ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنگن میں تیز دھوپ پھیلی تھی۔ تخت پہ بچھی چادر پہ کٹی ہوئی ہری کیریوں کا ڈھیر پھیلا ہوا تھا، ساتھ میں ہری مرچیں اور لیموں بھی رکھے تھے۔ ایک طرف دو خواتین مصالحے کا ڈھیر لگائے بیٹھی تھیں۔ کلونجی، میتھی دانہ، سرسوں کا تیل، نمک مرچ، ہلدی کا تناسب طے ہو رہا تھا۔ مٹی کے دو بڑے مرتبان بھی قریب موجود تھے۔
پاس بیٹھی ایک نوعمر لڑکی اپنی متجسس آنکھیں گھماتی بالآخر پوچھ ہی بیٹھی،
“اماں آپ کو اچار ڈالنا کس نے سکھایا؟”
دونوں میں سے ایک نے جواب دیا،
“تمہاری نانی نے…. “
“اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ مجھے بھی سکھائیں گی؟”
“اگر تم سیکھنا چاہو تو…”
“اچھا ترکیب تو میں لکھ لوں گی، کسی اور بات کا خاص خیال رکھنا ہو تو بتائیے” لڑکی کی بے تابی عروج پہ تھی۔
“ارے بیٹا، اچھے اچار کے لئے بہت احتیاط کرنی پڑتی ہے۔ ایسا اچار قطعی مزے کا نہیں بنے گا جسے کسی ایسی عورت نے ہاتھ لگایا ہو جسے ماہواری ہو رہی ہو…. “
دوسری خاتون نے جواب دیا،
“ارے آپا، چھوڑیے نا اس بات کو، اسے بھلا کیا سمجھ اس بات کی”
پہلی عورت نے نرم لہجے میں ٹوکا،
لیکن اتنی دیر میں لڑکی کے کان کھڑے ہو چکے تھے اور اگلا سوال تیار تھا،
“یہ ماہواری کیسے کسی چیز کا مزا چھین سکتی ہے؟”
“بس بیٹا، آم کا اچار ڈالنا بہت نازک کام ہے۔ اگر نجس عورت اچار ڈالے تو اکثر پھپھوندی لگ جاتی ہے اور اچار مزے کا بھی نہیں بنتا”
دوسری عورت نے جواب دیا۔
“یہ کیا بات ہوئی؟”، لڑکی منہ سکوڑ کے بولی،
“ارے بیٹا، گندے خون کا اخراج ہو رہا ہوتا ہے نا۔ سو ایسے میں عورت کا ہاتھ اچار کو لگنا مناسب نہیں ہوتا”
“لیکن یہ کس نے کہا کہ ماہواری کا خون گندا ہوتا ہے۔ وہ تو وہی خون ہے جو باقی رگوں میں دوڑ رہا ہوتا ہے”
سائنس کی طالبہ جلدی سے بولی،
“اف توبہ، بچی تم تو بال کی کھال اتارتی ہو” دوسری عورت زچ ہوتی ہوئی بولی۔
“اور اسی خون سے پیٹ میں بچہ خوراک حاصل کرتا ہے سو مطلب یہ ہوا کہ وہ بچہ ماہواری کے گندے خون پہ پلتا ہے، پھر تو بچے میں بھی بہت سی خرابیاں ہونی چاہئیں”
“بہن اپنی بیٹی کو خود سمجھاؤ، میری تو اتنی ہمت نہیں کہ اس سے بحث کروں “
“دیکھیے نا پھوپھی اماں، اگر ماہواری کے گندے خون کا کلیہ اچار کے لئے درست ہے تو اس بچے کے لئے کیوں نہیں جو نو ماہ اسی خون سے کھانا کھاتا ہے اور اسی خون میں سانس لیتا ہے”
“بہن میں تو جا رہی ہوں، اپنی بیٹی کو خود سنبھالو اب”
اماں اور پھوپھی سے کی گئی بحث سے جڑی یہ کتھا آج یوں یاد آئی کہ ایک خبر نظر سے گزری جس نے پھر سے یہ سوچنے پہ مجبور کر دیا کہ پدرسری معاشروں نے عورت کو ارزاں کرنے کے کیا کیا انداز اختیار کیے۔
صدیوں تک چین میں عورت کے پاؤں توڑ موڑ کے آہنی جوتے پہنائے گئے تو دنیا کے ایک بڑے حصے میں مذہب کے نام پر ختنے کیے گئے۔ سرزمین عرب میں نوزائیدہ کی قبریں کھودی گئیں تو برصغیر میں سوارہ اور کاری کی رسومات ایجاد کی گئیں۔ ایک طرف مرد کے دنیا سے رخصت ہونے پہ عورت کو بھی ساتھ ہی جلانے کا فیصلہ کیا گیا تو دوسری طرف ماہواری کو عورت کے لئے شرم اور گندگی کا پیراہن بنا دیا گیا۔
ہمارے یہاں تو بات عورت کو ناپاک کہہ کر اور روایات کا کفن پہنا کر ماہواری کے دنوں میں عورت کو حقارت کی نظر سے دیکھنے اور کچھ معمولات میں پابندی تک رہی لیکن دنیا کے کچھ حصوں میں انہیں ماہواری کے ایام میں ویرانوں میں ڈیرا ڈالنے پہ مجبور کر دیا گیا جب تک ماہواری کا خون آتا رہے۔
یہ خبر سرحد پار کے ایسے کچھ علاقوں کی ہے جہاں ماہواری کے دنوں میں عورت کو گھر سے باہر نکال جاتا ہے۔ ان کے لئے کھانا پکانا ممنوع اور پانی کا کنواں ان کی دسترس سے باہر ہوتا ہے کہ کہیں ناپاک عورت کی وجہ سے کنواں ہی خشک نہ ہو جائے۔ مرد حضرات ایک فاصلہ رکھ کر بات کرتے ہیں کہ چھو لینے کی صورت میں وہ بھی نجس ہو جائیں گے۔
خستہ حال گھاس پھوس کی جھونپڑیوں میں قیام جہاں زندگی کی بنیادی سہولیات تو درکنار، سر پہ بنی چھت برسات کی بارش تک کا رستہ نہیں روک سکتی۔ رینگتے ہوئے سانپ اور بچھو، تاریکی، آندھی طوفان، جنگلی جانوروں کی دہاڑیں اور تنہا لرزتی لڑکیاں اور عورتیں! جن کا قصور محض یہ ہے کہ ان کے جسم سے ہر ماہ کچھ دنوں کے لئے خون کا اخراج ہوتا ہے جو افزائش نسل کا ذریعہ بھی ہے۔ ایک ایسا جسم جو عورت نے خود منتخب نہیں کیا اور جو قدرت، قضا وقدر اور فطرت کی ملی بھگت کا کمال ہے۔
“آدھی رات کا وقت اور آسمان کو چھوتی چیخ و پکار! وہ ہماری ساتھ والی جھونپڑی میں تھی۔ اسے زہریلا سانپ کاٹ چکا تھا اور اب وہ زندگی کی تلاش میں ادھر ادھر دوڑتی تھی۔ اس کے خاندان کے مرد دور کھڑے دیکھتے رہے۔ وہ اسے ہاتھ نہیں لگانا چاہتے تھے کیونکہ وہ ماہواری کے دنوں میں تھی، ناپاک!
آہستہ آہستہ زہر جسم میں پھیلتا گیا، چہرہ نیلا پڑتا گیا، آنکھیں درد اور اذیت سے کھنچتی چلی گئیں، سسکیاں دم توڑتی گئیں، وہ زمین پہ لیٹی ایڑیاں رگڑتی رہی اور پھر اس نے آخری سانس لیا”
“وہ بری طرح چیخ رہی تھی اور جنگلی ریچھ اسے اٹھا کر لے جا رہا تھا۔ ہم تو کانپنے اور دعائیں مانگنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ دو دن بعد اس کے جسم کے بچے کھچے ٹکڑے جھاڑیوں میں پھنسے ہوئے ملے”
ان واقعات سے ہم محض یہ کہہ کے منہ نہیں موڑ سکتے کہ ہمارے یہاں ایسا نہیں ہو رہا۔ اگر ویسا نہیں ہو رہا تو بہت کچھ ایسا ہے جو عورت کو اسی طرح موت کے منہ میں دھکیل دیتا ہے۔ آخر کچھ دہائیاں پہلے ہم ایک ہی علاقے میں اکھٹے رہنے والے لوگ تھے اور مذہب اور نسل کے فرق کے باوجود خیالات اور آئیڈیالوجی میں آج بھی کچھ خاص فرق نہیں۔ اچار کو ہاتھ نہ لگانے دینا اور کچن میں جانے کی اجازت نہ دینا اس کی چھوٹی سی مثال ہیں۔
کیا ایسا نہیں لگتا کہ اس دنیا کے ہر دن کا ہر لمحہ ہر عورت کے لئے پل صراط ہے اور اسی لئے سوالوں کے کلبلاتے سانپ عورت کو ڈستے ہیں۔
پوچھنے کا حق تو بنتا ہے نا کہ عورت کو اس قدر ذلیل و رسوا کرنے کا خیال و اختیار کس کے ہاتھ میں ہے؟
کیا خالق نے اپنی ایک مخلوق کو اس لئے پیدا کیا کہ اس جیسی دوسری مخلوق اسے نیچ جان کر اس پہ ہر طرح کا جبر روا رکھ کے اپنے اندر کی آگ کو ٹھنڈا کر سکے ؟
ہمارا سوال یہ ہے کہ ماہواری بنانے والے نے معاشرے کی نظر میں نجس ٹھہرنے والا نظام بنایا ہی کیوں؟ کیا کارخانہ قدرت میں کوئی متبادل ممکن نہیں تھا؟
ڈریے اس وقت سے جب عورت اپنا مقدمہ خالق کی عدالت میں پیش کر کے انصاف کی طلبگار ہوگی ؟
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر