ارشادرائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ روز فیس بک پر میں نے ملالہ یوسفزئی کے حوالے سے ایک چھوٹی سی کیپشن شیئر کی جس کا رد عمل یہ تھا کہ لوگوں نے ملالہ کے ساتھ ساتھ مجھے بھی فحش گالیاں دینا شروع کر دیا اس بات سے میرا یقین پختہ ہوگیا کہ میری بات درست ہے کیونکہ سچ کہنے پر تو پیغمبر خدا کو بھی لوگوں نے پتھر مار مار کر لہولہان کردیا تھا تو میری کیا حیثیت ہے میں سمجھتا ہوں کہ اس کے پس پردہ ویسے تو کئی وجوہات ہو سکتی ہیں مگر یہاں سب بڑا اور بنیادی مسلۂ جہالت اور تعلیم کا نہ ہونا ہے اورملک کے اکثر مسائل بھی جہالت اور تہذیبی پس ماندگی کے باعث لاینحل ہیں اس کا ادراک اور اندازہ ہم اس بات سے بخوبی لگا سکتے ہیں کہ آج بھی ہمارے دیہاتوں اور شہروں میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو لکھنے پڑھنے کی مخالفت کرتے ہیں اور تعلیم کو گناہ سمجھتے ہیں جس سے زندگی کی اعلی اقداراور سماجی قدروں کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے
اس صورت حال کی ذمے داری ہمارے معاشرے کی ساخت پر عائد ہوتی ہے جس معاشرے میں علم کو سیہ بختی کے نشان کی حیثیت حاصل ہوجاۓ جہاں ترقی اور خوشحالی کا ہر راستہ علم کے مخالف سمتوں سے گذرتا ہو وہاں اس کے علاوہ بھلا اور کس بات کی توقع کی جا سکتی ہے ایک بات اور بھی ہے کہ ہم نے ابھی تک آزاد اور خودمختار قوموں کی طرح زندگی بسر کرنا ہی نہیں سیکھا چہ جاۓ کہ ایک آزاد قوم کی حیثیت سے بہتر نظام حیات اور سماجی قدروں کا انتخاب کہ یہ منزل تو اس وقت آتی ہے جب قوم کو آزادی کی حقیقی معنویت کا پوری طرح ادراک حاصل ہو چکا ہو ہم تو اب تک یہ بھی نہیں جانتے کہ ہمیں کس بات سے اتفاق اور کس بات سے اختلاف کرنا چاہیے مگر میں ان بے چاروں کو قصور وار نہیں سمجھتا کیونکہ سارا قصور ان کی جہالت کا ہے ہم جہالت کے باعث عہد جدید کے ایک خوش حال معاشرے کا تصور بھی نہیں کرسکتے ہم سوچ ہی نہیں سکتے کہ ہمارے حقوق کیا ہیں اور کیا کچھ ہم سے چھیںن لیا گیا ہے
یہاں تو جہالت کا یہ حال ہے کہ اگر کوئی صاحب ریش بزرگ یہ نعرہ لگا دے کہ انسان فانی ہے اور کوئی فانی مخلوق خلا کی بلندیوں تک نہیں پہنچ سکتی اور روس اور امریک کے سائنسدانوں نے تسخیر خلا کا قصہ مشہور کرکے ہمیں بے وقوف بنایا ہے تو ہمارے ملک کی بیشتر عوام یہ ارشاد سن کر تعظیم وعقیدت سے سر نگوں ہو جاۓ گی
جدید علم اور ساننسی علوم کی ترقیوں کی دشمنی اور بدخواہی ہماری رگوں میں خون کی طرح دوڑ رہی ہے جدید عہد کی اعلی سماجی اور سیاسی اخلاقیات کے ساتھ ہمارا برتاؤ منافقانہ ہے ہمارا بس نہیں چل رہا ورنہ ہم انسانیت اور انسانی اقدار کو پھر اس تاریک عہد میں پہنچا دیں جہاں نیزہ بردار وحشی ایک دوسرے پر حملہ آور ہوا کرتے تھے ہمارا روشن خیال اور جدیدیت پسند طبقہ قدامت پرست اور رجعت پسند طبقے سے خائف ہے ان کی شدت پسندی اور رجعت پسندی سے روشن خیال طبقے کی جانیں ضائع ہوئی ہیں اور ہونے کا خطرہ ہے اس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں.
میں اس کا ذمہ دار صرف اور صرف جہالت اور تعلیم کی کمی کو سمجھتا ہوں میں سمجھتا ہوں کہ جدید علم ریسرچ اور تحقیق کے شاندار نتائج کو سامنے رکھ کر اعلی اقدار تہذیب ثقافت اور سماجی قدروں کی تدبیریں سوچی جا سکتی ہیں لوگوں کو جدید علم اور سائنس کے کرشموں سے روشناس کرا کر جہالت عدم تحفظ عدم برداشت جیسے رزائل سے پاک کیا جا سکتا ہے اس پر کام کرنے کیلۓ فی الفور تعلیمی نصاب میں ضروری تبدیلیاں لازمی ہیں اور اگر اس پر سنجیدگی اور ٹھوس بنیادوں پر کام کیا جاۓ تو انشااللہ ہماری آنے والی نسلیں ان رزائل سے محفوظ اور پاک ہو سکتی ہیں –
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی