نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات قیام پاکستان کے ساتھ ہی بہت گہرے ہونا شروع ہوگئے تھے۔ ہم انہیں ’’دوستانہ‘‘ ٹھہراتے رہے۔ جذباتی قوم ہیں۔ یہ حقیقت ہمیشہ نظرانداز کردیتے ہیں کہ ریاستوں کے مابین ’’دلاں دے سودے‘‘ نہیں ہوا کرتے۔ ریاستی مفادات ہی کلیدی کردار ادا کرتے ہیں اور امریکہ ایک ’’بڑا جانور‘‘ ہے۔ اپنی مرضی کے مطابق جب چاہے ’’انڈہ‘‘ یا ’’بچہ‘‘ پیدا کردیتا ہے۔ اس کا یہ رویہ تاہم ہمیں حیران و پریشان کر دیتا ہے۔ ٹھکرائے عاشق کی طرح شکوہ کنائی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
کسی بھی سپرطاقت سے جڑی سفاکی اور بے رحمی کے باوجود امریکہ کی چند ’’اچھی‘‘ باتیں بھی ہیں جنہیں ہم اکثر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کے ہاں معاملات کو ہمیشہ کے لئے ’’خفیہ‘‘ رکھنا ناممکن ہے۔ ہر ریاستی اقدام کی وجوہات کو ریکارڈ کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ ریکارڈ کو کچھ برسوں تک ’’خفیہ‘‘ رکھنے کے بعد عوام کے سامنے لانا لازمی ہے۔ ہمارے ہاں مگر فقط چند لوگ ہی پاک-امریکہ تعلقات کے بارے میں اخباری کالم لکھتے ہوئے انٹرنیٹ پر بآسانی موجود ریکارڈ سے رجوع کرتے ہیں۔ ماضی کے ٹھوس واقعات سے غافل ایسی یاوہ گوئی کو ترجیح دیتے ہیں جو قارئین کی ’’روح کوتڑپا دے‘‘۔ لکھاری کو جی دار محب وطن دکھائے۔
قیام پاکستان کے محض دو سال بعد امریکہ کی وزارت خارجہ ،فوج، نیوی اور ایئرفورس کی ایک کوآرڈی نیشن کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ اس کی ایک ذیلی کمیٹی نے جنوبی ایشیاء اور مشرق وسطیٰ کے ممکنہ مستقبل پر کئی دنوں تک غور کیا۔ طویل بحث مباحثہ کے بعد ایک رپورٹ تیار ہوئی جو 1949 Frusکہلاتی ہے۔ اس کے صفحہ نمبر12 پر ایک پیرا موجود ہے۔ یہ پیرا امریکہ کی جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کی رہ نمائی کے لئے لکھا گیا تھا۔
اس پیرا کے مطابق امریکہ کی طویل المدت دفاعی خواہشات وترجیحات اس امر کی متمنی ہیں کہ ’’پاکستان (ان دنوں کے) سوویت یونین کے خلاف (امریکی) ایئرفورس کے فضائی آپریشنز کیلئے استعمال کیا جاسکے‘‘۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں امریکی فوجی اڈے کا قیام مشرق وسطیٰ میں تیل کے ذخائر کی حفاظت کو بھی یقینی بنانے کے لئے ضروری ٹھہرایا گیا تھا۔
مذکورہ رپورٹ کی بدولت 1950 کی دہائی سے پاک-امریکی فوجی تعلقات کا آغاز ہوا۔ اسی باعث 1954 میں جب افغانستان نے امریکہ سے فوجی امداد کی درخواست کی تو امریکی وزارتِ خارجہ نے اسے غور کے قابل ہی نہ سمجھا۔ سردار دائود ان دنوں افغانستان کا وزیر اعظم تھا۔ وہ پاکستان کے لئے ’’پختونستان‘‘ کے حوالے سے نت نئے مسائل کھڑے کرتا رہتا تھا۔ اس کا بھائی سردار نعیم جب افغان درخواست لے کر واشنگٹن پہنچا تو اسے صاف لفظوں میں بتادیا گیا کہ افغانستان کو اپنی فوج کے لئے جدید اسلحہ جمع کرنے کے بجائے اپنے ’’ہمسائے‘‘ یعنی پاکستان کو ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے مطمئن کرنا ہوگا۔ امریکہ سے ملے کورے جواب نے دائود کوسوویت یونین کی جانب رخ کرنے کو اُکسایا۔ اس کے بعد جو ہوا تاریخ ہے۔
تاریخ کو یاد کرتے ہوئے یہ حقیقت بھی نگاہ میں رکھنا لازمی ہے کہ بسااوقات یہ محض جغرافیہ کی محتاج بھی ہوتی ہے۔ پاکستان اور افغانستان چند ٹھوس جغرافیائی بندھن میں جڑے ہوئے ہیں۔ انہیں بدلنا انسانوں کے بس سے باہر ہے کیونکہ جغرافیہ اپنی جگہ اٹل ہے۔ اسی باعث ایک مرتبہ پھر ان دنوں پاکستان میں امریکی اڈے کے قیام کے بارے میں قیاس آرائیاں اور پراسرار سرگوشیاں جاری ہیں۔
فوری طورپر امریکہ کو یہ فکر لاحق ہے کہ افغانستان سے اپنی افواج کو انتہائی عجلت میں اس برس کے ستمبر کے بجائے 4 جولائی تک ہی نکالنے کے بعد وہاں رکھے جدید اور حساس ترین اسلحہ اور جاسوسی کے سازوسامان کی پاکستان کے زمینی راستوں کے ذریعے سمندر تک رسائی کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔ مذکورہ ہدف کے حصول کے لئے وہ فوجی سازوسامان کی فضائی نگرانی کا طلب گار ہے۔ یہ نگرانی بھی اپنے تئیں کافی نہیں۔ فرض کیا فوجی نقل وحرکت اگر ’’خطرے‘‘ میں نظر آئے تو اس کے فوری تدارک کے لئے چند فوجی دستوں کو ’’خطرے کے مقام‘‘ پر سرعت سے پہنچنا ہو گا۔ امریکی افواج اور ان کے سازوسامان کی بحفاظت واپسی کا عمل مکمل ہوجانے کے بعد بھی امریکہ اس امر کا خواہاں ہے کہ پاکستان میں قائم کسی اڈے سے افغانستان پر مسلسل نگاہ رکھی جائے۔ طالبان اگر اس ملک میں دوبارہ برسراقتدار آ جائیں تو امریکہ اس کے بارے میں ہرگز فکر مند نہیں ہوگا۔ بائیڈن انتظامیہ کو افغانستان میں ’’امارت اسلامی‘‘ کی بحالی بھی حقیقی معنوں میں پریشان نہیں کرے گی۔
اسے بنیادی خدشہ یہ لاحق ہے کہ افغانستان میں اب طالبان ہی طاقت ور ترین فریق نہیں رہے۔ ’’القاعدہ‘‘کے چند گروہ خود مختار انداز میں اب بھی کئی مقامات پر موجود ہیں۔ القاعدہ سے کہیں زیادہ فکر مگر ’’داعش‘‘ کے بارے میں ہو رہی ہے۔ اس تنظیم کی ’’وحشت‘‘ سے امریکہ اور یورپی ممالک بہت خوفزدہ ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ مذکورہ تنظیم کے ابھرنے اور توانا تر ہونے کا حقیقی سبب یہ تھا کہ صدر اوبامہ نے انتہائی عجلت میں عراق سے امریکی افواج کو واپس بلا لیا۔ یوں ایک ’’خلا‘‘ پیدا ہوگیا جسے داعش نے اپنی ’’خلافت‘‘ کے ذریعے پرکرنا چاہا۔
امریکہ اور یورپ کے کئی تھنک ٹینک مصر ہیں کہ غیر ملکی افواج کے مکمل انخلاء کے بعدافغانستان میں بھی داعش کی کوئی دہشت ناک شکل نمودار ہوسکتی ہے۔ طالبان غالباََ ان پر کنٹرول نہیں کر پائیں گے۔ امریکہ ہی کو اس ضمن میں کچھ کرنا ہوگا۔
