ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“اس نے ہمیں بہتر ماں بننے میں ہماری مدد کی”
یہی کہا تھا نا ہم نے کچھ عرصہ پہلے، اور بخدا غلط نہیں کہا تھا۔ اصل میں کہنے اور بتانے کو اتنا کچھ ہے کہ لاکھ چاہنے کے باوجود کچھ نہ کچھ تشنہ لبی رہ جاتی ہے۔
بات کچھ یوں ہے کہ تخلیق کا یہ ہنر ہماری سائیکالوجسٹ بیٹی نے استعمال کیا اور ان بدصورت دھبوں کو مٹانے کی کوشش کی جو ماں باپ اپنی لاعلمی سے بچوں کی شخصیت پہ ڈالتے ہوئے احساس بھی نہیں کر پاتے کہ کچی مٹی سے بنے وجود میں دراڑیں پڑ رہی ہیں۔ جو وقت گزرنے کے بعد کچھ بھی کر لیا جائے، پاٹی نہیں جا سکتیں۔
تربیت کا انداز ایک آئینہ ہے جو یہ دکھا سکتا ہے کہ ہر گھر میں بچے اور ماں باپ کے درمیان کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ اس آئینے میں ہر کسی کو اپنا عکس دیکھنا چنداں مشکل نہیں۔
1-اتھاریٹیرین یا جبری تربیت؛
کھلاؤ سونے کا نوالہ، دیکھو شیر کی نگاہ!
بچے کی کیا ہمت کہ ماں باپ کے حکم سے سرتابی کرے،
اگر ہمارا کہا نہ مانا تو اس گھر میں تمہاری کوئی جگہ نہیں،
ایک دفعہ کہہ دیا سو کہہ دیا، اب اس پہ کوئی سوال نہیں!
اس گھر میں میرا حکم چلے گا،
میں تمہارا باپ/ ماں ہوں، میرا حکم ماننا تمہارا فرض ہے،
میرے قدموں تلے جنت ہے اور دودھ بھی نہیں بخشوں گی۔
اگر ایسے جملوں سے کسی کی شناسائی ہے تو یہ نشانی ہے کہ بچہ Authoritarian تربیت یا جبر کا شکار ہے۔ بچہ کیا سوچتا یا چاہتا ہے اس سے ماں باپ کو کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ بچے کو ہر صورت وہ کرنا ہے جو ماں باپ طے کر چکے ہیں۔
سوال کیے بنا اطاعت، بنا کسی اظہار خیال یا رائے، اختلاف یا حکم عدولی کے نتیجے میں سزا اور غلطیوں کے بعد معافی چاہنا بچے کا مقدر بنتا ہے۔ ایسے بچے زندگی کی دوڑ میں کم اعتمادی اور کمزور شخصیت کے مالک بنتے ہیں کہ ان کو اپنی رائے مستند ہونے پہ یقین ہی نہیں ہوتا۔
یہ بھی ممکن ہے کہ بڑے ہو کر وہ متشدد رحجانات کے حامل ہوں۔ وہ سارا ہیجان اور غصہ جو بچپن سے بچے کے اندر جمع ہوا، آتش فشاں بن کے پھٹنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ جھوٹ بولنا بھی ان کی فطرت ثانیہ ٹھہرتا ہے کہ بچپن میں والدین کی سزا سے بچنے کا طریقہ نئے نئے جھوٹ تخلیق کرنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
2- پرمیسو ( permissive) یا نرم انداز کی تربیت:
اماں میں بازار جا رہی ہوں،
مجھے آج ہوم ورک نہیں کرنا،
مجھے ابھی اسی وقت آئس کریم چاہیے،
گھر آنے میں دیر ہو گئی،
میرا جیب خرچ پچھلے ہفتے ختم ہو گیا تھا، اب اور چاہیے،
مجھے چھٹیوں میں لازمی ڈزنی لینڈ دیکھنا ہے،
ہمارے پاس بڑی گاڑی ہونی چاہیے۔
اس طرح کا ماحول ان گھروں میں ہوتا ہے جہاں ماں باپ سوچتے ہیں کہ بچہ تو آخر بچہ ہے جس کی کوئی ذمہ داری یا فرض نہیں۔ گھر میں کوئی بھی حد مقرر کرنے کا خیال والدین کو آتا ہی نہیں۔ اگر کبھی سوچ بھی لیا جائے تو ان حدود کو روزانہ کی بنیاد پہ یا تو تبدیل کر دیا جاتا ہے یا اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا جاتا ہے۔
بچہ سیکھ لیتا ہے کہ اس نے اپنی بات کیسے منوانی ہے اور اگر کچھ غلط ہو جائے تو اس کا کیا حل نکالنا ہے۔ ایسے بچے عموماً پڑھائی میں پھسڈی نکلتے ہیں اور شخصیت میں بھی کجی رہ جاتی ہے کہ انہیں اختیار اور حدود میں فرق کرنا ہی نہیں آتا۔
3- لاتعلق تربیت؛
ایسے ماں باپ اپنے بچے سے کبھی کوئی سوال نہیں کرتے۔
سکول میں کیا ہوا؟
ہوم ورک ملا کہ نہیں؟
امتحان کب ہوئے؟
باہر کس کے ساتھ گئے؟
رات کو کتنے بجے گھر آئے؟
آج کل کیا سرگرمیاں ہیں؟
سگریٹ کب پینا شروع کیے؟
تمہاری جیب میں پیسے کہاں سے آئے ؟
لاتعلق ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ بچے اپنے آپ کو خود سنبھالیں اور انہیں اپنی توانائی خرچ نہ کرنی پڑے۔ کچھ والدین ذمہ داریوں سے بچنے کے لئے جان بوجھ کر یہ راستہ اختیار کرتے ہیں لیکن کچھ اپنے مالی مسائل اور دگرگوں ذہنی صحت کے ہاتھوں اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں۔ بعض ماں باپ میں شعوری بالیدگی کی کمی بھی اس کی وجہ ہو سکتی ہے۔ وقت کی کمی یا لاتعلقی بچے کی ذات میں خلا پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے۔
ذمہ دارانہ تربیت؛
کیا پیرنٹ یہ کوشش کرتا ہے کہ اس کا بچے کے ساتھ ایک خوشگوار تعلق قائم ہو؟
کیا ہر پابندی کے پیچھے نظر نہ آنے والی وجہ بچے کو بتائی جاتی ہے؟
پابندیاں بھی اور حد بندی بھی مگر کیا بچے کی سوچ، محسوسات، خواہشات بھی اہم سمجھی جاتی ہیں؟
بچے پہ ابتدائی عمر سے اپنا وقت اور توانائی خرچ کرنا اس تربیت کا خاصہ ہے۔ روک ٹوک کے ساتھ بچے کی حوصلہ افزائی اور پیٹھ ٹھوکنا بھی اس تربیت کا اہم حصہ ہے۔
ایسی تربیت میں پلنے والے بچے نہ صرف ذمہ داری لینا اور نباہنا سیکھتے ہیں بلکہ انہیں فیصلہ سازی اور زندگی کے مختلف پہلوؤں کی پرکھ بھی آ جاتی ہے۔
کبھی کبھار یوں بھی ہوتا ہے کہ والدین میں تربیتی انداز کسی ایک خانے میں فٹ ہونے کی بجائے اوورلیپ کرتے ہیں جیسے کبھی کہیں ذمہ دارنہ اور کبھی آزادانہ۔
تربیت کرنا نہ صرف ایک آرٹ بلکہ ایک جہد مسلسل بھی ہے جس میں والدین بھی اپنی شخصیت کے ان کونوں کو گھسانا سیکھتے ہیں جو وقت نا وقت چبھ کر تکلیف کا باعث بن جائیں۔
ماں باپ بننا قطعی مشکل نہیں، لیکن ایسے ماں باپ جن کے گزر جانے کے بعد بھی ان کا نام محبت سے لیا جائے اور آنکھ نم ہو جائے، ریاضت کا متقاضی ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر