احمد اعجاز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے لیہ کا دورہ کیا،وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار بھی ہمراہ تھے۔لیہ کی سیاسی تاریخ میں پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے اُمیدوار اپنی اپنی باری پر کامیاب ہوتے رہے ہیں۔یہاں اس شہر میں قومی اسمبلی کے دو اور صوبائی اسمبلی کے پانچ حلقے ہیں۔ہر حلقے میں اعلیٰ تعلیمی ادارے موجود ہیں۔تعلیمی سطح پر اس شہر نے خاصی شہرت سمیٹی ہے۔سرکاری تعلیمی ادارے ہوں ،یا نجی، طلبہ وطالبات کو ہمیشہ اعلیٰ سٹاف میسر رہا ہے ،جس کی وجہ سے لیہ کے طلباوطالبات نے متعدد تعلیمی اعزازات اپنے نام کیے ہیں۔لیہ میں صحت کے مراکز بھی اچھے ہیں ،البتہ سنجیدہ نوعیت کے مریض آج بھی ملتان نشتر ہسپتال میں علاج کرواتے ہیں۔
اس وقت اس شہر کے دوبڑے مسئلے ہیں،پورے شہر کی ،اعجاز اچلانہ کے صوبائی حلقہ کے استثناء کے ساتھ ،سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں،لیہ سے چوک اعظم اور چوبارہ تک سڑک مکمل طورپر بننے والی ہے،اسی طرح لیہ سے کروڑ اور بھکر تک سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔مزید براں ایم ایم روڈ مکمل طورپر تباہ حال ہے۔دوسرا بڑا مسئلہ سیوریج کا ہے۔شہر کی کسی بھی گلی میں گھس کر دیکھیں تو وہ آگے سے گندے پانی سے بھری نظر آتی ہے۔
لیہ کی انتخابی تاریخ اُنیس سوپچاسی کے غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات سے شروع ہوتی ہے ،قبل ازیں لیہ مظفرگڑھ کی تحصیل تھا ،یہ اُنیس سوبیاسی میں ضلع بنا۔1985ء میں این اے131،جو اس وقت این اے 187 ہے، سے جہانگیر خان سہیڑ کامیاب ہوئے تھے ،یہ آزاد حیثیت میں تھے ،مگر اِن کا تعلق پاکستان پیپلزپارٹی سے تھا۔ 1985ء سے 2018ء تک یہاں سہیڑ اور سواگ فیملی کے درمیان معرکہ آرائی رہی،لیکن 2018ء میں مجید خان نیازی نے دونوں خاندانوں کو پیچھے دھکیل دیا اور ایم این اے بن گئے۔
مجید خان نیازی پاکستان تحریکِ انصاف سے وابستہ ہیں۔اس شہر کا دوسرا حلقہ جو موجودہ این اے 188ہے، 1985سے 2018ء تک میرانی ،جکھڑ،تھند،سید خاندان کے پاس چلا آرہا ہے۔
ملک نیاز جکھڑ پیپلزپارٹی سے وابستہ رہے ،مگر اس وقت یہ پی ٹی آئی میں ہیں ،یہ پارٹیاں تبدیل کرتے چلے آرہے ہیں ،جبکہ سید ثقلین بخاری پی ایم ایل این سے وابستہ ہیں۔ موجودہ حلقہ این اے 187میں سہیڑ خاندان نے اپنی وفاداری تبدیل کرنے میں کبھی ہچکچاہٹ نہ دکھائی ،حالانکہ یہ خاندان پیپلزپارٹی کی پہچان تھا،پھر ق لیگ اور دوہزار اَٹھارہ میں بہادر خان سہیڑ پی ٹی آئی کا ٹکٹ لینے کا جتن کرتے رہے،اس ضمن میں سہیڑ خاندان کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا اور مجید خان نیازی آخری لمحوں میں ٹکٹ لینے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
سہیڑ خاندان پڑھا لکھا ہے ،بہادر خان سہیڑ سے چند ایک ملاقاتیں ہیں ،یہ پڑھے لکھے سیاست دان ہیں ،لیکن اس خاندان نے روایتی طرز کی سیاست کی ہے ۔جب کہ اسی حلقہ سے اولکھ اور سواگ خاندان شرافت کی سیاست تو کرتا رہا ہے ،مگر یہ دونوں خاندان حلقے کے عوام کی بڑی خدمت کرنے سے محروم ہی رہے ہیں۔
اسی طرح موجودہ حلقہ این اے 188میں جکھڑ خاندان زیادہ تراجارہ داری کا ثبوت دیتارہا،ملک نیاز جکھڑ شخصی سطح پر شریف اور اچھے انسان ہیں ،مگر ان کے کریڈٹ پر ہمیشہ مفادات کی سیاست رہی ہے ،تھند خاندان اور سمرا خاندان کی سیاست تقریباً ختم ہوچکی ہے۔جبکہ بخاری خاندان ،جن کی نمائندگی ثقلین شاہ بخاری کرتے ہیں،عوام کی خدمت سے معذور رہے ہیں۔ لیہ میں کوٹ سلطان سے وابستہ اعجاز اچلانہ کی سیاست پی ایم ایل این کے پلیٹ فارم سے منسلک رہی ہے ،یہ صوبائی سیٹ پر فتح مند چلے آرہے ہیں ،اعجاز اچلانہ کے حلقہ کی سڑکیں ،تعلیمی ادارے اور ہسپتال بہت بہتر دکھائی دیتے ہیں ،اعجاز اچلانہ نے تعلیمی میدان میں لوگوں کی بہت خدمت کی ہے۔یہ تھانہ کچہری کی سیاست بھی نہیں کرتے۔
قومی اسمبلی کے دونوں حلقوں میں پیپلزپارٹی کاووٹ بینک رہاہے ،بڑے خاندان پی پی پی سے وابستہ رہے ہیں ،مگر دوہزار اَٹھارہ میں یہاں سے اُمیدوار ملنا مشکل ہوگئے تھے۔رمضان بھلر جو سیاست میں نووارد تھے ،پی پی پی کی این اے کی سیٹ پر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب رہے ۔جبکہ دونوں قومی اسمبلی کے حلقوں میںپی ایم ایل این کا ووٹ بینک موجود ہے۔2018ء میں دونوں حلقوں میں پاکستان تحریک انصاف نے کامیابی سمیٹی ،مگر دونوں حلقوں کے ایم این ایز کی کارکردگی کا ثبوت آمدہ انتخابات میں ملے گا۔
لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ دونوں حلقوں کے موجودہ ایم این ایز سے عوام خوش نہیں ہیں ۔ایک ایم این اے کا رویہ تو بہت ہی غیر انسانی ہے۔اس شہر میں پی ٹی آئی کا ایک ایسا ورکر بھی ہے ،جس کو پارٹی نے ہمیشہ نظر انداز کیا اور وہ صوبائی سیٹ پر آزاد حیثیت سے لڑ کر دوسری پوزیشن لیتا رہا،اس اہم سیاست دان کا نام ہاشم سہو ہے ،ہاشم سہو لیہ کے صوبائی حلقے میں نوجوانوں ،مزدوروں،کسانوں کا صحیح نمائندہ ہے۔اسی طرح افتخار علی خان بابر کھیتران پی ٹی آئی کا فخر ہیں۔بابر کھیتران پی پی پی میں رہے ،مگر پھر پی ٹی آئی میں آگئے۔جو ایم پی ایزاس وقت پی ٹی آئی کی جانب سے پنجاب حکومت کا حصہ ہیں ،وہ نووارد ہیں اور فضا دیکھ کر اپنی وفاداری تبدیل کرنے میں ذرابھی تامل نہیں کریں گے ،چوک اعظم کا ایک ایم پی اے ،اس وقت جہانگیر خان ترین گروپ کا حصہ ہے۔پی ٹی آئی کو شہری حلقوں میں افتخار علی خان بابر کھیتران اور ہاشم سہو پر فوکس کرنا ہوگا،ورنہ اگلا الیکشن ن لیگ مکمل طورپر پی ٹی آئی سے چھین سکتی ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان کو لیہ کی سرزمین کے بارے معلوم تو ہوگا کہ یہاں رواداری کا کلچر رہا ہے ،یہاں کے لوگ صحراکی وسعت کے حامل ہیں ،یہاں سیاسی کلچر مضبوط رہا ہے ،یہاں کے دانشور سیاسی کلچر کا حصہ رہے ہیں ،جس کی تازہ مثال ،بے نظیر شاعر اشولال ،بے نظیر کی جماعت کے پیپلز کلچرل ونگ جنوبی پنجاب کے صوبائی صدر قرار پائے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
بندگلی میں دَم کیسے گھٹتا ہے؟۔۔۔احمد اعجاز
حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز
حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر