نومبر 17, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ریت کے ٹیلوں میں سکول جاتے بچوں کا مقدر||احمد اعجاز

اُس سمے یوں محسوس پڑتا تھا کہ سورج کا تھال ہمارے پگڑوں پر آن پڑا ہے۔ہم نے نہر کے اُ س پار کی دُنیا کو دیکھنے کی سعی کی ،مگر ہماری آنکھوں کی بینائی نے ساتھ نہ دیا۔نہر کے اُس پار کیا تھا؟
احمد اعجاز 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمیںبتایا گیا تھا کہ اس صحرائی سفر میں چند ایک چھوٹے بڑے ریت کے ٹیلے آئیں گے، پھر میدانی علاقہ شروع ہوجائے گا،جس میں جھاڑیاں اور صحرائی پودے و پیڑ ہوں گے،پھر ٹاہلیوں کا جنگل آئے گا،بلند و بالا ٹاہلی کی چوٹیوں پر فاختائیں ہوں گی،جو پیار کا دانہ چگتی ہیں اور اَمن کا گیت گاتی ہیں،آگ برساتا سورج ٹاہلی کے گھنے جنگل کے سینے پر اٹک کررہ جائے گا،ہر سُو نرم اور گہرے سائے ہوں گے،یہ جنگل ختم ہوگا تو کشادہ نہر آئے گی ،نہر کا پانی ٹھنڈا اور صاف ہوگا،نہر کے اُس پار سرسبز کھیتوں کی دُنیا شروع ہوجائے گی۔ ہم منہ اندھیرے نکلے تھے،اُس وقت ریت ٹھنڈی تھی،ہم تعداد میں کتنے تھے ،صحیح معلوم تو نہیں ،لیکن ہم تھے ضرور۔ہم سورج اُبھرنے تک کچھ سفر کرچکے تھے،جوں جوں سورج ہمارے سروں پر آتا جارہاتھا،گرمی کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔
ہمارے سروں پر پگڑ تھے،گردن اورمنہ کو بھی ڈھانپ رکھا تھا۔جب سورج ہمارے سروں کے عین اُوپر پہنچا تو ہم چند ایک ٹیلے پارکرچکے تھے۔ٹیلوں پر چڑھنے کی تکلیف اور اُترنے کی تکلیف کا احساس مختلف ہوتا، چڑھتے وقت سینے پر زور پڑتا اور اُترتے وقت پیروں میں پہنی جوتیوں کے پچھلے حصے سے ریت اُوپر پگڑپر آپڑتی ،وہاں سے کھسک کر چند ایک ذرے گردن میں چلے جاتے۔وہ پھریوں چبھتے ہیں جیسے کانچ کے ٹکڑے ہوں۔ہوا گرم اورتیز ،گرم ایسی کہ تنور کے شعلوں جیسی ، آنکھوں پر پڑتی تو آنکھوں کے سامنے کے منظر دھندلاجاتے اور بینائی کمزور پڑجاتی۔ہم وقفے وقفے سے اپنے ہاتھ کمر پر لے جاتے اور قمیص کو پکڑکر ہلاتے ،قمیص گیلی ہوکر کمر سے چپک چکی ہوتی ،پسینہ بدن کو ٹھنڈا کرنے کا جتن کرتا ،مگر گرم ہوا پسینے کا جتن ضائع کردیتی۔ہمارے جوتوں میں ریت داخل ہوکر ہمارے پائوں زخمی کررہی تھی ،یہ ذرے پسینے سے ہم آہنگ ہو کر چبھ رہے تھے۔ہمارے پاس گھڑے تھے ،جن کا پانی ختم ہونے کو تھا ،جو بچ گیا تھا ،وہ اُبل ساگیا تھا۔
ہم آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر دُور دیکھنے کی کوشش کرتے کہ نظر ٹاہلیوں کے جنگل پر جا پڑے ،مگر ہماروں آنکھوں پر سراب چڑھ آتے۔ عجیب سفر تھا، موہوم اُمید وں سے بندھا ہوا، شک کی دبیز تہوں سے لپٹا ہوا۔تاہم مسلسل کچھ دِنوں کی لُو سے یہ ہواتھا کہ صحرائی زہریلے کیڑے مرکھپ گئے تھے،چھوٹے موٹے سانپ بھی تاب نہ لاسکے تھے،جو بچ گئے تھے ،وہ کہیں جھاڑیوں کے نیچے قدرے ٹھنڈی اور نرم ریت کے اندر دھنس چکے تھے۔سورج تھا کہ سروں پر آکر رُک سا گیا تھا،ٹلنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا،ہماری زبانیںاور بدن نہر کے ٹھنڈی پانی کو ترس گئے تھے،نیز گھنی چھائوں میں جلد ازجلد پہنچنا ضروری ہوچکا تھا۔ہم ٹاہلی کے جنگل میں پہنچ کر کیا کریں گے؟
یہ منصوبے سفر میں ہمارے مدد گار تھے،سب سے پہلے اپنے جسموں کومہربان چھائوں کے سائے میں ٹھنڈاکریں گے۔سرسے پگڑیاںاُتاریں گے ،اُن کو نیچے بچھا کر لیٹ جائیں گے ،تھوڑی دیر سستانے اور پسینہ خشک ہونے کے بعد نہر کا رُخ کریں گے ،نہر کا ٹھنڈا پانی پئیں گے اور پھر نہر کو اپنا سارا وجود سونپ دیں گے ،لمبی ڈبکیاں لگائیں گے اور جب تھکاوٹ ختم ہوجائے گی اور تازگی کا احساس ہڈیوں کے گودے تک اُترجائے گا،نہر کے پار کی دُنیا ،جو ہمارے لیے سجائی گئی ہے ،کا حصہ بن جائیں گے اور کڑی دھوپ کا سفر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اپنے اختتام کو پہنچ جائے گا۔ہم ہمیشہ ہمیشہ کیلئے شاد ہو جائیں گے۔
ہمارے سروں پر آگ برساتا سورج کا بڑا ساتھال ابھی تک پڑا ہوا تھا کہ ریت کے ٹیلوں کا سفر میدانی علاقے میں سماتا چلا گیا۔یہاں کی زمین پر جڑیاں بوٹیاں ایسے دکھائی پڑتی تھیں ،جیسے آگ میں جھلس کررہ گئی ہوں۔جن پر ہمارے پائوں پڑتے وہ ٹوٹتی چلی جاتیں۔یوں محسوس ہوتا کہ مُدتوں سے اِن بوٹیوں پر بارش کے پانی کا چھڑکائو نہیں ہوا۔کہیں کہیں سرکنڈوں کے جھنڈ کے جھنڈ تھے،مگر مُرجھائے ہوئے ،تاہم ،ہم نے اُن کے سائے میں تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے بیٹھنے کی کوشش کی ،مگر یہ سائے مہربان نہیں تھے۔معلوم نہیں کتنا عرصہ چلنے کے بعد جب ہمارے ٹانگیں چلنے کی سکت کھونے لگیں ،ہماری آنکھوں نے ٹاہلیوں کے جنگل کو پالیا،مگر اُن کے قرب تک گویا مُدت لگی۔یہ کیا؟
زیادہ تر ٹاہلی کے پیڑ ٹنڈ منڈ ہوچکے تھے،شاخیں پتوں سے صاف ہو چکی تھیں۔کسی کسی پیڑپر ایک آدھ شاخ ہری تھی،عجیب جنگل تھا،ہڈیوں کے ڈھانچے جیسا۔ہم سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا،ہماری آنکھوں میں زندگی کی کوئی چمک نہ تھی۔اب ہمارا سہارا صرف نہر اور نہر کے اُس طرف کی دُنیا تھی۔ٹاہلی کا اُجاڑ جنگل ختم ہونے کا نام بھی نہیں لے رہا تھا۔آخرِ کار ہم نہر پر جاپہنچے ،مگر اُس کا پیٹ پانی سے یکسر خالی تھا۔اُس کے کناروں پر گھاس کا نام و نشان تک نہ تھا،کہیں کہیں مینڈکوں کے ڈھانچے پڑے تھے،تتلیوں کے بکھرے پر بھی دکھائی پڑتے تھے،نہر پانی کے لیے خود ترس رہی تھی۔ہم اُس کی پٹری پر کھڑے ہو کر سامنے دیکھنے لگے۔ہمارے دِل غم اور پریشانی سے بھرچکے تھے۔ ہماری ٹانگیں ،مزید ہمارا بوجھ سہارنے سے ناکام ہو چکی تھیں۔
اُس سمے یوں محسوس پڑتا تھا کہ سورج کا تھال ہمارے پگڑوں پر آن پڑا ہے۔ہم نے نہر کے اُ س پار کی دُنیا کو دیکھنے کی سعی کی ،مگر ہماری آنکھوں کی بینائی نے ساتھ نہ دیا۔نہر کے اُس پار کیا تھا؟سب کچھ شک کی دُھند میں لپٹا جا چکا تھا۔نہر کو عبور کرکے اُس پار کی دُنیا کو محسوس کرنے کی طاقت نہ رہی تھی،مزیدبراں ایک انجانا خوف اور اُمید کی شکست ،ایسا کرنے سے روک رہی تھی۔ ہم خشک نہر کے کنارے کھڑے کے کھڑے رہ گئے،ٹاہلی کے ڈھانچوں کے جنگل کی مانند۔

 

یہ بھی پڑھیے:

بندگلی میں دَم کیسے گھٹتا ہے؟۔۔۔احمد اعجاز

حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز

حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز

یہی خزاں کے دِن۔۔۔احمد اعجاز

احمد اعجاز کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author