ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گیلانی ہائوس ملتان میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ میری نظر میں میم اور شین سب ایک ہی ہیں۔ پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم کا بیانیہ ایک ہی ہے اور بہت سے مواقع پر (ن) لیگ کے ساتھ ہم نے مل کر کام کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم کا بیانیہ ایک ہی ہے تو پیپلز پارٹی پی ڈی ایم سے الگ کیوں ہوئی؟ اور یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ سینٹ کی چیئرمین شپ سے اُن کو کیوں شکست سے دو چار کرایا گیا۔
سید یوسف رضا گیلانی کی ایک اچھی عادت ہے کہ وہ سوالات کے جواب سنجیدگی سے دیتے ہیں اور حالات و واقعات کو گڈمڈ کرنے سے گریز کرتے ہیں مگر اس بیان میں حقائق سے قطعہ نظر سیاسی حکمت عملی کا تاثر واضح جھلک رہا ہے۔
اُن کو پارٹی پالیسی واضح طور پر بیان کرنی چاہئے۔ سید یوسف رضا گیلانی کی پریس کانفرنس اس بناء پر اہمیت کی حامل ہے کہ بہت سے امور پر انہوں نے اظہار خیال کیا۔ سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ نہ صرف یہ کہ موجودہ حکومت سرائیکی صوبہ نہیں بنانا چاہتی بلکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اسے معلوم ہی نہیں کہ صوبہ کیسے بننا ہے؟
لیکن یہ بھی تو ہے کہ اگر تحریک انصاف صوبہ بنانے سے لیت لعل سے کام لے رہی ہے تو پیپلز پارٹی صوبے کا بل اسمبلی میں لا سکتی ہے۔ سید یوسف رضا گیلانی نے تفصیل بتائی کہ نیا صوبہ بنانے کیلئے پہلے متعلقہ صوبائی اسمبلی قرارداد پاس کرتی ہے پھر اُس قرارداد پر کمیشن بنتا ہے اور اس کی سفارشات کو قومی اسمبلی اور سینٹ دو تہائی اکثریت کے ساتھ منظور کرتی ہیں۔ سید یوسف رضا گیلانی سابق وزیر اعظم ہونے کے ساتھ ساتھ معروف پارلیمنٹیرین ہیں۔ اُن کو آئینی امور پر بھی دسترس حاصل ہے۔ جو راستہ وہ حکومت کو دکھا رہے ہیں اس کا آغاز وہ خود کر سکتے ہیں۔ تاریخی طو رپر یہ بھی حقیقت ہے کہ 1973ء کے آئین میں نئے صوبہ بنانے میں صوبے کو دخل حاصل نہ تھا۔ ضیاء الحق نے سرائیکی صوبے کا راستہ روکنے کیلئے آٹھویں ترمیم میں یہ شق شامل کرائی۔
ہم نے اُس وقت بھی اس پر اعتراض کیا تھا کہ صوبہ آئینی مسئلہ ہے تو صوبائی اسمبلی آئین ساز ادارہ نہیں۔ مگر ظلم یہ ہے کہ آٹھارویں ترمیم کے موقع پر پیپلز پارٹی نے آمرانہ ترمیمیں ختم کیں مگر اسے باقی رہنے دیا۔ سابق وزیرا عظم آصف زرداری پر الزام ہے کہ وہ سرائیکی صوبے کے مطالبے سے اس بنا پر پیچھے ہٹ گئے کہ ان کو مہاجر صوبے کا خوف ہے۔ سید یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ کسی بھی حکومت کیلئے اپنے منشور پر عملدرآمد کیلئے پہلے سو دن پرائم ٹائم ہوتا ہے۔
سو دن میں صوبے کا وعدہ کرنے والوں نے ابھی تک کوئی پیشرفت نہیں کی۔ ہم اپنے مشورے کو پھر دہرائیں گے کہ پیپلز پارٹی اسمبلی میں صوبے کابل لائے۔ پانی کا پانی اور دودھ کا دودھ ہو جائے گا۔ اگر تحریک انصاف والے ساتھ نہیں دیتے یا پھر پہلے کی طرح (ن) لیگ والے ڈنڈی مارتے ہیں تو پھر وسیب سے کس منہ سے ووٹ لینے آئیں گے؟ اب تک تو صورتحال یہ ہے کہ سرائیکی صوبہ نہ بنانے کے مسئلے پر تینوں جماعتیں ایک پیج پر ہیں۔ تمام جماعتیں صرف لولی پاپ دے رہی ہیں، عملی طور پر کوئی کچھ نہیں کر رہا۔ اب اکیسویں صدی ہے سوشل میڈیا کے دور میں کسی کو بیوقوف بنانا آسان نہیں۔ صوبہ نہ بننا الگ مسئلہ ہے لیکن وسیب کو اس بات کا بھی دکھ ہے کہ سید یوسف رضا گیلانی، شاہ محمود قریشی اور جاوید ہاشمی کا تعلق سیکنڈ قیادت سے ہے۔
اصل قیادت لاڑکانہ لاہور اور بنی گالہ کے پاس ہے جسے وسیب سے کوئی ہمدردی نہیں۔ کاش کوئی وسیب سے فسٹ قیادت پیدا ہو اور وہ نئی سوچ کے ساتھ آگے بڑھے کہ وسیب کو سب سے زیادہ نقصان قیادت کی ذہنی پسماندگی اور ذہنی غلامی سے ہوا۔ کہنے کو وسیب کے جاگیردار ہمیشہ برسراقتدار رہے مگر یہ سب کے سب کسی کام کے ثابت نہ ہوئے۔ یہ حقیقت ہے کہ نواب مشتاق خان گورمانی ، ملک خضر حیات ٹوانہ ، ممتاز خان دولتانہ ، نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان ، ملک غلام مصطفی کھر ، نواب صادق حسین قریشی ، نواب عباس خان عباسی ، مخدوم سجاد قریشی ، فاروق خان لغاری، سید یوسف رضا گیلانی سمیت سرائیکی وسیب کے جاگیرداروں کی ایک لمبی فہرست ہے جو قیام پاکستان سے لیکر کسی نہ کسی حوالے سے بر سر اقتدار چلی آ رہی ہے ۔
ابھی کل کی بات ہے کہ ملک رفیق رجوانہ پنجاب کے گورنر تھے اور آج سردار عثمان خان بزدار پنجاب کے وزیراعلیٰ ہیں ۔ جب ہم لاہور جاتے ہیں تو ہمیں یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ آپ کے اپنے علاقے کے جاگیردار ہمیشہ بر سر اقتدار رہے ، اگر انہوں نے اپنے علاقے کے لئے کوئی کام نہیں کیا تو آپ ان سے کیوں نہیں پوچھتے اور اگر لاہور کے میاں برادران بر سر اقتدار آئے اور انہوں نے اپنے لاہور کیلئے ترقیاتی کام کئے تو آپ کو حسد نہیں رشک کرنا چاہئے ۔
میری یہ تمہید اس لئے ہے کہ سردار عثمان خان بزدار کو اللہ تعالیٰ نے موقع دیا ہے ‘ وہ ایک پڑھے لکھے آدمی ہیں ‘ ان کے والد بھی استاد رہے ، ان کا گھرانہ تعلیم سے محبت کرنے کے حوالے سے مشہور ہے، تو ضروری ہے کہ وہ وسیب کے لئے کچھ کر جائیں تاکہ ان کا نام ، ان کے جانے کے بعد بھی اچھے لفظوں میں پکارا جائے اور دوسرے جاگیرداروں کی طرح ان کا نام وسیب کیلئے ایک طعنہ اور ملامت نہ بن جائے۔ گزشتہ روز جھوک سرائیکی میں بجٹ سیمینار ہوا اس میں سرائیکی رہنمائوں اور کسان نمائندوں نے خطاب کیا۔ ملک اللہ نواز وینس نے کہا کہ خانیوال جو کہ ملتان کے قریب ہے اسے نئے بننے والے ساہیوال زون میں شامل کر دیا گیا ہے۔
اسی طرح بوریوالا کو بھی وہاڑی سے کاٹ کر ساہیوال کے ساتھ منسلک کیا جا رہا ہے۔ یہ عمل دراصل مجوزہ سرائیکی صوبے کو کم کرنے کے حوالے سے ہے۔ اس موقع پر سابق صدر ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن سید اطہر بخاری نے کہا کہ حکمرانوں نے پہلے جنوبی پنجاب کا بورڈ اوکاڑہ سے شروع کیا بعد میں یہ ساہیوال آگیا اور اب کہا جا رہا ہے کہ جنوبی پنجاب خانیوال سے شروع ہوتا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کوئی زلزلہ آیا ، طوفان یا پھر زمین سکڑ گئی؟ ان کا کہنا تھا کہ پہلے پورا ساہیوال ڈویژن ملتان بینچ کے ساتھ تھا، اب اس بینچ کو بھی محدود کر دیا گیا ہے اور بھکر کے لوگ جو کہ عرصہ سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ہمیں لاہور کی بجائے ملتان بینچ سے منسلک کیا جائے مگر اُن کی بات نہیں مانی جا رہی۔
یہ بھی پڑھیں:
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر