وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وبا کے دن ہیں۔ عورتیں مرد، بچے بوڑھے اور امیر غریب قطار باندھے رخصت ہو رہے ہیں۔ سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ ہمیں ان کی موت کا صدمہ زیادہ شدت سے محسوس ہوتا ہے جو ہمارے قریب تھے، جن کے ہونے سے ہمارے ہونے کی تصویر مکمل ہوتی تھی۔ سب کو ایسا ہی لگتا ہے کہ وبا گویا چن چن کر ہمارے پیاروں کو چھین رہی ہے۔ پندرہ مہینے کی اس آزمائش میں اتنے دوست، اتنے پیارے اوجھل ہوئے ہیں کہ اب تو شمار کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ ہر صبح آنکھ کھلتی ہے تو ایک اور سنائونی کے اندیشے سے کانپ اٹھتے ہیں۔ زندگی کی تصویر کے رنگ جگہ جگہ سے تڑخ گئے ہیں۔ دکھ کے اپنے غمزے ہوتے ہیں۔ جینے والوں کو ابھی اور بھی جینا ہو گا۔ قدرتی آفات اور حادثات کا ظلم بنی آدم کے ساتھ ساتھ چلا ہے، ہماری میراث مگر جنگل سے راستہ نکالنا اور اندھیرے میں چراغ جلانا ہے۔ اسی جستجو میں معاشرہ تشکیل پایا، ہنر اور معاش کی راہیں نکالی گئیں۔ اقدار مرتب ہوئیں، ریاست وجود میں آئی۔ ادارے قائم ہوئے۔ علم، آزادی اور انصاف کی مثلث تراشی گئی۔ اس سارے کھٹراگ کو ایک لفظ میں سمیٹنا چاہیں تو وہ ہے “سیاست”۔
درویش کی نسل نے آنکھ کھولی تو شہر میں جا بجا ایک تختی نصب تھی۔ “سیاسی گفتگو منع ہے”۔ سیاست گویا ایک برائی قرار پائی تھی۔ شہری کی انسانیت کا نشان طوق میں بدل گیا تھا، سیاست سے مگر مفر نہیں۔ سیاسی اظہار پر پابندی سے دراصل فیصلہ سازی پر اختیار اور وسائل پر اجارے کی موجودہ ترتیب کو دوام بخشنا مقصود ہوتا ہے۔ نذیر عباسی کی سیاست جرم ہے، امتیاز بلا آزاد ہے۔ احمد بشیر کا کالم تخریب کاری ہے، پریس ٹرسٹ کی یبوست شرافت کی صحافت ہے۔ سیاسی جماعتیں کالعدم ہیں، مجلس شوریٰ کی تخلیق روا ہے۔ پارلیمنٹ میں تالہ بندی ہے، بلدیاتی ادارے کام کر رہے ہیں۔ بیری براجے راج سنگھاسن / تم ماٹی میں لال…. بچے کو ہمکنے، کلی کو چٹکنے اور کوئل کو کوکنے سے مگر کون روک سکتا ہے۔ یہ تو ایسا ہے جیسے روشن آرا بیگم کو گانے سے روک دیا جائے، صادقین کا موقلم ضبط کر لیا جائے۔ فیض کے مصرعے سے درد خارج کر دیا جائے۔ غالب کے لئے کوئے ملامت پر ناکہ لگا دیا جائے۔ میر صاحب یاد آ گئے۔ چلا نہ اٹھ کے وہیں چپکے چپکے پھر تو میر / ابھی تو اس کی گلی سے پکار لایا ہوں۔
وطن عزیز کی سیاست میں بڑے فیصلوں کا مرحلہ آن پہنچا ہے۔ چار بنیادی سوالات ہیں۔ افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کا انخلا شروع ہو چکا۔ نتیجہ جو بھی ہو، وہاں گھمسان کا رن پڑے گا۔ 2640 کلومیٹر کی سرحد ہماری سانجھی ہے اور معلوم تاریخ کی تصویر غبار آلود ہے۔ حالیہ برسوں میں ہمیں 1979، 1989 اور 2001 میں افغان پالیسی مرتب کرنے کا موقع ملا تھا۔ ہم نے ہر بار ٹھوکر کھائی۔ اب ایک طرف مغرب سے وابستہ معاشی اور سیاسی مفادات ہیں، دوسری طرف طالبان کے تصور سیاست کا خارزار ہے۔ جو بھی فیصلہ کیجئے، مقامی ترجیحات کی بجائے وسیع تر تصویر پر آنکھ رکھیے۔ دوسرا معاملہ قومی سیاست سے تعلق رکھتا ہے۔ جولائی 2018ء تو اب ماضی ہے اور 2023 دور نہیں۔ کوشش کرنی چاہیے کہ انتخابی عمل کم از کم ایسا شفاف ضرور ہو کہ ہمہ وقت حکومت کے جواز پر لپا ڈگی کی بجائے پالیسی اور قانون سازی پر توجہ دی جا سکے۔ سنیاسی بابا کی کیمیا گری کی بجائے دستوری تشخیص پر اعتماد کرنا چاہیے۔
سیاست مسلسل الزام تراشی کی مشق نہیں۔ ایک وفاق اور ایک دستور کے دھاگے سے بندھے ہیں تو بہت سے امور معاملہ فہمی کا تقاضا کرتے ہیں۔ دریائے سندھ کا پانی ہی لیجئے۔ ایک معاملہ 1947 سے 1991 تک لٹکا رہا۔ پاکستان سے محبت کرنے والے وفاق کی ہر اکائی کا ایک جیسا احترام کرتے ہیں لیکن مانیے کہ سندھ کا پانی ہو یا این ایف سی ایوارڈ یا فاٹا انضمام کے بعد نشستوں کی تقسیم، پانچ دریاﺅں کی زمین نے دریا دلی کا مظاہرہ کیا۔ اب بھی یہ معاملہ انتظامی یا عدالتی سطح پر نہیں، سیاسی مشاورت سے سلجھے گا۔ دریائوں کے بالائی اور زیریں حصوں میں پانی کی تقسیم کا مسئلہ ایسا پیچیدہ ہے کہ اقوام متحدہ بھی اس کے ضابطے متعین نہیں کر سکتی۔ دجلہ اور فرات پر ترکی، شام اور عراق میں تنازع یاد کیجئے۔ ہمارے شکوے تو ایک وفاق کی اکائیوں میں باہم اعتماد کے بحران سے تعلق رکھتے ہیں۔ نعرے اور تعصب کو ہوا دینے کی بجائے میز پر بیٹھ کر طے ہو سکتے ہیں۔ ادھر وزیرستان میں دکھیارے سڑک پر بیٹھے ہیں، کوئی ہے کہ ان کے سر پر ہاتھ رکھے۔ بلوچستان کو ریاستی طاقت سے چلانا ہے یا منصفانہ سیاسی اور معاشی حقوق کی بنیاد پر آگے بڑھ کر گلے لگانا ہے۔ سیاست میں اختلاف غداری نہیں ہوتا۔ سیاست نام ہی مفادات اور تحفظات پر مکالمے کا ہے۔
تیسری جہت معاشی بحالی اور ترقی کی ہے۔ اعداد و شمار کا کھیل ایک طرف رکھ کے سوچنا چاہیے کہ پائیدار بنیاد پر ملک کو کیسے آگے لے جانا ہے۔ سرمایہ کاری، پیداوار اور برآمدات کے اشاریے کیسے استوار کرنا ہیں۔ ایک راستہ بڑے سرمایہ دار سے گٹھ جوڑ کا ہے، اس میں سیٹھ کی تجوری ہری ہو جائے گی، معاشی انصاف کی ضمانت نہیں۔ متبادل یہ ہے کہ تعلیم، صنفی مساوات، جمہوری ثقافت اور شفاف انتظامی بندوبست کی مدد سے 22 کروڑ آبادی کے معاشی امکان کا دروازہ کھولا جائے۔ روانڈا، ویت نام اور بنگلہ دیش ترقی کا راستہ پکڑ سکتے ہیں تو ہم نے کس کی بھینس چوری کی ہے؟
چوتھا معاملہ صحافت کی آزادی سے تعلق رکھتا ہے۔ طے کر لیجئے کہ صحافت تمدنی خدمت کا ادارہ ہے یا حکومت وقت کا اشتہار۔ ریاستوں کے معاملات ناگزیر طور پر اخفا کا تقاضا کرتے ہیں۔ آزاد، ذمہ دار اور قابل بھروسہ ساکھ رکھنے والی صحافت ایک زندہ قوم کے ضمیر کی گواہی ہوتی ہے۔ یقین رکھیے، پاکستان ذہین، محنتی، انصاف پسند اور شکرگزار لوگوں کا ملک ہے۔ یہ دریائوں کی زمین ہے۔ دریا کشادگی، آسودگی اور بڑھتے پھیلتے امکانات کا استعارہ ہے۔ ناانصافی، امتیازی سلوک اور استبداد اٹھلاتے دریائوں کو ناقابل عبور خلیج میں بانٹ دیتے ہیں۔ ہمیں دریا اور خلیج میں انتخاب کرنا ہے۔
بشکریہ ہم سب
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر