نعیم مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے چیف آرگنائزر سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے علاوہ نیر بخاری، مصطفےٰ نواز، رانا فاروق سعید اور دیگر جینوئن پیپلز پارٹی قیادت اس تحریر کو دل پر نہ لے (لے بھی لے تو کوئی بات نہیں ) تاہم یہ بحث کا وہ دریچہ ہے جو پیپلز پارٹی کو ازخود بطور خود احتسابی کھولنا چاہیے :
پنجاب تنظیم کو میڈیا اور عوام میں اپنے وکیل تک دستیاب نہیں۔ پنجاب پیپلز پارٹی خود ہی ملزم، خود ہی مدعی اور خود ہی وکیل مگر۔ خود ہی بھٹو نہیں! وجہ؟
چراغ لے کر ضلع اٹک سے چلیں، اور پیپلز پارٹی کو ڈھونڈنے نکلیں تو پورا راولپنڈی شہر بھی گزر آئیں، بس اللہ ہی اللہ ہے۔ ضلع اٹک۔ میں قومی اسمبلی کے تین حلقے ہیں۔
این اے 59 سے آخری بار 2008 میں پیپلز پارٹی کے سردار سلیم حیدر نے کامیابی حاصل کی تھی۔ این اے 57 سے کبھی پی پی پی کے حاجی محمد گلزار اعوان، تھے اور 58 میں پی پی کو مقبول اور فاتح قسم کا امیدوار تک نہیں ملتا۔ بے شک اوپر مری سے بھی چکر لگائیں، گویا ملک حاکمین کے کہیں اثرات نظر آتے ہیں نہ راجہ انور و مہرین راجہ کے، زمرد خان بھی پرانے چیئرمین بیت المال ہونے کے سوا کچھ نہیں رہے تاہم گوجر خان آ کر سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف ملتے ہیں جن کو پیپلز پارٹی کے کم مگر اپنی محنت اور ملن ورتن کے ووٹ آج بھی ملتے ہیں۔ جہلم سابق گورنر چوہدری الطاف مرحوم ان کے صاحبزدگان اور فواد چوہدری جیسے عزیزوں کے سبب پیپلز پارٹی سے نکل کر تحریک انصاف کی جھولی میں ہے۔ راجہ افضل واپس آئے تھے مگر بے سود رہے۔
گجرات کی تحصیل کھاریاں اور معروف قصبہ لالہ موسیٰ میں تنویر اشرف کائرہ کو تو خیر کوئی پوچھتا ہی نہیں تاہم قمر زمان کائرہ کے ووٹ بھی ایسے ہیں جیسے 100 میں سے کوئی 30 نمبر حاصل کر لے۔ گجرات شہر میں چوہدری احمد مختار اللہ کو پیارے ہو گئے جبکہ نوابزادہ غضنفر گل خاندان پیپلز پارٹی کے بجائے نون لیگ کا اٹوٹ انگ ہے۔
منڈی بہاؤالدین میں نذر محمد گوندل، میجر ر ذوالفقار گوندل اور ظفر گوندل کو پہلے ناہید خان گروپ نے نہ جینے دیا جیسے پنڈی میں سرور خان وغیرہ کو، اور بعد ازاں زرداری صاحب نے میرٹ کے مطابق قدر نہ کی۔
اسی طرح گوجرانوالہ میں حاجی امان اللہ اور خواجہ اسلم لون کے کوچ کر جانے اور چوہدری زاہد پرویز کے پارٹی چھوڑنے کی پاداش میں پیپلز پارٹی بے بس و بے کس ہو گئی۔ میاں اظہر حسن ڈار مشکل سے ایک حلقہ سنبھال رکھنے کی پوزیشن میں تھے ان کی دسترس میں اب وہ بھی نہیں، امتیاز صفدر وڑائچ اور عبداللہ ورک کبھی سیٹ جتوائی تھی وہ لوگ پارٹی چھوڑ گئے گویا گوجرانوالہ میں اگلے الیکشن میں بھی کوئی قومی یا صوبائی کی نشست نظر نہیں آتی۔
شیخوپورہ کبھی پیپلز پارٹی کا لاڑکانہ ہوا کرتا تھا، ملک مشتاق اعوان کا ایک نام تھا پھر منور منج نے تھوڑا سا کبھی سہارا دیا، نثار پنوں خاندان پیپلز پارٹی سے دور ہو چکا اب شیخو پورہ میں کوئی پرسان حال نہیں۔
سیالکوٹ میں کبھی پیپلز پارٹی میں جاوید پیرزادہ، چوہدری انور عزیز یا چوہدری ادریس تاج کے سبب پیپلز پارٹی میں جاں تھی، بعد ازاں اعجاز چیمہ اور خورشید عالم جیسے لوگ کچھ دیر کے لئے آئے پھر چلے گئے۔ ڈاکٹر تنویر الاسلام ایک دبئی مارکہ ورائٹی نے 2008 میں سیالکوٹ میں ایک صوبائی معرکہ مارا، شہباز شریف کی مخلوط کابینہ میں تنویر اشرف کائرہ، حاجی اسحاق (گوجرہ ٹوبہ ٹیک سنگھ) ، اشرف سوہنا (اوکاڑہ) ، فاروق یوسف گھرکی (لاہور) اور نیلم جبار (ٹوبہ ٹیک سنگھ) کے ساتھ وزیر رہے لیکن بعد ازاں ان میں سے گھرکی اور سوہنا پیپلز پارٹی کو خداحافظ کہہ گئے باقیوں میں سے کسی نے حلقہ تو کیا بچانا تھا ضمانتیں بھی نہیں بچا پاتے۔ سوائے اشرف سوہنا کے کسی نے ڈھنگ کی وزارت بھی نہ کی، اور آج تک یہ بات سمجھ سے باہر ہے پیپلز پارٹی کی ڈوبتی کشتی میں سے ان میں کیا بات تھی جو انہیں وزارتیں دلوائی گئیں؟
کچھ فطرتاً نان پولیٹیکل اور کچھ نا اہل تھے، اور سبھی سنٹرل پنجاب سے۔ وقت نے ثابت کیا کہ یہ قیادت کی عاقبت نا اندیشی تھی اب سیالکوٹ یا نارووال اضلاع میں کوئی پارٹی ہے نہ تنظیم۔ وہ پسرور میں کبھی بریگیڈیئر حامد نواز ہوا کرتے تھے جو 1988 میں ایم این اے بھی ہوئے وہ اور بعد میں ان کے صاحبزدگان شاہد حامد سابق گورنر اور زاہد حامد نون لیگ نما ”مقتدری“ ہی ہو کر رہ گئے۔ کیا پسرور سے سابق جنرل سیکرٹری پنجاب پیپلز پارٹی چوہدری غلام عباس واپس نہیں لائے جا سکتے وہ پیپلز پارٹی سیالکوٹ کو زندہ کر سکتے ہیں، اور واپس بھی آ سکتی ہیں!
قصور سے پیپلز پارٹی کے مخلص اور محنتی کارکن و لیڈر چوہدری منظور شبانہ روز محنت کر رہے ہیں مگر عاشق ڈوگر کے بعد اور سردار آصف احمد علی کی آنیوں جانیوں کے بعد پیپلز پارٹی کا اللہ ہی وارث اور بظاہر کوئی مستقبل دکھائی نہیں دیتا۔ مذکورہ شہروں میں پیپلز پارٹی کے پاس نہ کوئی الیکٹ ایبل ہیں اور نہ راجہ پرویز اشرف، قمر زمان کائرہ، زمرد خان، چوہدری منظور اور میاں اظہر حسن ڈار کے علاوہ کوئی مقبول اور عوامی نام ہی نہیں، یہی چار لوگ ہیں جو انگلیوں ہر گنے جاسکتا ہیں۔
سرگودھا میں 2008 میں قاف لیگی عروج میں پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی پانچ میں سے 2 نشستیں جیتیں، تسنیم قریشی شہری اور ندیم افضل چن اور ان کے والد افضل چن سرگودھا سیاست کے ناقابل تسخیر نام بن چکے تھے مگر ندیم 2018 سے قبل تحریک انصاف کو پیارے ہو گئے جب ان کے ننھیال سے نذر محمد گوندل اور میجر ر ذوالفقار گوندل گئے۔ سرگودھا میں پیپلز پارٹی کے پلے اب کچھ نہیں۔ تسنیم قریشی ٹیم نہ بنا سکے، پرانے جیالے کاہلوں خاندان سے اب پیپلز پارٹی کا کوئی تعلق رہا نہیں۔ بس صبر ہی اب!
بھکر، 2013 میں این اے 73 میں عبدالمجید خان کا مقابلہ پیپلز پارٹی کے اصغر علی جارا سے ہوا جبکہ این اے 74 میں پیپلز پارٹی کے حسنین اعجاز شہانی اور تحریک انصاف کے رفیق نیازی اور اکبر خان آمنے سامنے تھے۔ بھکر میں پیپلز پارٹی زیرو تو کیا مائنس میں چل رہی ہے۔ مقامی قیادت میں دم خم نہیں بالائی قیادت بے بس ہے۔
خوشاب سے این اے 70 میں 2008 میں پیپلز پارٹی کے محمد ارشد ملک نے شاکر بشیر اعوان نون لیگ سے شکست کھائی اس کے بعد پیپلز پارٹی رہی ہی نہیں۔ دوسری نشست ہمیشہ نواب امیر محمد خان کی پوتی سمیرا ملک کی رہی وہ نون میں ہو یا قاف یا ملت پارٹی میں۔ یعنی خوشاب کی دونوں سیٹوں پر پی پی کہیں نہیں۔
میانوالی ضلع میں کبھی سیاسی جماعتوں کی یا نظریے کی سیاست پر شخصی سیاست کو فوقیت ملتی تھی۔ 2002 میں جب شیر افگن نیازی پیپلز پارٹی چھوڑ کر جنرل پرویز مشرف کے ساتھ چلے گئے تو نظریاتی سیاست میں پھر وہ دم خم نہیں رہا بس نیازی سیاست بن کر رہ گئی۔ 2008 میں یہاں کے دونوں حلقوں این اے 71 اور 72 سے آزاد امیدوار کامیاب ہوئے تھے جن میں سے نواب ملک عماد خان پیپلز پارٹی اور حمید حیات روکھڑی مسلم لیگ نواز میں شامل ہو گئے تھے۔ اب پیپلز پارٹی کا نام و نشان نہیں ملتا۔ کسی زمانے میں جب راجہ پرویز اشرف، منظور چوہدری، ندیم اصغر کائرہ اور رانا فاروق سعید وسطی پنجاب کی تنظیمی تشکیل کے لئے نکلے تو پیپلز پارٹی کی میانوالی حوالے سے مایوسی کا اظہار راقم سے راجہ پرویز اشرف نے بھی کیا تھا۔
لاہور میں موجودہ ناموں میں بڑا عوامی نام ثمینہ گھرکی ہی ہے، اعتزاز احسن نام تو بہت بڑا ہے مگر عوامی نہیں۔ ایک عوامی نام جہانگیر بدر تھا مگر وہ جہان فانی سے کوچ کر گئے اور پیپلز پارٹی ان کے ہوتے ہوئے اور ان کے حلقے بدلتے رہتے ہی کوچ کر گئی تھی۔ وہ بڑے نام جنہیں بابائے سوشلزم شیخ رشید کہا جاتا یا شیخ رفیق وہ نظریاتی لوگ اب خواب ہوئے، خواجہ احمد طارق رحیم اور سلمان تاثیر محترمہ کے ہوتے ہوئے پیپلز پارٹی کے لئے ناقابل اعتبار ہو گئے تھے، ملک معراج خالد بھی بی بی کے ہوتے ہوئے دوسری راہوں پر چل نکلے تھے، عزیز الرحمٰن چن کے مقدر میں کبھی فتح رہی ہی نہیں، پرویز صالح اور یوسف صلاح الدین بھی بی بی کے ہوتے ہوئے بے رنگ و بے بو ہو گئے تھے۔ عبدالرشید بھٹی خاندان اور ملک کرامت کھوکھر جیسے با اثر خاندان پیپلز پارٹی سے سنبھالے نہیں گئے۔ نوید چوہدری جیسے دانش مند اور مخلصین کو نان فنکشنل کر رکھا ہے۔ کوئی حنیف رامے بھی میسر نہیں آیا، جہانزیب برکی ملنگ آدمی ہیں۔
عبدالرشید بھٹی اور کرامت کھوکھر خاندانوں سے لاہور کے مضافات میں پیپلز پارٹی میں رونقیں تھیں جو نہ رہیں۔ نوید چوہدری جیسے اسمارٹ کارکنان و قائدین پورے فنکشنل نہیں رہی، اور شاید پارٹی ان کے مقام و مرتبہ کو بھول گئی، بیرسٹر سلمان حسن جیسے نوجوان پیپلز پارٹی کے لئے کوشاں ہیں مگر دلی دور است۔
فیصل آباد ڈویژن کبھی نظریاتی پیپلز پارٹی کا گڑھ تھی، مختار اعوان، فضل حسین راہی جیسے قابل ذکر لوگ۔
پھر اس ضلع کو عموماً 1990 کے بعد مسلم لیگ نواز کا مضبوط قلعہ سمجھا جاتا رہا ہے لیکن یاد رہے کہ، الیکشن 2008 میں یہاں سے پیپلز پارٹی نے پانچ نشستیں جیتی تھیں۔ مسلم لیگ نون کے حصے میں تین اور مسلم لیگ ق کے حصے میں دو نشستیں آئی تھیں جبکہ ایک نشست پر آزاد امیدوار کامیاب ہوا تھا۔ اب مائیکرو سکوپ اور ٹیلی سکوپ کے استعمال سے بھی پیپلز پارٹی نہیں ملتی تاہم رانا فاروق سعید ابھی پورے جلوے سے پیپلز پارٹی کا جھنڈا اٹھائے نظر آتے ہیں۔ یاد رہے کہ رانا فاروق سعید نے 2008 کا الیکشن بطور آزاد امیدوار جیتا اور پیپلز پارٹی میں آئے تاہم 2013 کا الیکشن نہیں لڑے۔
باجوہ خاندان کی سیاسی اہمیت کو فراموش نہیں کیا جاسکتا طارق محمود باجوہ 2008 کی جیت کے بعد کھویا ہوا مقام حاصل کرنے سے قاصر ہیں حالانکہ 1988 میں ان کے والد محترم غلام مصطفےٰ باجوہ بھی ممبر قوم اسمبلی بنے۔ سعید اقبال کی بطور ممبر قومی اسمبلی فتح 2008 بعد میں دم خم نہ پا سکی بہرحال وہ جدوجہد کرنے والوں میں ابھی ہیں۔ 1988 تا 1996 الیاس جٹ اور چوہدری نذیر (کوہستان ٹریولز) کے بڑے معروف مقابلے ہوتے مگر جٹ خاندان پیپلز پارٹی کو خیرباد کہہ گیا۔ اسی طرح اعجاز ورک اور شہادت بلوچ خاندان پھر جڑانوالہ سے ملک نواب شیر وسیر کے پیپلز پارٹی چھوڑنے کے بعد فیصل آباد پیپلز پارٹی چراغ سحر ہوتی چلی گئی۔
پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کا مقابلہ آج کل آپس میں نرگسیت کے میدان میں ہے جس نے پیپلز پارٹی سے محنت چھین کر اسے کھوکھلا کر دیا ہے جسے قیادت سمجھنے سے قاصر ہے۔ آج پیپلز پارٹی فیصل آباد ڈویژن کا سابق لیڈر اور پنجاب کا پارلیمانی قائد جوڑ توڑ اور ذاتی کاوشوں سے 2018 کی چنیوٹ صوبائی اسمبلی میں سرخرو ہونے والے سید حسن مرتضیٰ کو سمجھا جاتا ہے، یہ وژن اور یہ قیادت رہ گئی ہے پیپلز پارٹی کے پاس؟
فیصل آباد اور لاہور میں پی ٹی آئی نے الیکشن 2018 میں خوب جگہ بنائی، 2013 کے بعد لگتا نہیں تھا کہ سارے الیکٹ ایبل گھیرنے کے بعد نون لیگ کو شکست ہو سکتی ہے مگر کئی حلقوں میں ہوئی، گویا ان دونوں شہروں میں سست قیادت کو چست اور روٹھوں کو منانا ہو گا۔ بالائی قیادت خود سامنے آئے ایسا ہی قصور و راولپنڈی و اوکاڑہ اور ساہیوال اور دیگر اضلاع میں بھی کرنا ہو گا۔ مقامی تنظیموں پر بھی توجہ درکار ہے
چنیوٹ دریائے چناب کے کنارے وہ ضلع ہے جو کبھی جھنگ کی تحصیل تھی اس میں قومی اسمبلی کے دو حلقے ہیں، ایک حلقہ جھنگ اور چنیوٹ کا مشترکہ ہے جہاں 2013 میں فیصل صالح حیات (آزاد) جبکہ پی پی سے عابدہ حسین کے صاحبزادے کا مقابلہ ہوا تھا۔ 2008 میں چنیوٹ کے ایک حلقہ سے عنایت شاہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر جیتے مگر بعد میں تحریک انصاف میں چلے گئے اور ذوالفقار شاہ پی پی سے الیکشن لڑے۔ عنایت شاہ اور فیصل صالح حیات کے بغیر یہاں پیپلز پارٹی کی دال نہیں گلتی تاہم اب جھنگ سے فیصل صالح حیات پیپلز پارٹی میں واپس ہیں، 2018 کا الیکشن انہیں پلاننگ سے ہرایا گیا شاید آئندہ نہ ہاریں۔ تاہم عابدہ حسین کی سیاست ابھی لوٹا ازم اور نا موافق حالات کی نذر ہے۔ فیصل صالح حیات اور حسن مرتضیٰ ہی جھنگ اور چنیوٹ میں پیپلز پارٹی کا نام و نشان بچا سکتے ہیں ورنہ کچھ بھی نہیں۔ فیصل صالح حیات حلقہ سے نکلیں گے تو کچھ ہو گا حسن مرتضیٰ محض اندھوں میں کانا راجہ ہیں پیپلز پارٹی کی روایتی آن بان نہیں ( مجبوری کا نام شکریہ کہہ لیجیے )
فیصل آباد، جھنگ اور چنیوٹ سے متصل ٹوبہ ٹیک سنگھ وہ ضلع ہے جہاں کبھی غیاث الدین جانباز پیپلز پارٹی کا درخشاں ستارہ اور علامت تھے الیکشن وہ بھلے نہ جیتتے مگر ایک نام تھا۔
جانباز کے متعلق لاڑکانہ میں کھڑے ہو کر کبھی بھٹو نے کہا تھا کہ ”جب تک ایک غیاث الدین جانباز بھی پنجاب میں مرے ساتھ کھڑا ہے کوئی پیپلز پارٹی کو شکست نہیں دیے سکتا“ ۔ لیکن اب پیپلز پارٹی ٹوبہ نہ ہونے کے مترادف ہے، جاتے جاتے ناہید خان نے ٹوبہ چوہدری عامر جبار کے سپرد کر دیا وہ متحرک تھے ان کی اہلیہ نے 2008 کا صوبائی الیکشن جیتا، وزارت بھی پائی مگر یہ خاندان بھی پیپلز پارٹی کے لئے پانی کا بلبلہ کے سوا کچھ ثابت نہ ہوا (شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے ) اب ”ٹوبہ پیپلز پارٹی“ اعصابی و سیاسی و تنظیمی اعتبار سے مفلوج ہے۔ موجودہ قیادت خود پھلی نہ پھلنے پھولنے دیا گیا بالائی قیادت نے بھی سمجھ لیا کہ اور کوئی ہے نہیں پس بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی۔
سچ تو یہ ہے کہ بالائی مرکزی و صوبائی قیادت بالخصوص ٹوبہ اور بالعموم فیصل آباد کے حوالے سے مکمل بے بس اور فہم و فراست سے بہت دور محض غلط فہمی و خوش فہمی کا شکار ہے!
اوکاڑہ سے عارف چوہدری، صمصام بخاری اور اشرف سوہنا کے بعد پیپلز پارٹی کم و بیش ختم ہی ہو گئی۔ اس سے قبل پیٹریاٹ بن کر راؤ سکندر اقبال گئے، عطا احمد مانیکا جیسے جہاندیدہ آدمی کا زرداری دور سے قبل پی پی چھوڑنا پیپلز پارٹی کی کشتی کے لئے پاکپتن اور اوکاڑہ میں ہچکولے چھوڑنے کے مترادف ہوا۔ منظور وٹو کو لایا گیا مگر وہ ذاتی سیاست کے دلدادہ ہیں اس کو پنجاب کا پیپلز پارٹی کا صدر لانا گرتی ہی دیوار کو دھکا کے مصداق ثابت ہوا۔ منظور وٹو اور بیگم راؤ سکندر اقبال پیپلز پارٹی کو کچھ نہ دے سکے اور دلبرداشتہ ہو کر کوچ کر گئے۔
ساہیوال وہ ضلع ہے جو وسطی پنجاب اور جنوبی پنجاب کے سنگم پر واقع ہے وہاں بھی پیپلز پارٹی نہ ہونے کے مترادف ہے۔ نوریز شکور کے دم سے تھی پی پی پی وہ تحریک انصاف میں چلے گئے۔ چار دن انوارالحق رامے کی لوٹا بازیوں سے بھی پی پی پی میں ہلچل تھی جو پی پی اب مردہ گھوڑا کے سوا کچھ نہیں۔
سندھ جیسی ٹیم پنجاب کو کیوں میسر نہیں؟ زرداری صاحب یا بلاول بھٹو زرداری کو پنجاب یا وسطی پنجاب کی اصل رپورٹ ملتی نہیں یا وہ لینا ہی نہیں چاہتے؟ پنجاب کو دو حصوں کی تنظیم سازی سے بھی کیوں کچھ نہیں ملا؟
مانا کہ اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ پی پی سے ہاتھ کراتی ہے مگر پی پی پی کو اس قدر بھی بے دست و پا نہیں ہونا چاہیے۔ یاد رہے کہ 1997 میں اسٹیبلشمنٹ نے واضح جھرلو پھیرا مسلم لیگ کی 135 نشستوں کے مقابلہ میں پیپلز پارٹی کی صرف 18 قومی اسمبلی کی نشستیں تھیں، پنجاب سے ایک سیٹ بھی نہ ملی مگر ووٹر جڑا رہا جس کی مثال یہ کہ بی بی شہید نے باہر بیٹھ کر 2002 الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ کے ناک میں دم کر دیا، ساری پرویزی رکاوٹوں کے باوجود پیپلز پارٹی نے اسٹیبلشمنٹ کی قاف لیگ پارٹی کا جم کر مقابلہ کیا اور دوسرے نمبر پر رہی۔ جبکہ نواز لیگ کا رزلٹ وہ ہوا جو پیپلز پارٹی کا 1997 والا تھا یعنی صرف 16 سیٹیں۔ ق لیگ 76، پیپلز پارٹی 62 اور نون لیگ 76 تاہم ایم ایم اے کی 53 سیٹیں تھیں قومی اسمبلی میں۔
مشرف نے اپوزیشن لیڈر کا حق مخدوم امین فہیم سے چھین کر مولانا فضل الرحمٰن کو دے دیا اور پیپلز پارٹی سے پیٹریاٹ متشکل کیے۔ دیکھ لیجیے پیپلز پارٹی واپس ہمیشہ طمطراق طریقے سے آتی رہی حتیٰ کہ 2008 میں پورے طنطنے سے الیکشن جیتا اور حکومت بنائی مگر اس کے بعد 2013 اور 2018 میں کوئی پرسان حال ہی نہیں۔ سب کچھ اسٹیبلشمنٹ پر نہیں ڈالا جا سکتا کچھ ذمہ داریاں قیادت کی بھی بنتی ہیں!
ضیائی اور پرویزی حکومتیں پیپلز پارٹی پر جتنا ظلم کرتی رہیں وہ عمرانی اور شریفوں کی حکومتوں نے نہیں کیا۔ مگر اس وقت کی پیپلز پارٹی مزدور اور کسان کی بات کرتی تھی۔ ملک کو آئین اور جمہوریت کو دوام بخشنے والی بھی پیپلز پارٹی۔ ہر فرد کو سیاست اور ووٹ کا حق دینے والی پیپلز پارٹی۔ این ایف سی کا منصفانہ انصاف کرنے والی پیپلز پارٹی۔ حتی کہ 18 ویں ترمیم پیپلز پارٹی کا کام مگر ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کی بارہا دیوار گرانے والی پیپلز پارٹی کو آخر اب کیا ہوا؟ اس کے اپنے لوگ اس کی وکالت کا حق ادا کیوں نہیں کر پا رہے؟
بھٹو اور بے نظیر کی گاڑی سے ٹھیکیدار نہیں کارکن یا مفکر نکلتے، انہوں نے لاہور وغیرہ میں بلاول ہاؤس نہیں دور دراز جھونپڑیوں میں رہنے والے غریبوں کے قلوب و اذہان میں گھر بنائے!
پنجاب تنظیم کو میڈیا اور عوام میں اپنے وکیل تک دستیاب نہیں۔ پنجاب پیپلز پارٹی خود ہی ملزم، خود ہی مدعی اور خود ہی وکیل مگر خود ہی بھٹو نہیں! انہیں کوئی یاد کرائے، کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں!
ان سوالوں کا جواب راجہ پرویز اشرف کے پاس ہے یا قمر زمان کائرہ کے؟ چوہدری منظور کے پاس یا بلاول ہاؤس سے گیلانی ہاؤس کے پاس؟
اگر ان کے پاس نہیں تو پیپلز پارٹی بھی وسطی پنجاب میں کسی کے پاس نہیں!
…… …. ….. ….. …… …..
( جنوبی پنجاب پر حصہ دوم بہت جلد۔ )
یہ بھی پڑھیے:
محبت: جی بی کے بعد آزاد کشمیر؟۔۔۔ نعیم مسعود
اپنی اصلاحات کا موڑ کب آئے گا؟۔۔۔ نعیم مسعود
عالمی و قومی منظرنامہ اورصدر آزادکشمیر!۔۔۔ نعیم مسعود
زرداری رونمائی، مولانا اِن ایکشن، خان اِن ٹربل؟ ۔۔۔ نعیم مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر