نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج صبح یہ کالم لکھنے سے قبل جمعرات کی صبح چھپے ہوئے کالم کوسوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کے لئے لیپ ٹاپ کھولا تو فیس بک اور ٹویٹر پر ایک اور ’’لیک‘‘ چھائی ہوئی تھی۔پنجاب کی مشیر اطلاعات محترمہ فردوس عاشق اعوان صاحبہ ہمارے ایک سٹار اینکر اور کالم نگار جناب جاوید چودھری کے ٹی وی پروگرام میں شریک ہوئی تھیں۔وہاں پیپلز پارٹی کے حال ہی میں کراچی سے منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی بہرہ مند صاحب بھی موجود تھے۔مندوخیل صاحب کو پہلی بار گزرے پیر کی شام پارلیمان کے اس کمرے میں دیکھاتھا جو بلاول بھٹو زرداری کو قومی اسمبلی کی انسانی حقوق کی کمیٹی کی سربراہی کی بدولت فراہم کیا گیا ہے۔ چیئرمین پیپلز پارٹی نے مندوخیل سے میرا تعارف کروایا۔ وہاں عبدالقادر پٹیل بھی موجود تھے۔ اپنے مخالفین کو چست فقروں سے زچ کرنا کوئی ان سے سیکھے۔مندوخیل مگر ان سے ’’دو قدم‘‘ آگے جاتے نظر آرہے ہیں۔
فردوس عاشق اعوان صاحبہ اورمحترمہ مندوخیل کے مابین ہوئے ٹاکرے کی وڈیو جس انداز میں وائرل ہوئی ہے اس نے میرا دل جلادیا ہے۔مسلسل خود پر لعن طعن میں مصروف ہوں۔ اس سوال کے ساتھ کہ میں گزشتہ چند دنوں سے پاکستان میں فوجی اڈے کی خواہش کے حوالے سے امریکی میڈیا میں ہوئی لیکس کی بابت اپنا سرکیوں کھپاتا رہا۔ اپنے دماغ کی دہی بناکر بالآخر اس حوالے سے میں نے جو کالم لکھا اسے جمعرات کی صبح چھپنے کے بعد سوشل میڈیا پر ویسی پذیرائی ہرگز نہیں ملی جو محترم جاوید چودھری کے پروگرام سے ہوئی’’لیک‘‘ کو نصیب ہوئی ہے۔
ہنر ابلاغ کے حتمی ماہر جناب فواد چودھری درست ہی تو کہتے ہیں کہ ٹی وی سکرینوں پر نظر نہ آنے والے دور حاضر میں ’’صحافی‘‘ نہیں رہے۔ وہ ان دنوں سکرینوں پر نام نہاد ’’حق گوئی‘‘ کے باعث نظر نہیں آرہے۔اصل مسئلہ یہ ہوا کہ وہ جن اداروں کی سکرینوںپر نمودار ہوتے تھے ان کے لئے Ratingsلینے میں پھسڈی ثابت ہوئے۔ صحافتی اداروں نے انہیں خود پر ’’مالی بوجھ‘‘ تصور کیا اور نوکری سے فارغ کردیا۔ ’’سٹارز‘‘ کے ساتھ عموماََ یہ ہوجاتا ہے۔ ہمارے ایک ہیرو تھے۔ وحید مراد ان کا نام تھا۔ ’’چاکلیٹی ہیرو‘‘ پکارے جاتے تھے۔پھر ان کی فلمیں دھڑادھڑفیل ہونا شروع ہوگئیں۔ فلم سازوں نے انہیں بھلادیا۔ فراموش ہوئے وحید مراد اداس ہوئے تنہائی میں دل جلاتے رہے۔
یوٹیوب نے مگر ٹی وی ٹاک شوز کے کئی’’سٹارز‘‘ کو ربّ کا صد شکر’’وحید مراد‘‘ بننے نہیں دیا۔اپنے فون میں نصب کیمرے کے سامنے خطاب فرماتے اور سوشل میڈیا پر ’’اپ لوڈ‘‘ کردیتے ہیں۔ان میں سے کئی ایک کے مستقل صارفین کی تعداد اب لاکھوں کو چھورہی ے۔ان کی مقبولیت نے نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد کو بھی ’’صحافی‘‘ بننے پر اُکسایا ہے۔ ’’اندر‘‘ کی ہر ’’خبر‘‘ ان کے پاس سرجھکائے پہنچ جاتی ہے۔ و ہ اس سے کھیلتے ہیں اور رونق لگادیتے ہیں۔اپنی ساری عمر صحافت کی نذر کردینے کے باوجود میرے ساتھ ’’فرازؔ تم کو نہ آئیں محبتیں کرنی‘‘والا معاملہ ہی رہا۔ بدستور اس گماں میں مبتلا ہوں کہ ہمارے عوام کے ذہنوں میں چند سوالات ابھررہے ہیں۔’’صحافی کے لئے ان کا جواب ڈھونڈنالازمی ہے۔
محترمہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور مندوخیل صاحب کے مابین ہوئے ٹاکرے والی ویڈیو کی مقبولیت نے مگر شدت سے احساس دلایاہے کہ ہمارے لوگوں کی بے پناہ اکثریت کو سنجیدہ سوالات کے سوچ بچار کے بعد تیار کئے جوابات کی ہرگز ضرورت نہیں۔ انہیں اپنا جی بہلانے کو محض ’’چسکہ‘‘ درکار ہے۔ خلافتِ عباسیہ کے دوران بغداد تہذیب وتمدن کا حتمی مرکزشمار ہوتا تھا۔’’وحشی‘‘ منگولوں نے اسے گھیرے میں لے لیا۔ بغداد کے شہری مگر ان کے ارادوں سے بے خبر گلیوں اور بازاروں میں مناظروں کے ذریعے یہ طے کرنے میں مصروف رہے کہ طوطا حلال ہے یا حرام۔ دلی کے تخت طائوس پر کبھی مغلیہ سلطنت کا محمد شاہ بیٹھا تھا۔ ایران کا ایک فوجی دلاور نادرشاہ دلی کی دولت لوٹنے اس شہر کی جانب مسلسل بڑھ رہا تھا۔’’تیمور‘‘ کا جانشین مگر ’’ہنوز دلی دور است‘‘ کا مدد کرتا رہا۔
دور حاضر میں ہمارے ہمسائے یعنی افغانستان میں جو لاوااُبل رہا ہے اس کے بارے میں بھی ہم ہرگزفکرمند نہیں ہیں۔مولا محترمہ فردوس عاشق اعوان صاحبہ کو مزید دلیری عطا فرمائے۔ وہ ٹی وی ٹاک شوز میں شریک ہوتی رہیں۔ دل کو بہلانے کے لئے چسکہ بھری ویڈیوز وائرل ہوتی رہیں گی اور اپنے تئیں قوم کی ’’ذہن سازی‘‘ پر مامور ’’صحافی‘‘ یہ طے کرنے میں مصروف ہوجائیں گے کہ ’’زیادتی کس کی تھی؟‘‘
بشکریہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر