ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر آپ ہمیں سدھار کے راہ راست پہ لانا چاہتے ہیں تو جان لیجیے کہ اب بہت دیر ہو چکی اور مرض لاعلاج ہو چکا۔ اگر آپ کو ہماری آخرت کی فکر کھائے چلی جار ہی ہے تو تب بھی ہم مجبور ہیں کہ آپ کو اپنے ساتھ قبر میں لے جا نہیں سکتے۔ ایسے میں یہی مشورہ دے سکتے ہیں کہ صبر کے گھونٹ بھریے اور رب سے فریاد کیجیے کہ جس نے ہمیں یہ جرات گفتار عطا کی۔ یقین مانیے وہ سننے والا ہے۔
”میں ایسے بہت سے مردوں کو جانتا ہوں جن کی زندگی ان کی بیویوں نے عذاب بنا رکھی ہے، میں ایسے بہت سے مردوں کو جانتا ہوں جو عورتوں کے ہاتھوں بلیک میل ہو رہے ہیں۔
میں ایسی بہت سی ماؤں کو جانتا ہوں، جنہوں نے اپنے بیٹوں کی زندگی اس لئے تباہ کر دی ہے کہ انہیں اپنی بہو کا راج پسند نہیں اور میں ایسی بہت سی بیویوں کو جانتا ہوں جنہیں اپنی ساس کو دیکھنا گوارا نہیں سو شوہر کا حشر خراب ہے۔
سسٹم کی اصل برائی عورت ہے جسے کنٹرول کرنا ضروری ہے۔ عورت کو اگر معمولی سا اختیار بھی دے دیا جائے تو وہ سسٹم تباہ کر دیتی ہے۔“
برائے مہربانی اپنی سوچ میں توازن لائیے “
ہمارے لئے یہ زہر بجھے الفاظ نئے ہیں نہ لہجہ!
ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی ہمیں یہ درس دینے کے بعد اپنی رائے سے ضرور نوازتا ہے۔ اس امید پہ کہ شاید ہم اپنی عینک تبدیل کر لیں جس کو پہن کر ہمیں مرد حضرات کے وہ بدصورت اور سنگدل رویے نظر آتے ہیں جو ان کے خیال میں حقیقت پہ قطعی طور پہ مبنی نہیں۔ کچھ کے خیال میں نہ جانے ہماری نظر، دماغ اور سوچ اتنی متعصب کیوں ہے؟
ہمیں علم ہے کہ ہماری کڑوی کسیلی باتوں سے بہت سوں کو بہت تکلیف پہنچتی ہے۔ پدرسری سوچ کے مالک زچ ہوتے ہوئے محسوس کرتے ہیں کہ ان کا وہ مقام جو انہیں صدیوں سے عطا کیا گیا ہے، اس میں دراڑیں ڈالنے کی کوشش کرتی ہوئی اس دیوانی کی زبان کو لگام ڈالنے کی ضرورت ہے۔
بالکل اسی طرح جیسے گھر میں پائی جانے والی عورت کی زبان قلم کر کے اور فرمانبردار عورت کا تمغہ پہنا کے اس فخر میں زندگی گزار لی جاتی ہے کہ ہم نے ان بے وقوفوں کو رہنے کے لئے چھت دی، تن ڈھانپنے کو نت نئے لباس، پیٹ بھرنے کو مرغن غذا اور گھر کی عزت کا تاج پہنایا۔ ایسا کرنے کے لئے ہم نے دن رات کام کیا، خون پسینہ بہایا اور اگر ابھی بھی یہ ناشکری عورتیں احسان مند نہ ہوں تو لعنت ہو ان پر!
ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم چاروں طرف سے ایسی عورتوں کے نرغے میں گھرے ہیں جو ایک امید لئے ہماری طرف دیکھتی ہیں اور اگر ہم منہ پھیرنا بھی چاہیں تو دامن پکڑ کر روک لیتی ہیں۔ ہم ان کہانیاں سنانے والی عورتوں کے درد کو کیسے برداشت کریں۔
ہم معاشرے کو کیوں نہ بتائیں کہ گھر کی چاردیواری میں مقید عزت کا تاج پہنے یہ عورتیں وقت گزرنے کے ساتھ جیتی جاگتی انسان نہیں رہتیں۔ وہ زندہ لاشیں بن جاتی ہیں جو اپنی خواہشات اور آرزوؤں کا کفن پہنے اپنے اپنے مالک کو خوش کرنے کی جدوجہد میں نہ صرف مصروف رہتی ہیں بلکہ ان کی ایک نظر کرم کے لئے کسی بازی گر کی طرح ایک تنے ہوئے رسے پہ چلتے ہوئے ہلکان ہوئی جاتی ہیں۔
ہم کیسے نہ لکھیں کہ باپ بھائی کے گھر سے لے کر شوہر اور بیٹے کے گھر تک عورت کا تعلق ہمیشہ مشروط رہتا ہے۔ ذرا زبان کھولی نہیں، اختیار کی چاہ رکھی نہیں، کہ انہیں کنٹرول کرنے کی ضرورت کے تحت یا تو انہی جیسی ایک اور عورت کے ساتھ اکھاڑے میں اتار کے تماشا دیکھا جاتا ہے یا گھر سے بے دخلی کی تلوار سر پہ لٹکا دی جاتی ہے۔ رسوا کرنے کے لئے ایسے اوچھے ہتھکنڈوں کا استعمال اور پھر بھی تنا ہوا سر!
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو یا کرامات کرو ہو
ہم یہ سوال کیوں نہ کریں کہ آپ یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ عورت صرف ایک جسم کا نام ہے اور اس کا دنیا کے معاملات میں عمل دخل محض اتنا ہونا چاہیے جتنا گھر کا مرد خوشی سے اجازت دے۔ گھر سے باہر زندگی کی دوڑ میں اگر وہ حصہ لینا چاہتی ہے تو مرد کی آشیر باد لئے بنا وہ ایسا کرنے کی مستحق نہیں۔ ایسے میں ہم یہ کیوں نہ پوچھیں کہ اختیار اور بے اختیاری کے اس کھیل میں اسے برابر کا موقع کیوں نہ دیا جاتا؟
ہم سائنسی طریقے سے یہ کیوں نہ ثابت کریں کہ عورت اور مرد میں جنسی اعضاء کے علاوہ کوئی فرق ہے ہی نہیں۔ وہ صلاحیتیں جن پہ مرد جھوٹے فخر میں مبتلا ہو کر عورت کو ڈنڈے سے ہانکنے کی آرزو میں ہلکان ہوتے رہتے ہیں، ان کی حقیقت سراب سے زیادہ کچھ نہیں۔
ہمارا کہنا یہ ہے کہ اگر مرد کو اپنی برتری ثابت کرنی ہے تو کیوں نہ ایک ایسا ماحول ترتیب دیا جائے جہاں مرد و عورت کی پرورش صنفی مساوات کی چھتری تلے ہوئی ہو، جہاں کمتری اور برتری کے اس منفی احساس کو زندگی کے پہلے دن سے دور رکھا جائے، جہاں فیصلہ کرنے کی آزادی دونوں کا نصیب ہو، جہاں بے خوفی اور اعتماد کا ہتھیار دونوں کو عطا ہو، جہاں صنف کی بنیاد پہ دھتکارنے کا عمل کسی کی زندگی کا حصہ نہ بنے، جہاں غذا، تعلیم، کیرئیر، شادی اور جائیداد کے فیصلے جسمانی اعضا کے فرق کی بنیاد پہ نہ کیے گئے ہوں، جہاں کسی ایک کو محض جینے کے لئے چومکھی کی جنگ نہ لڑنی پڑے، جہاں کسی ایک کے رستے میں روایات کی آہنی دیواریں حائل نہ ہوں۔
دیہی علاقے کے رہائشی تو دور کا ڈھول ہیں، ہم تو مغربی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل کو نہیں سمجھا سکتے کہ جب دو لوگوں کو مختلف طریقے سے پروان چڑھایا جائے تو ماحول اور رویے کس طرح سے عورت کی شخصیت کو مسخ کرتے ہیں۔ جب زندگی نے دونوں کے لئے ایک جیسے در نہ کھولے ہوں، دونوں کو مواقع یکساں نہ ملے ہوں تو پرواز برابر کیسے ہو سکتی ہے؟
زیرو پوائنٹ سے کہیں آگے کھڑے مرد حضرات کو کس بات کا زعم اور فخر؟ زیرو لائن برابر رکھے بغیر اتنا غرور؟
عورت کو اتنا حقیر سمجھ کے ہم سے میانہ روی کا مظاہرہ کرنے کی فرمائش کرنے والوں سے ہمیں صرف یہی کہنا ہے کہ ہمیں عورت کو ریپ کرنے والوں، عورت کو آگ اور تیزاب میں جلانے والوں، عورت کو نا قص العقل سمجھنے والوں، عورت کو کاری کرنے والوں، عورت کو جسمانی، ذہنی اور جذباتی تشدد کا نشانہ بنانے والوں سے قطعی کوئی ہمدردی نہیں!
آپ لاکھ یہ کہتے رہیے کہ وہ آپ نہیں!
ارے آپ جیسا ہی ہے نا کوئی، آپ ہی کی صنف کا ایک نمائندہ جس نے اپنی جسمانی طاقت اور اختیار سے کام لے کے عورت کو مضروب کیا اور اس پہ زندگی تنگ کر دی۔ آپ کو تو اسی احساس سے شرمندہ ہونا چاہیے کہ آپ کے ہم جنس عورت کو کیسے رسوا کرتے ہیں۔
ضرب پہنچانے والے اور ارزاں سمجھنے والے کے پاس چاہے تاویلات کا ڈھیر ہو مگر جان لیجیے طاقت کی بنیاد پر فاتح تو بنا جا سکتا ہے، عورت کو کنٹرول تو کیا جا سکتا ہے مگر نتیجتاً آپ کے گھر میں رہنے والی عورتیں روح کے بنا ایسی مورت بنیں گی، جو سر جھکائے احکام بجا لائیں گی، چپ چاپ، منہ پہ قفل لگائے، اپنے دائرے کے بیچ میں قید مٹی کی مورتیں۔
ڈریے اس وقت سے جب آنے والے کل میں آپ کی بیٹی تتلی بننے کی بجائے ایسی ہی ایک بے جان مورت میں ڈھلے گی کہ اس کی زندگی پہ اختیار رکھنے والا مالک بھی آپ ہی کی سوچ کا مالک ہو گا!
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر