نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

موجودہ پنجاب اسمبلی میں پارلیمانی تاریخ کا پراسرار واقعہ||طاہر ملک

پنجاب حکومت نے شوگر فیکٹریوں کو چلانے سے متعلق ایک ترمیمی قانون سے علیحدگی ظاہر کردی جسے ہنگامی بنیادوں پر دو ہفتے قبل صوبائی اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا اور الزام لگایا گیا کہ اسمبلی سیکریٹریٹ میں کسی کو اس کے مندرجات کو قانون سازوں کے سامنے پیش کرنے سے قبل تبدیل کر دیا گیا۔

طاہر ملک

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وزیر اعظم عمران خان کو اس بات کا تو کریڈٹ دینا پڑے گا۔ کہ انہوں نے ہماری معیشت کو یرغمال بنانے والے مافیاز پر ہاتھ ڈالا انہیں بے نقاب کیا۔ اب یہ مافیاز جن میں لینڈ مافیا شوگر مافیا تیل پولٹری ادویات مافیاز دباؤ ڈال کر انہیں بلیک میل کر کے دوبارہ مراعات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

پنجاب اسمبلی میں گنے کے کسانوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے ایک بل پیش کیا گیا جس میں شوگر مل مالکان کی جانب سے کسانوں کو گنے کی بروقت ادائیگی کو یقینی بنانے کے لئے ادائیگی کا ایک موثر شیڈول ترتیب دیا گیا۔ اگر شوگر ملز کسانوں سے گنا اٹھانے کے باوجود مقررہ مدت میعاد میں ادائیگی نہیں کرتیں تو ان پر ایف آئی آر درج کروائی جا سکتی ہے۔ اسی طرح شوگر ملز کی جانب سے گنے کے کرشنگ سیزن کا بھی ایک ٹائم ٹیبل دیا گیا۔ ان سارے اقدامات کا مقصد شوگر مافیا کی جانب سے کسانوں کے معاشی استحصال کو ختم کرنا تھا۔

لیکن پراسرار واقعہ یہ ہوا کہ پنجاب اسمبلی کے مجوزہ بل کے ڈرافٹ میں پراسرار طور پر اچانک اور راتوں رات تبدیلیاں کردی گئی۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ تبدیلیاں پنجاب اسمبلی کے سرکاری عملے کے علاوہ اور کوئی نہیں کر سکتا۔ اور ان تبدیلیوں کا مقصد شوگر ملز مالکان کے مفادات کا تحفظ اور کسانوں کے معاشی استحصال کو جاری رکھنا تھا۔ بل کی منظوری پر پنجاب کے صوبائی وزیر زراعت جہانیاں گردیزی بھی لا علم تھے جب انہیں اس کا علم ہوا تو انہوں نے بھی اس امر پر حیرت کا اظہار کیا اور تحقیقات کا عزم دہرایا۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق بل میں تبدیلیاں شوگر مل مالکان نے با اثر سیاستدان جن کی رہائش گلبرگ میں ہے ان کے گھر میں ہونے والے اجلاس میں طے کیں۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ پارلیمنٹ کسی بھی جمہوری ریاست کا آزاد خودمختار قانون ساز ادارہ ہوتا ہے اگر اس میں قانون سازی جعل سازی کے ذریعے کی جا سکتی ہے تو پھر قانون سازی کا اللہ ہی حافظ ہے۔ آج پنجاب اسمبلی کے سیکرٹری حاجی خان بھٹی ہیں جو سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور موجودہ اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی کے دست راست ہیں۔

ان کا تعلق ضلع منڈی بہاؤ الدین سے ہے یہ وزیر اعلیٰ پرویز الہی کے دور میں محکمہ زراعت میں کلرک بھرتی ہوئے اور پھر ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے آج بیس گریڈ میں سیکرٹری پنجاب اسمبلی ہیں۔ حاجی خان بھٹی کے بھائی بھی قاف لیگ کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لیتے رہے ہیں جب پرویز الہی وزیر اعلی پنجاب بنے تو یہ ان کے سٹاف میں تھے۔ اس اسکینڈل کی تحقیقات اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی اور سیکرٹری پنجاب اسمبلی حاجی خان بھٹی کو کروانی چاہیے کیونکہ یہ واقعہ اپنی نوعیت کے حساب سے ہماری پارلیمانی تاریخ کا منفرد واقعہ ہے۔

کیا یہ حسن اتفاق ہے کہ اس سے قبل 1993 میں جب مسلم لیگ کے ایک دھڑے جس کی قیادت منظور وٹو کر رہے تھے انہوں نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ غلام حیدر کے خلاف بغاوت کردی مسلم لیگ کے اراکین پنجاب اسمبلی نواز شریف اور پرویز الٰہی کی قیادت میں اسلام میں مقید کر دیے گئے۔ پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ کی حکومت کے وزیر اعلیٰ خلاف اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا فیصلہ کیا اس پر اراکین نے دستخط کیے علاوہ ازیں اس کا مقصد نیا وزیر اعلیٰ پنجاب اسمبلی منتخب کر کے پنجاب اسمبلی کو برطرف کرنا بھی تھا۔

اراکین اسمبلی صبح جب پنجاب اسمبلی سیکرٹری کے دفتر پہنچے تو سیکریٹری پنجاب اسمبلی حبیب اللہ اغوا ہوچکے تھے اس اغوا کا الزام بھی چودھری پرویز الہی پر لگا لیکن اس واقعہ کی تحقیقات نہ ہو سکیں۔ اب ذرا خبر ملاحظہ فرمائیں۔ ملز کو فائدہ پہنچانے کے لئے شوگر ایکٹ 2021 بل میں خفیہ ترمیم کی گئی، وزیر زراعت
چند شوگر * ملز کو فائدہ پہنچانے کے لئے شوگر ایکٹ 2021 بل میں خفیہ ترمیم کی گئی، وزیر زراعت پنجاب*

پنجاب حکومت نے شوگر فیکٹریوں کو چلانے سے متعلق ایک ترمیمی قانون سے علیحدگی ظاہر کردی جسے ہنگامی بنیادوں پر دو ہفتے قبل صوبائی اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا اور الزام لگایا گیا کہ اسمبلی سیکریٹریٹ میں کسی کو اس کے مندرجات کو قانون سازوں کے سامنے پیش کرنے سے قبل تبدیل کر دیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر زراعت سید حسین جہانیاں گردیزی نے بتایا کہ حکومت نے جو مسودہ قانون نافذ کرنے کے لیے پیش کیا تھا یہ وہ نہیں تھا۔ مسودے کو اسمبلی سیکریٹریٹ میں تبدیل کیا گیا جسے ہاؤس اسٹینڈنگ کمیٹی نے جانچ پڑتال کے بعد پاس کیا تھا۔ وزیر زراعت نے اس امر پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کچھ مفادات نے خفیہ اور غیر قانونی طور پر مسودہ کو تبدیل کیا ہے لیکن گنے کے کاشتکاروں کے مفادات کے تحفظ کے اس مقصد کے برخلاف بل پیش کریں۔

پریس کانفرنس کے دوران وزیر زراعت نے کہا کہ اس معاملے کی مکمل چھان بین کی جائے گی کیونکہ اس کی وجہ سے کاشت کاروں میں بدامنی پیدا ہو گئی ہے۔ اس غلطی کو ختم کرنے کے لیے پیر کے روز اسمبلی کے اجلاس میں ایک نیا قانون پیش کیا جائے گا۔ 4 مئی کو منظور ہونے والے شوگر فیکٹریاں کنٹرول (ترمیمی) ایکٹ میں 30 نومبر کو گنے کی کرشنگ سیزن شروع کرنے کی آخری تاریخ مقرر کی ہے جس کے تحت ملرز کو اگست 30 جون تک کاشتکاروں کو واجبات ادا کرنے کی اجازت اور واجبات کی عدم ادائیگی اور تاخیر پر سزا یا جرمانہ ہو گا۔ یہ ایکٹ گزشتہ اکتوبر میں جاری اس آرڈیننس کے برخلاف تھا جس میں حکومت کو کرشنگ سیزن کے آغاز کی تاریخ طے کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔ ملرز کو گنے کی خریداری سے 15 دن کے اندر کاشتکاروں کو واجبات ادا کرنے کا پابند کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے:

ملتان کی کہانی ۔۔۔ طاہر ملک

اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کا المیہ ۔۔۔ طاہر ملک

میڈیا: خبروں اور تبصروں میں اقلیتی برادری کہاں؟۔۔۔ طاہر ملک

طاہر ملک کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author