وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خاکسار کو مقبول لکھنے والے کا درجہ حاصل نہیں۔ کبھی کوئی مہربان ایک آدھ سطر سے حوصلہ افزائی کردیتا ہے۔ کہیں سے کوئی اختلافی زاویہ بھی سنائی دے جاتا ہے۔ لکھنے والے کو پڑھنے والے کے ردعمل پر ہمیشہ احسان مند رہنا چاہئے۔ پڑھنے والے کو حق ہے کہ بے اعتنائی سے صفحہ پلٹ دے یعنی ’اک نگہ جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، ہی سے انکار کردے ۔ اور اگر چاہے اڑتی اڑتی سی اک نظر ڈال کر اخبار ایک طرف رکھ دے۔ اگر چاہے تو غور سے پڑھ کر اپنے فہم اور اپنے مشاہدے کی روشنی میں رد کر دے۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ لکھنے والے کی تال پر پڑھنے والے کے اندر کا سر بیدار ہو جائے۔ یہ وہ موقع ہوتا ہے جب تحریر سر اٹھا کر ادھر ادھر دیکھتی ہے۔ اس کے پروں پر رنگوں کی قوس قزح نمودار ہوتی ہے۔
حالیہ تحریروں میں ایک آدھ بار محمد انور خالد کا ذکر آیا اور کہیں ان کا کوئی اقتباس چلا آیا تو پڑھنے والوں میں اشتیاق پیدا ہوا۔ چمن سے محترم عزیزی اچکزئی نے لکھا کہ نظم کے استعارے وضاحت کے محتاج ہیں۔ ڈاکٹر محمد ایوب سے قدیم نیاز مندی ہے۔ ملتان نشتر میڈیکل کالج سے آنے والے ڈاکٹر ایوب اعوان اور ڈاکٹر ارشد وحید نے ہم جیسوں کو نوجوانی میں جدید اردو شاعری سے متعارف کرایا تھا۔ ڈاکٹر ایوب نے بھی انور خالد کی شاعری کے بارے میں استفسار کیا تو خیال آیا کہ غالباً انور خالد کا کچھ اجمالی تعارف ہونا چاہئے۔ معلوم تو ہو کہ کیسے کیسے جواہر پارے ہماری غفلت کے پردے میں اوجھل ہو گئے۔ جنہیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصر، وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ کسی نظم کی سادہ اور اکہری تشریح کرنا اور اسے شعر کا حتمی معنی قرار دینا بدذوقی کہلاتا ہے۔ شاعری تو کہا ہی اسے جاتا ہے جو کسی دوسری زبان میں تو کیا، خود اسی زبان کے کچھ مختلف الفاظ اور پیرایۂ اظہار میں بیان کی متحمل نہیں ہوتی۔ شاعری کے کسی نمونے کی ایک سے زیادہ تشریحات ممکن ہوتی ہیں اور ان میں کسی ایک تشریح کو غلط یا کسی دوسری تفہیم کو صحیح کہنا درست نہیں ہوتا۔ تاہم پڑھنے والوں کی محبت کے تشکر میں اس بدذوقی کا ارتکاب کرنے میں حرج نہیں۔ اگرچہ یہ وضاحت ضرور کرنی چاہئے کہ یہ تشریح میری ذاتی رائے ہے۔ مجھے اپنی سوجھ بوجھ پر اصرار نہیں ہوتا ۔ اپنی رائے میں غلطی کا احتمال ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہئے۔
محمد انور خالد کی نظم ’’میں نے تحریر کیا‘‘ میں متعدد تاریخی حوالوں اور استعاروں کی مدد سے حکمرانی اور عوام کے تضاد نیز اہل دانش کے دیوالیہ پن کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ’آثار صنادید‘ سرسید احمد خان کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے دہلی کی تاریخی عمارات نیز مغل نوادرات کا اشاریہ مرتب کیا تھا۔ اس کتاب میں مغل عہد کی تعریف کی گئی ہے۔ غدر کے بعد سرسید احمد خان نے ’رسالہ اسباب بغاوت ہند‘ لکھا جس میں مغل عہد کی دل کھول کر مذمت کی گئی تھی۔مغل رئیس محمود خان کو جگہ جگہ ’نامحمود خان‘ لکھا گیا۔ تاریخ فرشتہ معروف ہندوستانی مؤرخ محمد قاسم فرشتہ کی تصنیف ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں جن حکمرانوں کی تعریف کی تھی، بعد ازاں ’دربار عزازیل‘ نامی کتاب لکھ کر ان کی مذمت کی۔ اسی رویے کی ایک مثال عبدالحلیم شرر کی تصنیف دربار حرام پور ہے۔ اس کتاب میں ’علم مسہری‘ کے جو دلچسپ زاویے بیان کئے گئے ہیں انہیں اخبار میں نہیں لکھا جا سکتا۔ صدق جائسی کی معروف کتاب دربار دُر بار (یعنی ایسا دربار جس پہ موتی برستے تھے) حیدرآباد دکن کے دربار کی تعریف میں لکھی گئی تھی۔ یہ کتاب بازار میں دستیاب ہے ۔تاہم اس کے اقتباسات یعنی اس دربار پر برسنے والے چنیدہ جوہر پارے بھی ضبط تحریر میں لانا آسان نہیں۔ ’خط کوفی‘ خطاطی کا ایک معروف اسلوب ہے۔ مسلم تاریخ سے معمولی شدبد رکھنے والے جانتے ہیں کہ کوفہ سے دعوت نامہ کس مقدس ہستی کے نام لکھا گیا تھا۔ یہاں شاعر ’خط کوفی‘ اور ’کوفہ سے لکھے جانے والے خط‘ میں رعایت لفظی سے کام لیتے ہوئے اقتدار کے کھیل کی اونچ نیچ بیان کر رہا ہے۔ ’شام کا بازار‘ مسلم تاریخ کا معروف باب ہے۔ اسی طرح ’خط عارض‘ خطاطی کا ایک اسلوب ہے جس میں حروف کی گولائیوں کی مدد سے خوبصورتی پیدا کی جاتی ہے ۔ ’حلقۂ گردن‘ سے شاعر کی مراد عوام اور ’عیار کی زنبیل‘ سے حکمران طبقے کے استحصالی ہتھکنڈے مراد ہیں۔ اس نظم میں شاعر نے تاریخی تلمیحات کی مدد سے عوام دوست شعور کا اظہار کیا ہے۔ نظم کا مکمل متن حاضر خدمت ہے لیکن پہلے کچھ مزید ذکر محمد انور خالد کا…
اردو شاعری کے پڑھنے والے محمد انور خالد سے کچھ ایسے نا آشنا نہیں تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے تناظر میں خالد انور نے ’بخت خاں آنکھ اٹھائو کہ ہرا جنگل ہے‘ جیسی سطر لکھی تھی۔ ہوائی جہاز کے حادثے میں ضیاالحق رخصت ہوئے تو انور خالد نے لکھا ’تو وہ ایسے گیا جیسے زمیں سے گھاس جاتی ہے‘۔ اختر حسین جعفری اور ثروت حسین کے بعد محمد انور خالد نے اردو نظم کی آبرو بڑھائی۔
انور خالد 1952ء کے برس میں دریا، گھاٹ اور کشتیوں کی اس اٹھلاتی ، گنگناتی دھرتی پر پیدا ہوئے تھے جو کبھی مشرقی پاکستان کے نام سے جانی جاتی تھی۔ پاکستان دو لخت ہوا تو وہ باقی ماندہ پاکستان چلے آئے۔ اس آشوب میں وہ سب دیکھا اور جھیلا جو اجتماعی خطائوں کی پاداش میں فرد پر گزرتا ہے۔ انگریزی ادب میں اعلیٰ تعلیم پانے والے محمد انور خالد کراچی میں تدریس کے شعبے سے وابستہ تھے۔ فلسفے سے شغف تھا اور زندگی کرنے کا ہنر جانتے تھے۔ واردات کے کاٹ دار بیان اور تاریخی شعور سے ’ریت کے آئینے‘ پر آج کی تصویر کے خدوخال تراشنے والے محمد انور خالد کی شخصیت میں وہ متانت تھی جو وجود اور فنا کی جدلیاتی کشاکش کے گہرے ادراک سے کشید کی جاتی ہے ۔ محمد انور خالد کا مجموعہ کلام ’ریت آئینہ ہے‘ کے عنوان سے 1993 میں کراچی سے شائع ہوا تھا۔
حسن ، امن اور انسانی آسودگی کا خواب دیکھنے والوں نے، اب سے کوئی ڈیڑھ دہائی قبل، یہ خبر گہرے دکھ سے سنی تھی کہ اب کوئی خط کوفی میں شام کے بازار کا حال نہیں لکھے گا کیونکہ فلسفہ و فکر کی تنسیخ پر کڑھنے والا محمد انور خالد 4اگست 2005ء کی شام اس کھونٹ نکل گیا تھا جہاں ہری گھاس پر دھانی بادلوں کی چھائوں رہتی ہے ۔ گیانی لوگ کہتے ہیں کہ شاعر کی مٹی پر بارش کی بوندیں مسلسل برستی ہیں۔
لیجئے محمد انور خالد کی نظم پڑھیے
میں نے گرتی ہوئی دیوار پہ تحریر کیا
جس نے آثار صنادید لکھی ہو وہی اسباب بغاوت لکھے
اس سے پہلے مگر اک رسم ملاقات بھی ہے
یہ بڑھاپے کی سزا ہے کہ جوانی کا عذاب
طشت میں پھول ہیں اور سر پہ سفر کا سورج
اور جو باقی ہے وہ عیار کی زنبیل میں ہے
میں محلات و عمارات سے تجرید کیا
جس نے تاریخ فرشتہ لکھی
وہی دربار عزازیل کا قصہ لکھے
خط کوفی میں لکھے شام کے بازار کا حال
نسخ میں فلسفہ و فکر کی تنسیخ لکھے
خط عارض میں لکھے حلقہ گردن کی گرفت
اسی گردن کی جو عیار کی زنبیل میں ہے
میں نے زنبیل پہ تحریر کیا
جس نے آثار صنادید لکھی ہو، وہی اسباب بغاوت لکھے
۔
بشکریہ ہم سب
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر