نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

غزہ کے بچوں کو تو بس ڈر لگتا ہے||فہمیدہ یوسفی

بچپن بھی کتنا معصوم ہوتا ہے نا جب بھی ارد گرد کسی بچے کی ہنسی سنو تو لگتا ہے کہ زندگی میں سب رنگ بھر گئے ہیں ۔ ننھے ننھے قدموں کی آہٹوں سے آنگن میں شور ایسے لگتا ہے جیسے پرندے چہچارہے ہیں

فہمیدہ یوسفی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

بچپن بھی کتنا معصوم ہوتا ہے نا جب بھی ارد گرد کسی بچے کی ہنسی سنو تو لگتا ہے کہ زندگی میں سب رنگ بھر گئے ہیں ۔ ننھے ننھے قدموں کی آہٹوں سے آنگن میں شور ایسے لگتا ہے جیسے پرندے چہچارہے ہیں 

ان معصوموں کوتو گھر سے باہر آزادی سے دوڑنا بھاگنا اچھا لگتا ہے تتلیاں جگنو پکڑنا اچھا لگتا ہے،  آئس کریم والے کی آواز سن کر ضد کرنا اچھا لگتا ہے اپنی اپنی شرارتوں پر ماں کی مصنوعی غصے بھری ڈانٹ کھنا اچھا لگتا ہے۔ اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنا اچھا لگتا ہے ۔

کون بچہ ہوگا جسے اندھیرے اچھے لگتے ہوں جسے یہ پسند ہو کہ اس کے کھلونوں کی جگہ ٹوٹے بکھرے ٹکڑے پڑے ہوں ۔ کون بچہ ہوگا جو چاہے اس کی آواز ماں کی پیار بھری آواز سے نہیں بلکہ فضا میں جاری سفاک بمباری کی آوازوں سے ڈرتے کانپتے روتے اٹھے۔

مگر ہیں ایسے ہزاروں بچے جنہوں نے ایک بار پھر 11 روز دن رات قیامت اپنی آنکھوں کےسامنے بپا ہوتے دیکھی ۔ گھر کے ملبوں تلے اپنے کھلونوں کو ڈھونڈا ان درد اور تکلیف میں اپنوں کو پکارا کوئی سن رہا تھا ان معصوم بے بس آوازوں نے دنیا بھر کے والدین کو تڑپادیا رلادیا ۔ یہ تڑپتے سسکتے ڈرتے بچے غزہ کے ہیں جو ابھی تک اسرائیل کی جانب سے مسلسل 11 روز تک جاری رہنے والی جنگ کے صدمے سے دوچار ہیں

اس وقت غزہ میں جنگ بندی ہوچکی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہاں موجود بچوں نے دن رات اپنے سامنے حملے ہوتے دیکھے کیا وہ ان فضائی حملوں کے نفسیاتی اثرات سے نکل سکتے ہیں؟

اس سلسلے میں ماہرین صحت نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوۓ کہا ہے کہ مسلسل تشدد کے اس سلسلے کے اثرات ان بچوں طویل عرصے تک قائم رہیں گے جبکہ ان کی ذہنی صحت بھی شدید دباؤ کا شکار رہیگی۔

اسی حوالے سے بات کرتے ہوئے شمالی غزہ سےتعلق رکھنے والی 28 سالہ خاتون ہالا شہدا کا کہنا ہے کہ جب ان فضائی حملوں نے غزہ کو نشانہ بنانا شروع کیا تو ان کو 2014 میں ہونے والے اسرائیلی حملوں کی یاد اسی طرح تازہ ہے جیسے یہ “کل” کی ہی بات ہے ۔

واضح رہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ پر جارحانہ فضائی حملوں میں 66 بچوں سمیت 253 فلسطینی ہلاک اور 1،900 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے

دوسری جانب غزہ سے حماس کے فائر کیے گئے راکٹوں سے اسرائیل میں مارے جانے والے 12 افراد میں دو بچے بھی شامل ہیں

اسرائیلی حملے میں غزہ میں 1،800 رہائشی یونٹوں کو بھی مکمل طور پر تباہ اور برباد کردیا ہے جبکہ کم از کم 14،300 دیگر کو جزوی طور پر منہدم کردیا۔ ہزاروں فلسطینی اقوام متحدہ کے زیر انتظام اسکولوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے ہیں

اگرچہ اسرائیل اور حماس کے مابین 21 مئی کو جنگ بندی ہوئی تھی ، لیکن بہت سارے خاندانوں کو بدستور پریشانی کا سامنا ہے

خیال رہے کہ 2014 میں غزہ میں ہونے والی 51 روزہ اسرائیلی بمباری میں 500 بچوں سمیت 2،200 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہوگئے تھے۔

ان المناک دنوں کو یاد کرتے ہوۓ ہالا شہدا نے آبدیدہ ہوکر کہا اس وقت ان کی نئی شادی ہوئی تھیوہ چار ماہ کی حاملہ تھیں جب ان کے شوہر ، صحافی خالد حمد ، 20 جولائی ، 2014 الشجاعیہ میں اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہوگئے تھے۔

اسرائیل کے شدید حملوں کی اس سفاک ترین رات میں کم از کم 67 فلسطینی ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوگئے تھے جنھیں فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے اس وقت “قتل عام” کے طور پر بیان کیا تھا

شہدا کا کہنا ہے کہ جنگ دنیا کی بدصورت ترین چیز ہے۔ اور اصل جنگ وہ ہے جس کی یادوں کے ساتھ آپ کو زندہ رہنا ہے۔

شہدا نے مزید کہا کہ غزہ میں ماں بننا بہت مشکل ہے۔ میں ان آوازوں سے خود ہی گھبرا رہی تھی جبکہ جارحیت کے دوران میری بیٹی کی ذہنی حالت شدید خراب ہوئی۔ بموں کی آوازیں سن کر وہ خوف سے روتی تھی ، اب بھی وہ آدھی رات میں چیخ کر اٹھ جاتی ہے میں اس کی تسکین کے لیے پوری کوشش کرتی ہوں ، لیکن اس کو اس طرح دیکھ کر میں اندر سے مررہی ہو

ایک سماجی کارکن اور تین بچوں کی والدہ ، 30 سالہ ریم جرجور نے الجزیرہ کو بتایا کہ وہ اسرائیلی حملوں کے بعد سے اپنے بچوں کے لئے مضبوط رہنے کے لئے جدوجہد کر رہی ہے

ایک اور ماں نے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بچے اپنے والدین کی ذہنی صحت سے بری طرح متاثر ہو جاتے ہیں ، لہذا میں اور میرے شوہر ان کے سامنے اپنا صدمہ چھپانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں ۔

پریشان کن بات یہ ہے کہ غزہ کے بچوں میں صدمے کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ بچوں کی بھوک ختم ہوگئی ہے ، جبکہ بات کرنے میں جھجھک رونا اور بیڈ ویٹنگ سمیت دیگر مسائل سامنے آرہے ہیں ۔

فلسطینی والدین کا ماننا ہے کہ اس جنگ میں ہر ایک اپنی طاقت کھو بیٹھا۔ جبکہ اس ظالمانہ کاراوئی میں بچے سب سے بڑا ہدف تھے۔

فلسطین ٹراما سینٹر برطانیہ کی ماہر نفسیات غدہ ریڈوان کے مطابق فضائی حملوں کے دوران غزہ کے متعدد خاندانوں نے اپنے بچوں کے لئے ذہنی صحت سے متعلق مدد کے لئے اس مرکز سے رابطہ کی

فلسطین ٹراما سینٹر دماغی صحت کے ماہرین کے ذریعہ صدمے اور پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر کو ٹھیک کرنے کے لیے فوکس پر مبنی تربیت فراہم کرتا ہے۔ جبکہ غدہ ریڈوان متاثر اہل خانہ اور بچوں کو تکنیک مہیا کرتی ہے تاکہ ان کی مدد کر سکیں کہ وہ اس سنگین اور مہلک صدمے سے کس طرح سے نجات حاصل کریں اور اپنی ذہنی حالت بحال کریں

تاہم ان کا کہنا ہے کہ شید خوف و ہراس اور شدید خوف سے دوچار متعدد معاملات ہیں جن سے نمٹنا آسان نہیں ہے

این آر سی کے مطابق اسرائیلی فضائی حملوں سے ہلاک ہونے والے 66 میں سے 12 بچے اس پروگرام میں شریک تھے جن کا مقصد غزہ کے بچوں کو پچھلی جنگوں سے صدمے پر قابو پانے میں مدد کرنا تھا

این آر سی نے ایک حالیہ بیان میں کہا کہ غزہ میں بچوں کو ہفتے میں اوسطا پانچ ڈراؤنے خواب آتے ہیں

این  آر سی میں غزہ کے ایریا منیجر ، ہوزائفا یزجی نے کہا کہ 2021 میں غزہ میں بچوں کے لئے ٹراما تھراپی خدمات شروع کرنے کے بعد سے ، NRC نے 118 اسکولوں کے ساتھ کام کیا ہے اس وقت 75،000 بچوں کے لئے مدد فراہم کررہے ہیں۔

لیکن ہمیں حالیہ جارحیت کے بعد اب نفسیاتی مدد کے لیے ایک بہت بڑاخلا کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جن بچوں کی نفسیاتی علاج کی

ضرورت ہے ان کی تعداد میں تین گنا اضافہ متوقع ہے۔”

یز جی نے مزید کہا کہ غزہ کی پٹی میں پیش آنے والے سنگین انسانیت سوز حالات نے بچوں کی ذہنی صحت کی صورتحال کو خراب کردیا ہے ، فوجی حملوں کا سب سے زیادہ اثر بچوں پر پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 14 سالہ طویل اسرائیلی محاصرہ اور اس کے نتیجے میں ، بڑھتی ہوئی غربت کی سطح ، بے روزگاری کی شرح 55 فیصد ، اور خستہ حال صحت کی دیکھ بھال کا نظام کی وجہ سے بچوں کی ذہنی صحت کی بحالی مشکلات کا شکار ہے۔

واضح رہے کہ غزہ کی پٹی میں 18 سال سے کم عمر بچوں کی آبادی 45 فیصد ہے

ماہرین صحت کے مطابق پٹی میں بار بار ہونے والے فوجی حملوں اور تباہ کن حالات کی وجہ سے غزہ کے کم از کم 90 فیصد باشندوں کو ذہنی صحت کی مدد اور علاج کی ضرورت ہے۔

کہتے ہیں کہ بچپن بے فکری کا نام ہے جب کسی قسم کا کوئی ڈر یا خوف نہیں ہوتا لیکن غزہ کے بچوں کو تو بس ڈر لگتا ہ

About The Author