عفت حسن رضوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پریس ایسوسی ایشن سپریم کورٹ صحافیوں کی تنظیم ہے جو کہ عدالت عظمیٰ میں روزانہ کوریج کے لیے آنے والے صحافیوں پر مشتمل ہے۔ اس تنظیم کے پاس سپریم کورٹ عمارت کے اندر ایک کمرہ ہے۔ یہ کمرہ پہلے اپنے سائز میں خاصا چھوٹا ہوتا تھا۔
درمیان میں ایک بڑی سی کانفرنس میز تھی جس کے چاروں طرف رکھی کرسیوں پہ اپنے اپنے گھروں کے ارسطو، سقراط، خلیل جبران، چی گوارا، مینڈیلا، پوٹن، مسولینی اور ہٹلر بیٹھا کرتے تھے۔
کچھ عرصہ ہوا سپریم کورٹ انتظامیہ کی مہربانی سے صحافیوں کو اب بڑا کمرہ مل گیا ہے۔ امید یہی ہے کہ اب بڑے کمرے میں بڑی محفل جمتی ہوگی۔
اب بھی وہاں منطق کی بات ہوتی ہوگی اور پھر کئی دوستوں کو آگ لگ جاتی ہوگی۔ اب بھی کوئی صحافی ایک جملہ پھینکتا ہوگا اور دوسرے دوستوں کو گراں گزرتا ہوگا۔ کسی صحافی نما ٹاوٹ کے آنے پر کمرے میں سناٹا چھا جاتا ہوگا۔
لطف اس بات میں نہیں یہ آگ لگتی تھی یا بات گراں گزرتی تھی۔ اہم یہ ہے کہ سوچ کے گھسے پٹے پرانے سے ڈبے سے منہ باہر نکال کر بات کہی جائے اور یار دوست ساتھی اختلاف کریں، برا منائیں مگر سن لیں۔ کہنے والے کو پاگل کہیں، بدتمیز کہیں، مگر سن لیں۔
یہ تمہید یوں باندھی کہ وحید مراد کا تعارف ہو جائے۔ ان دنوں ایک خبروں کے ڈیجیٹل ادارے اردو نیوز سے وابستہ ہیں۔ سپریم کورٹ میں جب یہ رپورٹر ہوا کرتے تھے تو میں بھی نوکری سے زیادہ اپنا شوق پورا کرنے روز اس سفید عمارت پہنچی ہوتی تھی۔ یوں تو عدالتیں سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت میں لگا کرتی ہیں مگر اس وقت ایک عدالت لگتی تھی صحافیوں کے کمرے میں۔
صحافیوں کی اس عدالت میں کبھی حامد میر، مطیع اللہ جان، کامران خان کو (ان کی غیرموجودگی میں) کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا تھا، کبھی باتوں باتوں میں تفتیش اور الزامات کا دائرہ وسیع ہوتے ہوتے بابر اعوان تک پہنچتا تھا۔
یہاں ایم کیو ایم کے بخیے ادھیڑے جاتے تھے کبھی ن لیگ کی اداؤں پر غور ہوتا تھا۔ نہ مقدمہ نہ وکیل نہ جج نہ فیصلہ۔ بس گرما گرم جملے بازی، تاریخی حوالے، سپریم کورٹ کے رپورٹڈ فیصلے اور اخباری تراشے۔
وحید مراد کو سب سے مسئلہ تھا، پورا یقین ہے کہ اب بھی رہتا ہوگا۔ اس کے پاس ہر سیاسی جماعت کے خلاف وائٹ پیپر تیار ہوتا۔ صحافی کا نام لینے کی دیر ہوتی کہ صحافی کے خلاف الزامات کی فہرست گنوانے لگ جاتا۔ نیوز چینلز، اخبارات، این جی اوز، مسلح افواج، امریکہ، طالبان، ملکہ برطانیہ، پوٹن، یہاں تک کہ ناسا کا سپیس پروگرام۔۔
وحید مراد نے ہر معاملہ پر چارج شیٹ تیار کر رکھی ہے۔ ایسا نہیں کہ وحید مراد ہر بار ہر جگہ درست ہوتا ہے، مگر اسے ہر مشہور بیانیے سے اختلاف کی عادت ہے۔
وحید مراد جیسے نظریاتی خودکش افراد ہر جگہ ناپسندیدہ، نظریہ ضرورت کے چاہنے والوں کی آنکھ میں کھٹکتے ہیں۔ ایسے افراد کو ان کی تیز مزاجی کی وجہ سے لیڈرشپ کی کرسی نہیں دی جاتی، نو کمپرومائز کا بورڈ لگائے رکھتے ہیں اسی لیے مذاکرات میں نہیں بٹھایا جاتا۔ ان سے خطرہ ہی رہتا ہے نجانے کب نعرہ لگا کر کہاں پھٹ پڑیں۔
سیاست میں بھی ایسے کئی نظریاتی سر پھرے ہیں، ہر پارٹی میں ہیں جن سے لیڈر شپ کو یہی ڈر لگا رہتا ہے کہ نجانے کب کہاں سینگ پھنسا لیں۔ یہ کہیں فرحت اللہ باہر کی شکل میں بیٹھے ہیں، کسی پارٹی کو شاہد خاقان عباسی کے نام سے ملے اور کہیں شیریں مزاری بن جاتے ہیں۔ ایسے اختلافی عناصر حکومت، فوج، کرکٹ ٹیم، کاروبار، بیوروکریسی ہر جگہ ہوتے ہیں۔
یہ نظام کی تباہی کے خواہاں نہیں ہوتے، اسی سسٹم سے جڑے رہتے ہیں، مگر سسٹم چلانے اور سسٹم کے مطابق چلنے والوں کا فضیحتہ کرتے رہتے ہیں انہیں بکھانتے رہتے ہیں۔
مسئلے کا حل دیں یا نہ دیں مگر اردگرد کے لوگوں کو مسئلے بھولنے نہیں دیتے ان کی بلا سے ماحول خراب ہوتا ہے تو ہوتا رہے۔
ہر ادارے بلکہ ہر خاندان میں ایسے مشکل اور غیرمقبول افراد ہوتے ہیں، جنہیں سٹیٹس کو سے تقریباً سارا سال ہی مسئلہ رہتا ہے۔ گھر کا بڑا کوئی فیصلہ کر لے مگر ان کی اپنی الگ ہی لائن ہوتی ہے جسے یہ ببانگ دہل بیان کرنے سے نہیں کتراتے۔
انہیں کھرا اور تلخ بولنے کا شوق ہوتا ہے، کوئی مانے نہ مانے مگر بائیکاٹ اور اختلاف کو بھی ہر کچھ دن بعد کرتے رہتے ہیں۔
نہ ان کا کوئی مستقل دوست رہ سکتا ہے، نہ پکا دشمن کیونکہ ان کے راکٹوں کا رخ بدلتا رہتا ہے یہاں تک کہ کبھی کبھی کوئی گولہ اپنے ہی آشیانے پہ گرا کر تباہ ہونے کی پوری پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔
کسی ایک بھی فریق کے ساتھ بلامشروط تعاون، اندھا یقین، خاموش تقلید نہ کرنے کا انجام یہ ہے کہ ایسے افراد کبھی خسارے میں نہیں رہتے۔ انہوں نے وہ صنم بنائے نہیں ہوتے جو خود اپنا بوجھ بھی نہ اٹھا سکیں۔
ایسے افراد کے اعتماد کو ٹھیس نہیں لگتی کیونکہ غیرفطری خوش فہمی یہ پالا نہیں کرتے، انہیں ادارک ہوتا ہے کہ حضرت انسان اپنی حاجات اور کمزوریوں کے ہاتھوں جھک سکتا ہے۔
میں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں بھی اتنے پیچیدہ لوگ دیکھے ہیں جن کا کوئی خفیہ ایجنڈا نہیں ہوتا مگر وہ اپنی تنقید اور اختلاف کے باعث اچھے نہیں سمجھے جاتے۔
اور اب شعور کی اونچی سیڑھی سے سماجی منظرنامے پہ ایسے کئی لوگ دیکھ رہی ہوں جو شدید غیرمعروف، تلخ زبان مگر دل کے صاف ہیں، جو گیڈر بھبکی نہیں دیتے، اختلاف کریں تو پھر وضاحتیں نہیں دیتے، اڑ جائیں تو پھر ٹلتے نہیں، جو کشتیاں جلا دیں تو پھر معافی مانگ کر تیرنے کی گنجائش نہیں نکالتے۔
اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات مصنفہ کے ہیں ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
کامریڈ خدا حافظ۔۔۔عفت حسن رضوی
ابا جان کی نصیحت لے ڈوبی۔۔۔عفت حسن رضوی
ہزارہ: میں اسی قبیلے کا آدمی ہوں۔۔۔عفت حسن رضوی
خاں صاحب! آپ کو گمراہ کیا جارہا ہے۔۔۔عفت حسن رضوی
فحاشی (وہ مضمون جسے کئی بار لکھا اور مٹایا گیا)۔۔۔عفت حسن رضوی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر