اعزاز سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"سچ نے جھوٹ سے کہا ، آو اکٹھے نہاتے ہیں۔کنویں کا پانی بہت اچھا ہے۔ دونوں نے کپڑے اتارے اور نہانے لگے۔اچانک جھوٹ پانی سے نکلا سچ کے کپڑے پہنے اورموقع سے فرارہوگیا۔سچ کپڑے وآپس لینے غصے میں ننگا ہی کنویں سے نکلا تو دنیا اسے ننگا دیکھ کرغصہ اورتوہین کرنے لگی۔
بیچارہ سچ شرم کے مارے وآپس کنویں میں جاکرہمیشہ کے لیے غائب ہوگیا۔ اس وقت سے جھوٹ سچ کے کپڑے پہنے دنیا میں بھاگتا پھر رہا ہے اوردنیا بہت خوش ہے کیونکہ اسے ننگا سچ جاننے کی کوئی خواہش ہی نہیں”۔ ممتاز فرانسسی مصور جین لیوں گروم کی 1896 میں بنائی گئی ایک پینٹگ سے ماخوزیہ آفاقی واقعہ آج کے پاکستان کی تصویرپیش کرتا ہے ۔
ہمیں بچپن سے ہی سرکاری سرپرستی میں جھوٹ کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اگر یقین نہیں آتا تو ہمارے بچوں کو پڑھائی جانے والی مطالعہ پاکستان کی کسی بھی جماعت کی کتاب اٹھالیں آپ کو دو چیزیں ملیں گی ۔ شِیخیوں سے بھرپوراپنی جھوٹی تعریفیں اورغیرمسلموں سے نفرت۔ تعلیم توجھوٹ اورنفرت سے آزادی دلاتی ہے مگرہمیں یہ دونوں برائیاں ہمارے نصاب میں پڑھائی جاتی ہیں۔نفرت کی بات پھر سہی پہلے سچ سے نمٹ لیں۔
مجھ سمیت سب کا دعوی۱ ہے کہ ہم سچ بولتے ہیں لیکن سچی بات یہ ہے کہ وقت آن پڑے توہم سچ کے اصولوں کو بھول جاتے ہیں اورسچ کے کپڑوں میں ملبوس جھوٹ کے ہاتھ پربیعت کرنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔
صحافت میں آئے دو دہائیاں بیت گئیں۔ جس شخص سے ملتا ہوں اسکا دعوی۱ یہی ہوتا ہے ، ” میں زرا مختلف آدمی ہوں ، سیدھی ، سچی اورکھری بات کرتا ہوں چاہے کسی کوکتنی ہی بری کیوں نہ لگے”۔ لیکن زرا کریدیں یا تحقیق کریں توحقیقت دعوے سے مختلف نکلتی ہے۔ جدید دورمیں میڈیا سچ کا علمبرداربنا ہوا ہے۔ آپ کسی ٹی وی اینکریا سوشل میڈیاپرمتحرک پہلوان کودیکھیں سب کا دعوی۱ "سچ” ہے۔
جسطرح ملک میں پارلیمینٹ ہےمگر جمہوریت نہیں، عدالتیں ہیں مگرانصاف نہیں ، تعلیمی ادارے ہیں مگر تعلیم نہیں بالکل اسی طرح سچ کا علمبردار میڈیا/ سوشل میڈیا ہے مگر سچ نہیں بلکہ کہیں نہیں۔ وجہ ایک تویہ ہے کہ مرکزی دھارے کے اخبارات و ٹی وی چینلزپرکڑی نگرانی ہے اگر وہ غلطی سے حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کے کسی ناپسندیدہ موضوع پر بات کریں توانہیں اشتہارات یا کیبل پر نشریات کی بندش سےاس”سچ” کافوری خمیازہ بھگتنا پڑتاہے۔ لہذا میڈیا کے ادارے سچ اتنا ہی بولتے ہیں جتنا ہضم کرسکیں۔ ایک خاص حد سے آگے سچ کو پسند کیا جاتا ہے نہ شائع و نشر۔ ہاں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ وہی سچ ہے جو دراصل سچ نہیں بلکہ سچ کے کپڑوں میں ملبوس جھوٹ ہے۔
ہمارے ہاں کچھ ایسی سچی خبریں ایسی آتی ہیں جسے میڈیا نظرانداز کردیتا ہے۔ یہ حکومت یااسٹیبلشمنٹ سے متعلق طاقتورشخصیات ، اداروں کی بھی ہوتی ہیں اورکچھ طاقتورپراپرٹی و بزنس ٹائیکون بھی اسی استثنی۱سے فائدہ اٹھاتے ہیں لہذاعوام کو پورا سچ پتہ نہیں چلتا کیونکہ میڈیا اول تو خبرکامکمل بلیک آوٹ کردیتا ہے یا اس خبر کو ایسےملفوف انداز میں نشرکرتا ہےکہ اسکے معنی مرجاتے ہیں۔عام آدمی کو پورا سچ پتہ نہیں چلتا اسی لیے وہ بعض شخصیات یا اداروں کی اندھی محبت کا شکار ہوجاتا ہےاورکبھی کبھارتواس محبت میں مرنے مارنے پر بھی اتر آتا ہے۔سوچیے اس سارے عمل میں قصوریقیننا آدھا سچ نشراورشائع کرنے والوں کا ہے ۔ کرشن بہاری نور نے خوب لکھا تھا،
سچ گھٹے یا بڑھے تو سچ نہ رہے
جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں
کرشن بہاری کی اردوزبان میں سچ کے بارے میں کی گئی اس تعریف سے بڑھ کر شائد ہی کوئی ہولیکن جو مقام جین لیوں گروم کی پینٹگ سے ماخوز اوپردرج واقعے کا ہے اسکا کوئی ثانی نہیں۔
سچ کی مارکیٹ میں قلت کو سوشل میڈیا پرمختلف افراداپنے اپنے انداز میں ختم کرنےکی کوشش کررہے ہیں مگر ان میں بھی اکثریت یاتو جمہوریت کش طاقتوراسٹیبلشمنٹ کی نمائندگی کرتی ہے یا پھرطاقت کے حصول کے لیے کوشاں مختلف سیاسی جماعتو٘ں کی ۔ سچ کا دعوی۱توکیا جاتا ہے مگرعملی طورپراپنے اپنے سرکاری یا نجی آقاوں کا بیانیہ دیا جاتا ہے نہلے پے دہلا یہ کہ سچ کے پاوں کو معاشرے اورمذہب کی بیڑیاں الگ سے پہنائی جاتی ہیں۔ ہاں ان میں مطیح اللہ جان اوربلال غوری جیسے ایک دوافراد ایسے بھی ہیں جو واقعی سچ کی کھوج میں مسلسل بہترین کاوشیں کررہے ہیں مگران جیسے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابربھی نہیں۔
جیں لیوں گروم کی تخلیق کردہ سچ کی بے بسی دیکھنا ہوتوصرف اسلام آباد ہائَیکورٹ کے معزول کیے گئے جج جناب جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا سپریم کورٹ میں اپنی برطرفی کے خلاف کیس کی سماعت کےدوران دیا گیا بیان دیکھ لیں جوکہیں شائع نہیں ہوسکا۔ زیرحراست ایم این اے علی وزیرکے کیس کی تفصیل یا ان کا موقف دیکھ لیں جو کہیں شائع کرنے کی اجازت نہیں یا پھر کراچی میں ایک نجی ہاوسنگ سوسائٹی کے خلاف احتجاج دیکھ لیں اور پتہ کرنے کی کوشش کریں کہ ان سب معاملات پرخبریں کہاں شائع یا نشرہوئیں۔آپ کو پتہ چلے گا کہ اول تو کہیں کچھ بھی شائع یا نشر نہیں ہوااور اگر ہوا بھی ہے تو اس میں تمام کردارغائب کردئیے گئے ہیں یعنی جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں۔ تو پھرکیا ہم دعوی۱ کرسکتے ہیں کہ ہم سچ بول رہے ہیں؟
میرے خیال میں ہم سچ نہیں بول رہے کیوںکہ جونہی ہم ننگا سچ دیکھتے ہیں تو سب سے پہلے اسکا خمیازہ سچ بولنے اورنشر/شائع کرنے والوں کو معاشرتی توہین کی صورت میں برداشت کرنا پڑتا ہے اورپھر اس کے بعد معاشی پابندیاں الگ سے عائد ہوجاتی ہیں۔
مجھے نہیں پتہ کہ فرانسسی مصورجین لیوں گروم زندہ ہوتے تووہ پاکستان جیسے ملک میں سچ کی تازہ صورتحال پرکوئی نئی تخلیق کرتے یا نہیں لیکن مجھے اتنا معلوم ہے کہ پاکستان میں سچ کے کپڑے پہنے جھوٹ تو سرکاری سرپرستی میں میڈیا پرسرعام گھومتاپھررہا ہے لیکن شرمندگی سے چھپےپھرتے ننگے سچ کوزبردستی اغواکرکے لاپتہ کردیا گیا ہے۔ پاکستان میں اصل چیلنج تواغواکاروں سے سچ کی بحفاظت بازیابی ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
کیا اپوزیشن کامیاب ہوگی؟۔۔۔ اعزاز سید
خادم رضوی کی وفات کے بعد جماعت کا مستقبل ؟۔۔۔اعزازسید
وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کون ہیں؟—اعزازسید
پی ڈی ایم کی تشکیل سے قبل ایک اہم سرکاری اجلاس میں کیا ہوا؟۔۔۔اعزازسید
Baat tou aap ki such hai, lekin baat hai ruswaaie ki
Kyon ke iss ghar ko aag lag gayie hai ghar ke chirragh se