داعش کا حقیقی مرکز ان دنوں افغانستان کا مشرق شمار ہو رہا ہے۔ اپنی آسانی کے لئے یوں سمجھ لیں کہ طورخم کے اس پار جلال آباد اور اس کے گردونواح کو اس تنظیم کا گڑھ تصور کیا جا رہا ہے۔ اس علاقے کے قریب ترین علاقے جغرافیائی حقائق کے سبب پاکستان ہی میں واقع ہیں۔ پاکستان سے لہٰذا فوجی اڈے کی اجازت دینے کی درخواست ہو رہی ہے۔
ایسی درخواستیں میرے اور آپ جیسے بے وقعت شہریوں سے عموماَ پوشیدہ رکھی جاتی ہیں۔ پاکستان کے مخصوص ماحول میں وزیر اعظم کی دفتر میں براجمان شخصیت کو بھی ایسی درخواستوں کی عموماَ خبر نہیں ہوتی۔ یاد رہے کہ 1950 کی دہائی میں خواجہ ناظم الدین کی برطرفی کے بعد سے ہمارے ہاں وزیر اعظم مسلسل بدلتے رہے۔ گورنر جنرل غلام محمد بھی مفلوج ہو چکا تھا۔ جنرل ایوب جب پاک فوج کے پہلے سربراہ تعینات ہوئے تو امریکہ کے ساتھ تعلقات کا معاملہ وہ تن تنہا ہی سنبھالتے رہے۔ انہیں ایک بار آرمی چیف ہوتے ہوئے بھی وزیر دفاع بنا کر وفاقی کابینہ کا رکن بنایا گیا تھا۔
2021 میں افغانستان کی ’’نئی‘‘ یا ممکنہ صورت حال 1950کی دہائی والی تاریخ کو دہرانے کی راہ بنا رہی ہے۔ عمران خان صاحب کو تاہم اپنے ’’امیج‘‘کی فکر بھی لاحق ہے۔ شاہ محمود قریشی صاحب ریمنڈ ڈیوس کی وجہ سے وزارتِ خارجہ سے فارغ ہوئے تھے۔ وہ عمران حکومت میں رہ کر بھی ’’اصولی مؤقف‘‘ پر ڈٹے رہنے کے خواہاں ہیں۔ ہماری عسکری قیادت اور اداروں کو بھی ’’دودھ کا جلا‘‘ والے تجربے بھولے نہیں۔ امریکہ کی اسی باعث مؤثر شنوائی نہیں ہورہی۔
آپ اور مجھ جیسے عام شہریوں سے پوشیدہ رکھی درخواستوں کی شنوائی نہ ہو تو امریکہ کمال مکاری اور مہارت سے ’’ملاقاتیں جو ہوتی ہیں‘‘ کی تفصیلات اپنے دھانسو شمار ہوتے رپورٹروں کو لیک کرنا شروع کردیتا ہے۔ نیویارک ٹائمز اور سی این این جیسے ادارے اس ضمن میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
سوال اٹھتا ہے کہ یہ ’’لیکس‘‘ کیوں ہوتی ہیں۔ خارجہ اوردفاعی امور کی رپورٹنگ سے عرصہ ہوا ریٹائر ہوچکا ہوں۔ یو ٹیوب پر چھائے چند ’’ذہن ساز‘‘ ہیں۔ ان کے فرمودات کوغور سے سنتے ہوئے ٹیوے لگانے کی کوشش کرتا ہوں کہ ’’کیا چل رہا ہے‘‘۔ مجھے باخبر رکھنے میں لیکن یوٹیوب پر چھائے محبان وطن ذہن ساز ان دنوں مددگار ثابت نہیں ہورہے۔
محض اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ سوچنے کو مجبور محسوس کررہا ہوں کہ پاکستان فی الوقت امریکہ کو فوجی اڈے والی سہولت فراہم کرنے کو رضا مند نہیں ہو رہا۔ امریکہ کے فیصلہ سازوں نے لہٰذا خبریں ’’لیک‘‘ کرنا شروع کردی ہیں۔ ان کا حتمی مقصد میرے خیال میں یہ ہے کہ میرے منہ میں خاک اگر افغانستان سے غیر ملکی افواج کے مکمل انخلاء کے بعد اس ملک میں انتشار و افراتفری بے قابو ہو جائے تو اس کا الزام پاکستان کے سررکھ دیا جائے۔ عالمی رائے عامہ کو یہ باور کروایا جائے کہ اگر پاکستان امریکہ کو اپنی زمین پر فوجی اڈہ فراہم کر دیتا تو شاید افغانستان شام کی طرح خون آلود خلفشار کی گرداب میں گرفتار نہ ہوتا۔
بشکریہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر