نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فاروق قیصر کے انتقال کی خبر جس تناظر میں ملی اس نے مجھے بوکھلا دیا ہے۔ بہت کوشش کے باوجود کوئی معقول توجیہہ نہیں ڈھونڈ پایا ہوں۔
ہوا یوں کہ جمعہ کی شام کھانے کے لئے میری بیوی اور بیٹیاں مجھ سمیت راولپنڈی کی چکلالہ سکیم میں واقعہ ایک گھر میں مدعو تھے۔ اسلام آباد ایکسپریس وے پر سفر کرتے ہوئے مجھے ان کو یاد دلانا پڑا کہ چکلالہ میرے لئے اجنبی علاقہ نہیں ہے۔ 1975میں لاہور سے اسلام آباد منتقل ہوجانے کے چند ہی ماہ بعد میں تقریباََ روزانہ پاکستان آرٹس کونسل جسے ان دنوں ادارہ ثقافت پاکستان کہا جاتا ہے کی نوکری بھگتانے کے بعد ویگن میں بیٹھ کر لیاقت باغ کے اڈے پر اُترتا۔ وہاں سے ٹیکسی لے کر پاکستان ٹیلی وژن کے چکلالہ میں قائم مرکز پر چلا جاتا۔ وہاں سے رات گئے واپسی ہوتی۔ ٹیلی وژن مرکز پر بیٹھے ہم دوستوں کا ایک گروہ کچھ نہ کچھ تخلیق کرنے کی لگن میں جتا رہتا۔ اس گروہ میں شامل جن افراد کا نام میں نے بہت مان سے لیا ان میں فاروق قیصر کا ذکر سب سے زیادہ رہا۔
ان سے گفتگو کرتے ہوئے دل ہی دل میں اگرچہ دُکھ ہوا کہ میری بچیوں کی نسل اس کے ہنر کے بارے میں کماحقہ انداز میں آگاہ محسوس نہیں ہورہی تھی۔ حیران کن بات مگر یہ ہوئی کہ میزبانوں کے ہاں بیٹھے کھانے کے بعد موبائل فون کے ذریعے اطلاع آگئی کہ فاروق اس دُنیا میں نہیں رہے۔ میرے ذہن میں یہ بات مگر اٹک کررہ گئی کہ چند ہی لمحے قبل تو گرم جوشی سے اسے یاد کررہا تھا۔ موصوف کی بیماری کی بابت مجھے کچھ خبر ہی نہیں تھی۔
فاروق قیصر کو ویسے بھی کسی بیماری کے ہاتھوں نڈھال ہوئے میں بے بسی کے عالم میں بستر تک محدود ہونے کا تصور بھی ذہن میں نہیں لا سکتا تھا۔ تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال اس لمبے تڑنگے شخص کے چہرے پر ہمہ وقت ایک شرارتی مسکراہٹ موجزن رہتی تھی۔ آنکھوں میں حیران کن چمک جو امکانات کے سودروازے تلاش کرلیتی۔ اہم ترین حقیقت یہ بھی تھی کہ فاروق کے ذہن میں جو تصور آتا وہ اسے کمال مہارت سے اپنی تحریر اور کرداروں کے ذریعے ہمارے سامنے ’’سادگی اور پرکاری‘‘ کے اعجاز کے ساتھ بیان کردیتا۔
ہمارے ہاں عموماََ ’’فن کی بے قدری‘‘ کے نوحے لکھے جاتے ہیں۔ فاروق قیصر کے انتقال کے بعد مگر 1970سے 1990کے دوران جوان ہوئی نسلوں کے بے تحاشہ افراد نے اسے پرخلوص عقیدت سے ٹویٹس لکھتے ہوئے یاد کیا ہے۔ اسے یاد کرنے والے خواتین وحضرات میں کئی لوگ ہماری نام نہاد ’’برگر کلاس‘‘ کے نمائندہ بھی تصور ہوتے ہیں۔ مجھے ہمیشہ یہ گماں رہا کہ ’’ماسی مصیبتے‘‘ اور ’’ہیگا‘‘ جیسے کردار غالباََ ان کے لئے اجنبی ہیں۔ وہ ان سے کوئی تعلق محسوس نہیں کرتے۔ یہ دریافت کرتے ہوئے حقیقی خوشی ہوئی کہ مذکورہ کردار بے تحاشہ افراد کی یادوں کا بھرپور حصہ ہیں۔ اپنے خالق یعنی فاروق قیصر کو بھی لہٰذا آئندہ کئی برسوں تک زندہ رکھیں گے۔
فاروق قیصر کے تخلیق کردہ کرداروں کو یاد کرتے ہوئے مگر ان کے خالق کا حقیقی ہنرسراہا نہیں جارہا ۔ اس ہنر کا کلیدی وصف ’’پتلیوں‘‘ کے ذریعے دور حاضر کے تقاضوں کے عین مطابق لوگوں کی توجہ حاصل کرنا ،انہیں فقروں سے گدگدانا اور بعدازاں کچھ سوچنے کو اُکسانا ہے۔
’’پتلی تماشہ‘‘ ہماری ثقافت میں ’’بنجاروں‘‘ نے متعارف کروایا تھا۔ وادیٔ سند ھ کے وہ اصل باشندے تھے۔ وسطی ایشیاء سے آئے دلاوروں کے لشکر ہمارے خطے پر قابض ہونے کے بعد سلطان اور شہنشاہ وغیرہ بن جاتے تو ذرخیز زمینیں ’’بنچ ہزاری‘‘ جیسے منصب داروں میں بانٹ دیا کرتے۔ برطانوی سامراج نے بھی نہری نظام کی بدولت آباد ہوئی زمینوں کی بابت ایسا ہی رویہ اختیارکیا۔
مقامی افراد جبر کی بدولت بنائی ’’اشرافیہ‘‘ کی نظر میں محض ’’جانگلی‘‘ تھے۔ ان کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں تھا۔ عموماََ دریائوں کے کنارے سرکنڈوں سے بنائی بستیوں میں اچھوتوں کی طرح الگ تھلگ رہتے۔ نگر نگر گھومنے والے ان بے زمین بے وسیلہ بنجاروں ہی نے پتلی کا تماشہ ایجاد کیا تھا۔ اس تماشے کو شہروں میں بنائی حویلیوں کے وسیع وعریض صحن کے ایک گوشے میں چارپائی کی مدد سے بنائے ایک ’’سٹیج‘‘ پر رچایا جاتا تھا۔ کھڑی چارپائی کے اوپر ایک چادر لکڑیوں کی مدد سے کھڑی کی جاتی تھی۔ اس کے پیچھے کھڑا ہوا پتلی کار انگلیوں میں لگائے دھاگے کی مدد سے چند کردار ہمارے سامنے نچاتا ۔ عموماََ یہ تماشہ شام کے بعد ہوتا تھا۔ محلے کے 30/25بچے زمین پر بیٹھ کر اسے دیکھتے۔ لالٹین کی روشنی میں پتلیوں کے چہرے نہایت پُرکشش اور پُراسرار محسوس ہوتے۔ ان کی کہانی عموماََ ڈھولک بجانے والی کوئی بنجارن مختصر الفاظ میں بیان کرتی۔ ’’صوتی تاثرات‘‘ پتلی نچانے والا کسی ڈرامائی لمحے میں مسحور کن آوازیں لگاکرفراہم کرتا۔
وقت بدلنے کے ساتھ گھر مگر مختصر ہونا شروع ہوگئے۔ پنجابی میں جسے ہم ’’ویہڑا‘‘ یا صحن کہتے ہیں سب کے لئے ’’سانجھا‘‘ ہوتا تھا۔ معاشرے میں ’’سانجھ‘‘ بھی باقی نہ رہی۔ ’’تفریح‘‘ فراہم کرنے کے لئے مگر تھیٹر بھی ایجاد ہوچکا تھا۔ وہاں ’’ناٹک‘‘ رچانے کے لئے ہال میسر تھے اور سٹیج کو روشن رکھنے کے لئے جدید ترین بتیاں۔ ایسے میں سوال یہ اٹھا کہ ’’پتلی تماشے‘‘ والے ہمارے ہنر کو کیسے بحال رکھا جائے۔
یورپ کے کئی ممالک نے اس تناظر میں فیصلہ کیا کہ ’’پتلیوں‘‘ کو ’’قد آور‘‘ بنایا جائے۔ اُنگلیوں سے نچانے کے بجائے ان کی حرکات وسکنات دیگر انداز میں اجاگر ہوں۔ ڈیڑھ سے دو سو افراد کے لئے بنے ہال کی آخری نشستوں پر بیٹھے تماشائی بھی ان سے لطف اندوز ہوپائیں۔
رومانیہ نے اس ضمن میں حیران کن تراکیب ایجاد ومتعارف کروائیں۔ یاد رہے کہ یورپ کے اس ملک میں بھی ’’بنجارے‘‘ آباد ہیں۔ کئی محققین نے ان کی زبان اور رہن سہن کا گہرا جائزہ لینے کے بعد دعویٰ کیا ہے کہ یورپ کے کئی ملکوں میں آباد بنجارے درحقیقت وادیٔ سندھ پر آریائوں کے حملے کے بعد نگر نگر گھومتے نجانے کس طرح وہاں پہنچ گئے تھے۔
فاروق قیصر کی خوش نصیبی تھی کہ 1970کے آغاز میں لاہورکے نیشنل کالج آف آرٹس میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے وہ نوجوانوں کے اس گروہ میں شامل ہوا جو شعیب ہاشمی اور سلیمہ ہاشمی کی نگہبانی میں نسبتاََ حال ہی میں متعاف ہوئے پاکستان ٹیلی وژن کے لئے کچھ ’’نیا‘‘ کرنا چاہ رہے تھے۔ اس خواہش میں ایک ’’بطخ‘‘ بھی رونما ہوئی اور ’’اکڑبکڑ‘‘ کے چند کردار۔ فاروق قیصر نے ساری توجہ ان کرداروں کو ’’حقیقی‘‘ انسانوں جیسا دکھانے والی پتلیاں اور پتلے بنانے پر مرکوز کردی۔ فیض احمد فیضؔ اس ہنر مند نوجوان کو اسلام آباد لے آئے۔ پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کا ملازم کروایا۔ مزید خوش قسمتی یہ ہوئی کہ رومانیہ نے اپنے ہاں ترقی پانے والے ’’پتلی تماشے‘‘کے جدید انداز کوپاکستان سے آئے طالب علموں تک منتقل کرنا چاہا اور فاروق قیصر کو اپنا ہنر توانا تربنانے کے لئے وہاں جانے کے لئے چن لیا گیا۔
فاروق جدید ترین پتلی تماشے کی جدید تکنیک سیکھ کر وطن لوٹا تو اس طرز کے تماشے کے لئے مختص ہال اور تھیٹر ہمارے ہاں موجود نہیں تھے۔ پاکستان ٹیلی وژن کے اسلم اظہر صاحب مگر ہمہ وقت بے چین رہتے کہ بچوں کی تفریح کے لئے ہمارے ہاں بھی جدید ترین ’’پتلی تماشہ‘‘ ہو۔ ٹی وی سکرین پر ایساتماشہ رچانے کے لئے لیکن کوئی ہنر مند میسر نہیں تھا۔ فاروق قیصر نے اس خلا کو تن تنہا پُرکرنے کی ٹھان لی۔ اسلم صاحب کی سرپرستی کے علاوہ اس ضمن میں پی ٹی وی راولپنڈی-اسلام آباد مرکز کے ان دنوں جواں سال پروڈیوسر قیصر فاروق کا ذکربھی ضروری ہے۔ فاروق قیصر کی طرح یہ قیصر بھی تخلیقی اعتبار سے ایک ضدی شخص تھا۔ یہ دونوں نوجوان یکجا ہوئے تو 1976میں ’’کلیاں‘‘ شروع ہوا اور پاکستان میں پہلی بار جدید ترین انداز میں ’’پتلی تماشے‘‘ کو ٹی وی سکرین پر دکھانے کا رحجان متعارف ہوگیا۔ اس کے بعد جو ہوا حالیہ تاریخ ہے۔ اسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔
یہ حقیقت مگر تسلیم کرنا ہوگی کہ مرتے دم تک اس ہنر پر فقط فاروق قیصر کا اجارہ رہا۔ مسئلہ’’انکل سرگم‘‘ ’’ماسی مصیبتے‘‘یا ’’ہیگا‘‘ جیسے مضحکہ خیز کرداروں کی تخلیق نہیں ہے۔ اصل سوال ان کرداروں کو پتلی اور پتلیوں کے ذریعے تماشائیوں کے روبرو لانا ہے۔ پتلی کو تماشے کے قابل بنانا اپنے تئیں ایک کامل ہنر ہے۔ اس کے لئے پتلی بنانے والے کو ’’لوہار-ترکھان، مجسمہ ساز اور درزی‘‘وغیرہ بھی ہونا پڑتاہے۔ فاروق قیصر کی شخصیت میں یہ سارے ہنر یکجا ہوئے تو بات بنی۔ میرا نہیں خیال کہ مختلف النوع ہنروں کے بیک وقت استعمال کے ساتھ پتلی اور پتلے بنانے والا کوئی اور شخص فاروق قیصر کی جگہ لے سکتا ہے۔ اسی باعث کسی تخلیق کار کی موت کے بعد ’’خلا‘‘ کا لفظ استعمال کرنے سے ہمیشہ چڑکھانے کے باوجود یہ لکھنے کو مجبور محسوس کررہا ہوں کہ فاروق قیصر کی اس دُنیا سے رخصت نے پاکستان میں پتلی تماشے کے حوالے سے جو خلاء پیدا کیا ہے اسے پُرکرنا ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔
بشکریہ: نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر