ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وفاقی اورصوبائی حکومتیں بجٹ کی تیاری میں مصروف ہیں ۔ہر حکومت اپنے بجٹ کو بہترین قرار دیتی ہے ۔غربت اور پسماندگی کے خاتمے کے دعوے کئے جاتے ہیں مگر عملی طور پر اس کے برعکس ہوتا آ رہا ہے ۔ ہر حکومت کہتی ہے کہ ہمارا بجٹ آئی ایم ایف کی ہدایت پر نہیں بلکہ عوام کی ضروریات کے مطابق ترتیب دیا گیا ہے ۔ تحریک انصاف جب برسر اقتدار نہیں آئی تھی تو کہا گیا تھا کہ آئی ایم ایف سے قرض نہیں لیں گے اور اس کی باتوں کو نہیں مانیں گے مگر افسوس کہ موجودہ دور میں قرض لیا گیا اور آئی ایم ایف کے حکم کی تعمیل کے باعث غربت ، بیروزگاری اور مہنگائی میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا اور عام آدمی کا معیار زندگی نہایت نیچے چلا گیا۔ ہر حکومت نئے ٹیکس لگاتی ہے حالانکہ ترقی صرف اور صرف برآمدات کے اضافے سے ہو سکتی ہے ۔
اسد عمر نے برآمدات میں اضافے کے نام پر کرنسی ڈی ویلیو کی اس سے برآمدات میں تو اضافہ نہ ہوا معیشت ابتر ہو گئی۔ سرمایہ دار اور صنعت کار براہ راست ٹیکس نیٹ ورک میں آتے ہیں جسے بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔البتہ ملک کے غریب عوام بل واسطہ طور پر اتنا ٹیکس ادا کرتے ہیں کہ سوچا نہیں جا سکتا ۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان ٹیکسوں کے بدلے غریب عوام کو کیا حاصل ہوتا ہے۔مہنگائی بہت بڑھ چکی ہے بجا طور پر تنخواہوں میں اضافے کے مطالبات ہو رہے ہیں مگر صرف مراعات یافتہ نہیں بلکہ چھوٹے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ ہونا چاہیئے ۔ 20،21 اور22گریڈ کے ملازمین سے درجہ چہارم کے ملازمین زیادہ ہمدردی کے حقدار ہیں ۔
اس سلسلے میں عدلیہ کو ازخود نوٹس لے کر انصاف کے تقاضے پورے کرنے چاہئیں ۔انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ مساویانہ طریقہ کا وضع ہونا چاہیئے ۔ وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان بزدار نے کہا ہے کہ بجٹ میں غریب اور لوئر مڈل کلاس کو ریلیف فراہم کیا جائے گا ۔ دیکھنا یہ ہے کہ بجٹ کی تیاری میں سردار عثمان خان بزدار کا کتنا ہاتھ ہے ۔ اگر ہم پچھلے بجٹ کو دیکھیں تو اس میں بھی یہی دعویٰ کیا گیا تھا اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ ترقی کا رُخ پسماندہ علاقوں کی طرف موڑ دیا گیا ہے ۔
یہ بھی دعویٰ کیا گیا تھا کہ وسیب کے لئے 35فیصد الگ بجٹ مختص کر دیا گیا ہے اور اس کی ایک ایک پائی وسیب پر خرچ ہوگی ۔گزشتہ بجٹ میں 3ارب روپے سول سیکرٹریٹ کے لئے مختص کئے گئے تھے۔ مالی سال ختم ہو رہا ہے ،نیا بجٹ سر پر آ گیا ہے ۔3ارب میں سے ایک پائی بھی خرچ نہیں کی گئی ۔ دعوے میاں شہباز شریف کے دور میں بھی بہت ہوئے مگر اعلانات سے بڑھ کر اصل ضرورت عملدرآمد کی ہے ۔
وسیب کو نظرانداز کرنے پر وسیب میں ہر آئے روز احتجاج ہو رہے ہیں ۔ دھریجہ نگر میں گزشتہ روز ’’وفاقی اور صوبائی بجٹ میں وسیب کا حصہ‘‘ کے موضوع پر سیمینار ہوا جس میں اعداد و شمار کے ذریعے بتایا گیا کہ گزشتہ 74برسوں سے وسیب سے امتیازی کا سلوک ہوتا آ رہا ہے ۔اس موقع پر قراردادیں بھی منظور کی گئیںجو کہ بجٹ کی تیاری میں ممدو معاون ثابت ہو سکتی ہیں ۔
ایک بات یہ بھی ہے کہ تجاویز اور سفارشات اس وقت کارآمد ثابت ہو سکتی ہیں جب کوئی سننے والا ہو اور بہتری کی سوچ رکھتا ہو، یہاں توکوئی سننے والا ہی نہیں اور اقتدار ان لوگوں کے پاس ہے جولفظ غربت سے ناآشنا ہیں۔ صوبائی وزیر خزانہ ہاشم جواں بخت گزشتہ بجٹ کے موقع پر لاہور پریس کلب کی ایک تقریب میں موجود تھے اور وہاں مجھے بھی مدعو کیا گیا تھا ۔سٹیج سیکرٹری نے شکریہ ادا کیا کہ اس کے باوجودکہ وزیر خزانہ بجٹ کی تیاری میں مصروف تھے انہوں نے ہمارے لئے ٹائم نکالا ۔ راقم نے اپنی تقریر میں کہا کہ وزیر خزانہ ، وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کا تعلق پسماندہ سرائیکی وسیب سے ہے اب وقت ہے کہ وہ وسیب کی غربت ، پسماندگی کے لئے اقدامات کریں ۔
میں نے تجاویز دینے کے ساتھ یہ بھی کہا کہ لاہور کی طرف سے وسیب پر یہ الزام ہے کہ وسیب کے لوگ انگریز دور سے لے کر آج تک برسراقتدار چلے آ رہے ہیں اگر وہ وسیب کی ترقی میں رکاوٹ بنیں تو اس میں تخت لاہور کا کیا قصور ہے ؟۔ میں نے کہا خدا کے لئے اب اس طعنے کا داغ دھلنا چاہیئے ۔ مخدوم ہاشم جواں بخت کو میری بات اچھی نہ لگی اور وہ خطاب کئے بغیر واپس چلے گئے ۔ یہ حقیقت ہے کہ پسماندہ علاقوں کی ترقی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ۔
سو دن میں صوبہ بنانے کا تحریری معاہدہ کرنے والوں نے بارہ سو دن گزرنے کے باوجود ابھی تک صوبہ کمیشن تک نہیں بنایا صرف یہی نہیں تین برسوں میں وسیب میں ایک بھی ٹیکس فری انڈسٹریل زون نہیںبنایا گیا ۔ انڈس ہائی وے اور ایم ایم روڈ کو موٹر وے بنانے کے اعلانات ہوئے ،اسی طرح تونسہ یونیورسٹی، راجن پور یونیورسٹی ،پاکپتن یونیورسٹی اور جھنگ یونیورسٹی کے اعلانات تو ہوئے عملی طور پر کچھ نہیں ہوا ، اور تو اور وسیب کے جاری منصوبے جو کہ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے دور میں شروع ہوئے آج تک لٹکے ہوئے ہیں ۔ ان میں ملتان کارڈیالوجی فیز II،ملتان ،خان پور ، ڈی جی خان کیڈٹ کالج ،ملتان میوزیم ،نواز شریف زرعی و انجینئرنگ یونیورسٹی ملتان ،لائیوسٹاک یونیورسٹی بہاول پور کے علاوہ وسیب کے دریائوں پر پلوں کے منصوبے شامل ہیں۔سوال یہ ہے کہ دعوے تو بہت ہوتے ہیں عمل کب ہوگا؟۔ ٭٭٭٭
یہ بھی پڑھیں:
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر