم رکھی گئی ہے ۔ آئی ایم ایف تو غریبوں کیلئے خوف کی ایک علامت بن چکا ہے ۔ (ق) لیگ کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم چودھری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ شوکت ترین کا عمدہ بجٹ ہے اور اسے اسمبلی سے منظور کرا لیا جائے گا۔
یہ ٹھیک ہے کہ حکومت کے جہانگیر ترین گروپ سے تعلقات بہتر ہوچکے ہیں ممکن ہے اسمبلی سے منظوری میں مشکل پیش نہ آئے مگر ایک آئینی اور قانونی مسئلہ بھی درپیش ہے کہ آئین کے مطابق این ایف سی ایوارڈ کی تقسیم سے پہلے بجٹ اسمبلی میں پیش نہیں کیا جا سکتا چونکہ صوبوں کو ابھی تک این ایف سی ایوارڈ کی رقم تقسیم نہیں ہوئی اسی بناء پر رکاوٹ پیش آسکتی ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے وفاقی بجٹ این ایف سی ایوارڈ سے مشروط ہو چکا ہے۔ این ایف سی ایوارڈ وفاق کی طرف سے ہوتا ہے۔
اس میں ہماری تجویز یہ ہے کہ صوبے بھی این ایف سی ایوارڈ کا اجرا کریں اور ایوارڈ کی رقم ہر صوبہ اپنے اپنے اضلاع میں برابر تقسیم کرے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں۔ مشرف، زرداری اور نوازشریف کے ادوار بد ترین تھے کہ ڈیڑھ کروڑ نوجوان بیروزگار تھے اب یہ تعداد 3 کروڑ ہو چکی ہے۔ پی آئی اے ریلوے اور سٹیل مل کو ٹھیک نہیں کیا گیا۔ موجودہ وفاقی بجٹ زمینی حقائق اور مستقبل کی ضروریات کا سامنے رکھ کر نہیں بنایا گیا۔ جی ڈی پی کی صورتحال اب بھی ابتر ہے۔ زراعت پہلے ہی تباہ تھی اس دور میں کاشتکار کو تباہی کے دہانے تک پہنچایا گیا ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی کیلئے اداروں کا کردار اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
افسوس کہ اس بجٹ میں کوئی نیا ادارہ وجود میں نہیں لایا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بہت سے ادبی، ثقافتی اور معاشی ادارے وجود میں لائے گئے تھے۔ نیا ادارہ تو کیا اُن کی حالت بھی بہتر نہیں ہو سکی۔ حقیقت یہ ہے کہ کورونا سے بڑھ کر عذاب غلط پالیسیاں ہیں۔ حکومت کے تین سال پورے ہونے کو ہیں۔ دو سالوں میں ان کو عوام دوست پالیسیاں بنانا ہوں گی۔وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے وفاقی بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وسیب کیلئے بجٹ میں مختص کی گئی رقم وسیب پر ہی خرچ ہو گی۔
وزیر خارجہ کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ وفاقی بجٹ میں وسیب کیلئے الگ سے کوئی رقم مختص نہیں ہوئی۔ آج صوبائی بجٹ آرہا ہے دیکھتے ہیں اس میں کیا ہوتا ہے لیکن میں یہ بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ بجٹ کیخلاف وسیب کے لوگ سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں تو اس کی کوئی تو وجہ ہو گی۔ اس موقع پر پارٹی صدر ملک اللہ نواز وینس نے کہا کہ اس سے بڑھ کر وسیب سے سوتیلی ماں کا سلوک کیا ہو سکتا ہے کہ تین صوبوں مختلف پسماندہ علاقوں کو کھربوں کا بجٹ دیا گیا جبکہ سرائیکی وسیب کو پسماندہ علاقہ ہی تسلیم نہیں کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب تک وسیب کو وفاقی و صوبائی بجٹ سے آبادی کے مطابق برابر حصہ نہیں ملے گا ہمارا احتجاج جاری رہے گا۔ گزشتہ روز (12 جون) کو پوری دنیا میں چائلڈ لیبر ڈے منایا گیا۔ وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ حکومت چائلڈ لیبر کے خاتمے کیلئے اقدامات کر رہی ہے اور وزیر اعلیٰ نے معاشی حوالے سے معاشرتی نا ہمواری کے خاتمے کیلئے اقدامات کا حکم دیا ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ چائلڈ لیبر کا تعلق ایک حوالے سے قومی بجٹ اور معاشی ترقی کیساتھ جڑا ہوا ہے۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں چائلڈ لیبر بہت حد تک کم ہو چکی ہے جبکہ ہمارے ہاں بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ پاکستان کی معاشی ابتری ہے۔ جھوک سرائیکی میں ہونیوالی فکری نشست میں پروفیسر ڈاکٹر مقبول حسن گیلانی نے درست بات کی کہ پوری دنیا میں یہ دن بچوں کے حقوق کیلئے منایا جاتا ہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ ان کو ذہنی و جسمانی نشوونما کے برابر مواقع ملیں مگر ہمارے ہاں نشوونما کے بجائے بچوں سے ذہنی و جسمانی مشقت لی جاتی ہے۔ قانونی طور پر بچوں سے مزدوری اور مشقت لینے پر پابندی ہے مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ گھروں میں بچوں کو ملازم رکھ کر جسمانی مشقت کے کام لیے جاتے ہیں اور پوچے مروائے جاتے ہیں۔ دکانوں، ورکشاپوں اور ہوٹلوں پر بچوں سے وہ مشقت بھی لی جاتی ہے جو ان کی عمر کی استطاعت سے مطابقت نہیں رکھتی۔
یہ بھی پڑھیں:
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر