فہمیدہ یوسفی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوچ رہی ہوں میرے لعل کہاں سے شروع کروں کیسے لکھوں اور کیا کیا لکھوں لفظ ہیں سب گڈ مڈ ہوتے چلے جارہے ہیں ۔ آنکھیں ہیں بھیگی چلی جارہی ہیں ، سانسیں ہیں
اس حقیقت سے قطعی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان میں صحافت کرنا کسی بھی دور میں آسان نہیں رہا۔ ہر حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ صحافی صرف ”مثبت رپورٹنگ“ ہی کریں اور سچ وہاں تک محدود رکھیں جہاں تک حکومت وقت کو گزند نہ پہنچے اور بادشاہ سلامت کو برا نہ لگے۔ جی حضوری پر تمغے بٹنا آج کی روایت نہیں اور بغاوت پر سر قلم کرنا بھی کچھ انوکھا نہیں۔ سر جھکا کر چلنے والے رسم وفاداری کے امین اور سر اٹھا کر چلنے والے تو ہر دور کے ہی غدار ہوتے ہیں۔
اقتدار کی شطرنج پر مہرے سجانے والے اور اپنی مرضی سے پیادوں کو آگے پیچھے کرنے والوں کو کھیل میں بگاڑ اچھا نہیں لگتا اور اسی لیے صحافی تو ہر دور میں ہی معتوب ٹھہرے غدار ٹھہرے ایمان فروش ٹھہرے۔ ان میں سے کسی کے مقدر میں جیل، کسی کے نصیب میں کوڑے تو کسی سر پھرے کی نوکری سے برخاستگی اور کسی کسی دیوانے مں صور کے لیے گولیاں بھی لکھ دی جاتی ہیں۔ لیکن یہ بھی تو پاگل ہیں نا کسی صورت ہار ماننے کو تیار نہیں کسی صورت پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں آواز دبا دینے سے آواز بند تو نہیں کی جا سکتی ہے۔ عجیب تماشا ہے جب مسند اقتدار پر ہوں تو یہی صحافی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹکتے ہیں جبکہ جب یہی پیادے مسند اقتدار سے اتر جاتے ہیں تو یہ کانٹے آنکھوں کا تارا بنے ہوتے ہیں
یہ تو آج کا المیہ نہیں ہے یہ تو ہر دور کا دکھ ہے جس کے نشانے پر صرف صحافی ہوتے ہیں انٹرنیشنل میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان کا شمار صحافت کے لیے خطرناک ترین ممالک میں ہوتا ہے اور اس کی ایک اور تشویشناک وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں زیادہ تر دور آمرانہ رہا جس کی وجہ سے جمہوری روایات شاید اس طرح نہیں پنپ سکیں جس طرح ہونا چاہیے تھا۔
ریاستی اداروں کا عمل دخل بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے جبری گمشدگیاں اور ان پر حکومتی خاموشیاں بھی ڈھکی چھپی نہیں ہیں اور اس بات سے ہرگز بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ تعلقات میں سنگین فالٹ لائن موجود ہے۔ جبکہ تاثر یہی ہے کہ جو بھی مزاج پر گراں گزرے یا پھر لگے کہ شاید حدود کراس کر رہے ہیں وہی قصوروار ٹھہرتے ہیں اور ان کو سنگین قسم کے نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تاہم اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ تعلقات میں بہتری کی کوشش اس جانب سے بھی کی جاتی ہی رہی ہے اور آج انگلیاں اٹھانے والے کل وہاں مہمان بن کر موجود ہوتے تھے اور کبھی میزبان بن کر حق میزبانی بھی ادا کرتے تھے۔
اگر انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹ کی 2020 کی رپورٹ پر نظر ڈالی جائے تو پاکستان کے حوالے سے جو صورتحال سامنے آتی ہے وہ کچھ یوں ہے کہ گزشتہ 30 برسوں میں دنیا بھر میں جو صحافی قتل ہوئے ان میں پاکستان، عراق، میکسیکو اور فلپائن کے بعد چوتھے نمبر پر موجود ہے جہاں ان تیس سالوں میں 138 صحافیوں کو قتل کیا گیا ہے۔
فریڈم نیٹ ورک کے مطابق مئی 2020 سے اپریل 2021 کے دوران صحافیوں کو درپیش خطرات اور حملوں میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے اور صرف ایک سال کے دوران 148 ایسے واقعات ہوئے ہیں۔
