دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

موٹروے پر موت کا دھواں||رؤف کلاسرا

یہ مین میڈ ہیں‘ یہ غفلت بلکہ سیدھا قتل ہے ۔ اس علاقے میں مسلسل پٹرولنگ اور کسانوں کو سخت سزائیں دے کر کھیتوں میں آگ جلانے سے روکا جاسکتا ہے لیکن کون روکے؟

رؤف کلاسرا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج کل ڈپٹی نذیر احمد کی کتاب ”ابن الوقت‘‘ پڑھ رہا ہوں جو پچھلے ہفتے جہلم میں امر شاہد اور گگن شاہد کے ہاں سے اٹھائی۔ کالم نگار شاہد صدیقی ساتھ تھے‘ گگن شاہد اور امر شاہد کے والد شاہد حمید کی وفات پر تعزیت کرنا تھی۔ امر شاہد نے اپنے دفتر سے ملحق ایک الگ کمرے میں بہترین ترتیب سے لگی کتابیں دکھائیں جو کلاسک کا درجہ رکھتی ہیں۔ میری نظریں مجلس ترقی ادب کی چھاپی کتاب ”ابن الوقت‘‘ پر جا پڑی جو ڈپٹی نذیر احمد نے لکھی تھی۔ گھرپہنچ کر اسے شروع کیا تو اس میں ڈوبتا ہی چلا گیا۔ان کی قصہ گوئی اور اس سے بڑھ کر کلاسیکی اردو لکھنے کی صلاحیت نے بڑا متاثر کیا۔ ابن الوقت ایک ایسا کردار ہے جو ہندوستان کے اس دور میں زندہ ہے جب انگریزوں کے خلاف 1857ء کی بغاوت ہوچکی ہے‘غدر مچ چکا ہے‘ ہندوستانی دھڑا دھڑ انگریزوں کا قتلِ عام کررہے ہیں‘ غصے سے بپھرے ہندوستانی انگریز عورتوں اور بچوں کو بھی نہیں بخش رہے۔ ان حالات میں ”ابن الوقت ‘‘ ایک انگریز مسٹر نوبل کی جان بچاتا ہے اور اسے زخمی حالت میں اپنے گھر لے آتا ہے اور چھپا کر رکھتا ہے۔اس دوران انگریزی فوجیں دوبارہ دلّی پر قبضہ کرنے پہنچ جاتی ہیں اور شہر ایک نئی تباہی سے گزر رہا ہوتا ہے۔ ابن الوقت اور گورے نوبل کے درمیان ہندوستان کے ایشوز پر گفتگو ہوتی ہے۔ ایک جگہ مسٹر نوبل ہندوستان اور ہندوستانیوں کے بارے میں اپنی رائے دیتا ہے ”ہندوستان کو جس کمزوری نے تباہ کیا اصل میں وہ یہی کمزوری ہے۔ خدا نے جیسی ان (ہندوستانیوں ) کی طبیعتیں بودی اور محکوم بنائی تھیں‘ ویسے ہی یہ لوگ سدا سے بودے(بیوقوف) اور محکوم رہتے چلے آئے اور جب تک یہ کمزوری ان کی طبیعتوں میں ہے یہ (ہندوستانی) آگے کو بھی بودے اور محکوم رہیں گے‘‘۔اس طرح کی ملتی جلتی گفتگو آپ کو ایک اور شاندار کتاب”Strangers in India‘‘ میں ملے گی جو انگریز کمشنر Penderel Moonنے لکھی تھی۔ اس میں بھی ہندوستان اور ہندوستانیوں کے مزاج پر خوبصورت کمنٹری کی گئی ہے۔ یہ کتاب 1934ء کے پس منظر میں لکھی گئی تھی‘مگر آج بھی اس کو پڑھیں تو لگتا ہے گورے کی جورائے ہندوستان اور ہندوستانی عوام کے بارے ڈیرھ سو سال پہلے تھی ہم نے بڑی محنت سے خود کو اسی رائے پر چلایا ہے۔
مجھے یہ دو کتابیں یاد آنے کی وجہ لاہور اسلام آباد موٹر وے پر شیخوپورہ کے علاقے میں ہونے والے وہ حادثات ہیں جن میں اب تک کئی لوگ جانیں کھو چکے ہیں۔ موٹر وے کے اردگرد واقع کھیتوں میں کسان فصلوں کی باقیات کو آگ لگا کر گھر چلے جاتے ہیں اس سے جو دھواں پیدا ہوتاہے موٹر وے اس میں چھپ جاتا ہے اور دونوں اطراف سے تیز رفتار گاڑیاں جب اس دھویں میں داخل ہوتی ہیں تو ڈرائیورز کو کچھ نظر نہیں آتا۔ وہ بریک لگانے کی کوشش کرتے ہیں تو پہلے سے دھویں میں موجود گاڑی کو زور سے ٹکر مارتے ہیں اور اتنی دیر میں ان کے پیچھے آنے والی گاڑیاں ان کی گاڑی کو ٹکر مارتی ہے اور یوں یہ گاڑیاں اس دھویں میں ایک دوسرے سے ٹکراتی رہتی ہیں اور ان میں موجود لوگ یا زخمی ہوتے ہیں یا جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔اسی مہینے موٹر وے پر اس طرح کے تین حادثات ہوچکے ہیں جن میں درجنوں گاڑیاں تباہ ہوئیں اور لوگ زخمی ہوئے۔
شیخوپورہ کے ان مخصوص علاقوں میں پہلی دفعہ بڑا حادثہ اس وقت ہوا تھا جب اس وقت کے گورنر پنجاب خالد مقبول صاحب کی بہن سمیت درجن بھر لوگ اس طرح موٹر وے پر مارے گئے جب آگ کے دھویں کی وجہ سے ان کی گاڑی کسی اور گاڑی سے ٹکراگئی اور ان کے پیچھے آنے والی گاڑی نے ان کی گاڑی کو ٹکر ماری اور پھر گاڑیاں ایک دوسرے کو ٹکراتی رہیں ۔یہ واقعہ 2008 ء کا ہے اور آج بارہ برس بعد بھی اس جگہ پھر ایک ماہ میں تین حادثات ہوچکے ہیں۔ ہر دفعہ اس موسم میں لاہور آتے جاتے میں خود دھویں کے یہ بادل موٹر وے پر دیکھ چکا ہوں اور ان میں سے گزر چکا ہوں۔ وہاں آپ کو موٹر وے پولیس نظر نہیں آئے گی جو اگر کسانوں کی لگائی آگ کو نہیں روک سکتی تو ان گاڑیوں کو تو اس دھویں والے مقام سے پہلے روک سکتی ہے تاکہ دھویں کے اندر جا کر موت کے ا ندھے کنویں میں نہ گریں۔ شیخوپورہ کے ان علاقوں میں ہر سال اس موسم میں دھویں کا ایشو ہوتا ہے لیکن مجال ہے کبھی کسی کے کان پر جوں تک رینگی ہو۔ موٹر وے والے فرماتے ہیں کہ یہ کام ضلعی انتظامیہ کا ہے ‘وہ دفعہ ایک سو چوالیس لگا کر کھیتوں میں پڑے سوکھے پتوں کو جلانے پر پابندی لگا ئے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرے‘ لیکن شیخوپور کی ضلعی انتظامیہ اس معاملے میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہی یوں موٹر وے پر موت کا کھیل جاری ہے۔ یہ مسئلہ برسوں سے چلا آرہا ہے‘ اب تک درجنوں لوگ جانیں کھو چکے ہیں لیکن موٹر وے پولیس‘ ڈپٹی کمشنر شیخوپورہ ‘ ڈی پی او اور متعلقہ علاقے کا ایس ایچ او اس کا حل نہیں نکال سکے کیونکہ اس میں انہیں ذاتی فائدہ نظر نہیں آتا۔ دوسروں کے بچے مرتے ہیں تو مرتے رہیں۔ افسران اس علاقے میں دفعہ144 نہیں لگوا سکے‘ ایس ایچ او ان کسانوں کو تلاش کر کے ان پر مقدمے درج نہیں کرسکا جن کی لگائی آگ سے درجنوں مسافر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اس طرح موٹر وے پولیس جس پر سب لوگ اعتبار کر کے تیز رفتاری سے سفر کرتے ہیں وہ بھی کھیتوں میں لگی آگ دیکھ کر وہاں خصوصی پٹرولنگ کا انتظام کر کے گاڑیوں کو مناسب فاصلے پر روکنے کا بندوبست نہیں کرسکی۔
جب بارہ برس قبل گورنر پنجاب کی بہن کو بھی اس دھویں کی وجہ سے گاڑیوں کے ٹکرائو میں جان سے ہاتھ دھونا پڑے تو میرے جیسے یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ آئندہ سے بہت سختی ہوگی‘ موٹر وے کے قریب رہنے والی بستیوں کو سختی سے پابند کیا جائے گا کہ وہ موٹر وے کے قریب کھیتوں کو آگ نہیں لگائیں گی ورنہ گرفتاریوں کے علاوہ بھاری جرمانے ہوں گے‘ مجھے تو یہ بھی توقع تھی کہ سابق گورنرخود ایسی ٹریجڈی کو مستقبل میں روکنے کیلئے موٹر وے پولیس کے علاوہ دیگر محکموں پر اپنا اثرو رسوخ استعمال کریں گے اور سب سے بڑھ کر موٹر وے پولیس ایکٹو ہوجائے گی۔ ممکن ہے پنجاب اسمبلی اس طرح کا قانون پاس کرے تاکہ موٹر وے پر دھویں کی وجہ سے بڑھتے واقعات کو روکا جاسکے اور انسانی جانیں بچائی جا سکیں‘ مگرنہ سابق گورنرنے اس پر کام کیا‘ نہ پنجاب حکومت ٹس سے مس ہوئی‘ نہ قومی اسمبلی میں کبھی کوئی اس معاملے پر بولا۔ یہ وہ اموات ہیں جن سے بچا جاسکتا ہے۔ یہ مین میڈ ہیں‘ یہ غفلت بلکہ سیدھا قتل ہے ۔ اس علاقے میں مسلسل پٹرولنگ اور کسانوں کو سخت سزائیں دے کر کھیتوں میں آگ جلانے سے روکا جاسکتا ہے لیکن کون روکے؟کیاآئی جی موٹر وے کلیم امام ذاتی دلچسپی نہیں لے سکتے کہ آئی جی پنجاب انعام غنی سے بات کریں کہ ان کی پولیس تعاون نہیں کررہی؟
اپنی نالائقیاں دیکھ کر مجھے 1857ء غدر کے دنوں کا وہ گورا افسر مسٹر نوبل یاد آرہا ہے کہ ہندوستانی بودے‘بیوقوف اور محکوم قوم ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے۔ جن لوگوں نے 2008ء میں موٹر وے کے کنارے کھیتوں میں لگائی گئی آگ سے اٹھنے والے دھویں سے ہونے والے حادثے میں گورنرپنجاب کی بہن سمیت درجن بھر افراد کے جاں بحق ہونے سے اب تک بارہ برسوں میں کچھ نہیں کیا ان سے آگے کیا امیدکی جا سکتی ہے؟ مسٹر نوبل کی ایک سو ستر سالہ پرانی پیش گوئی درست نکلی‘ یہاں کے لوگ سدا سے بیوقوف اور محکوم ہیں۔ داد دیں اس قوم کو جس کے حکمران اور بیوروکریٹس عام لوگوں کو چھوڑیں‘ سابق گورنر کی بہن کے ایسے ہی حادثے میں جان بحق ہونے کے بارہ برس بعد بھی موٹر وے پر کھیتوں سے اٹھتے دھویں کا علاج نہیں ڈھونڈ سکے۔بارہ برس بعد بھی لوگ لاہور اسلام آباد موٹر وے پر اسی جگہ دھویں میں اسی انداز میں مررہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا

کپتان کا شکوہ ۔۔۔رؤف کلاسرا

آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا

پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا

ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا

رؤف کلاسرا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author