صحافیوں کے خلاف 148 واقعات میں سے 51 اسلام آباد میں رپورٹ ہوئے ہیں۔
اس دوران سات صحافی قتل ہوئے سات پر قاتلانہ حملے ہوئے، پانچ کو اغوا کیا گیا اور 25 گرفتار ہوئے، 15 کو زدو کوب کیا گیا جبکہ 27 پر مقدمات درج کیے گئے۔
تواتر سے ہونے والے واقعات میں تازہ ترین مبینہ حملہ اسد طور پر ہوا جن کو ان کے فلیٹ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ جبکہ پانچ ہفتے پہلے ابصار عالم کو اسلام آباد میں گولی ماری گئی۔ جبکہ پچھلے سال جولائی میں مطیع اللہ جان کو اغوا کیا گیا اور اسی طرح اعزاز سید کا واقعہ سامنے آیا جس میں انگلیاں ایک جانب ہی اٹھائی گئیں۔
تاہم کیا تصویر کا دوسرا رخ نہیں دیکھنا چاہیے کیا بغیر ثبوت اس طرح ایک طرف انگلیاں اٹھانا درست ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ قانون کے دائرے ان کے لیے نہیں ہیں۔ تو کیا یہاں یہ سوال نہیں بنتا کہ صحافیوں کا بھی دائرہ طے ہو ان کو بھی مفادات کی جنگ میں کسی ایک طرف جھکنا نہیں چاہیے۔ سوشل میڈیا کے دور میں کیا ایک صحافی کا یا میڈیا ادارے کا واضح جھکاؤ ایک جانب ہونا بھی تو شفافیت پر سوال اٹھاتا ہے۔
اسد طور کے حوالے سے حامد میر کی شعلہ بیانی نے ہر طرف آگ لگادی ان کے ساتھ بڑے بڑے صحافی موجود تھے جب اسد طور کے اس مبینہ حملے پر حامد میر ریاستی اداروں کو چیلنج کر رہے تھے۔ مرد کے بچے ہونے کا طعنہ دے رہے تھے گھر کی باتیں بتانے کے اشارے دے رہے تھے۔
لیکن یہاں ایک سوال بنتا ہے اور وہ یہ کہ ملک میں اس وقت 43 بین الاقوامی اور 112 مقامی چینلز موجود ہیں لیکن مالکان کی جانب سے میڈیا ورکرز کی ایک بڑی تعداد کو بے روزگار کیا گیا، کہیں وجہ معاشی تو کہیں وجہ سیاسی دباؤ بنی ہے، تو کہیں میڈیا ورکرز مہینوں سے اپنی تنخواہوں کے لیے در در کی ٹھوکریں کھاتے پھررہے ہیں۔ اس پر کیا اس طرح سے آوازیں اٹھی ہیں؟
مختلف صحافتی تنظیمیں آوازیں اٹھاتی ہیں کبھی ان کی سن لی جاتی ہے اور کبھی نہیں کیونکہ شاید وہ بڑے اور مشہور صحافیوں جتنی مضبوط نہیں ہیں جو نہ صرف مالکان سے بلکہ اقتدار کے ایوانوں سے بھی قریب ہیں۔ جس قدر شعلہ بیانیاں اور آوازیں اسد طور کے لیے اٹھ رہی ہیں کیا عام معمولی صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے لیے اٹھیں جو آج بھی ہاتھوں میں سی وی لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ اس قدر تند و تیز لہجے میں ان مقتدر اور طاقتور حلقوں سے کیوں نہیں پوچھا کی یہ جو تڑپ تڑپ کر سسک کر مر رہے ہیں اس کا ذمہ دار کون ہے؟
اگر انگلیاں اور اشارے اس سمت اٹھ رہے ہیں جس سمت ویگو ڈالا ہے تو پھر یہ سوال ہمیشہ رہے گا کہ ملکی صحافت کے بڑے بڑے ناموں نے آج تک ہزاروں کی تعداد میں فارغ کیے گئے صحافتی ورکرز کے لئے اتنا غصہ کیوں نہیں دکھایا۔ کیوں نہیں پوچھا ریاست سے کیوں نہیں پوچھا اداروں سے کیوں نہیں پوچھا مالکان سے کیوں نہیں کہا کہ مرد کے بچے ہو تو جاب سے مت نکالو۔
کیونکہ شاید یہ عام سے مرتے سسکتے صحافی اتنے اہم نہیں ہیں جتنے اہم کچھ مفادات اور معاملات ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
لینڈ مافیا نے سمندر کو بھی نہیں چھوڑا مینگرووز خطرے میں|| فہمیدہ یوسفی
پاکستان کا سمندری نمک بہترین زرمبادلہ ثابت ہوسکتا ہے۔۔۔ فہمیدہ یوسفی
کون ہیں ہم لوگ ،انسان ہیں یا درندے؟۔۔۔ فہمیدہ یوسفی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر