محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلے کالم میں تفصیل سے معروف صحافی ابصار عالم کے ایک مضمون کا ذکر کیا۔ ’’گمراہی سے گولی تک ‘‘ کے نام سے شائع ہونے والے اس مضمون میں انہوں نے کئی نکات اٹھائے اور بعض ایسی باتیں کہیں جو خلاف واقعہ اور غلط تھیں، اسی وجہ سے پچھلا کالم لکھا ،آج کی تحریر بھی اسی ضمن میں ہے۔
محترم ابصار عالم نے اپنے مضمون میں بنیادی مقدمہ دو نکات پر استوار کیا۔ان کے اپنے الفاظ میں،’’ مذہب کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کر کے سادہ لوح عوام کو بے وقوف بنایا جاتا ہے اور پھر کس طرح جج، جرنیل، جرنلسٹ،ملا اور الیکٹ ایبل سیاستدانوں پر مشتمل اسٹیبلشمنٹ اپنی انٹلکچوئل کرپشن کا کھیل جاری رکھتی ہے۔‘‘ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ’’ 1977 کے بعد پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے سبق سیکھا اور اپنا طرز سیاست بہتر کیا۔‘‘
فاضل مصنف نے کئی مثالیں دے کر اور جذباتی اشعار اور فقروں کا سہارا لے کر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ سبق اسٹیبلشمنٹ نے نہیں سیکھا اور وہ اپنا پرانا کھیل ہی کھیل رہی ہے۔ آخر میںمحترم نے ایک دلچسپ نتیجہ یہ نکالا،’’ تندور کی روٹی آم کی چٹنی کے ساتھ کھا کر لسی پی کر نیم کے سائے تلے سوکر خراٹے مارنے والا پاکستانی ، خاص کر پنجابی جاگ چکا ہے۔‘‘
پہلے مصنف کے اخذ کردہ نتیجے پر بات کر لیتے ہیں۔ یہ دراصل ن لیگی بیانیہ ہی ہے بلکہ کہہ لیں کہ ن لیگی قیادت کی دل خوش کن تمنا ہے۔ پنجابی جاگ چکا ہے یا ابھی سویا ہوا ہے یا وہ غریب دن رات روٹی کمانے کے چکر میں سونے کا وقت بھی نکال سکتا ہے یا نہیں، اس سے قطع نظر ن لیگی قیادت پنجاب میں اپنے ووٹر کو کھڑا کرنے اور احتجاج کے لئے آمادہ کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔مسئلہ صرف یہ ہے کہ جب قائد محترم اپنے صاحبزادگان کے ہمراہ باہرسرد فضائوں میں بیٹھے کافی پی رہے ہوں ،تب کارکن غریب کیوں اس قدر گرمی میں اپنی جانیں مشکل میں ڈالیں گے؟
ہر ایک کو مولانا فضل الرحمن جیسے سادہ لوح، عقل وفراست سے نا آشنا مقلدین تو دستیاب نہیں ہوتے۔ زرداری صاحب کی طرح اتنا خوش نصیب سیاستدان بھی ہر کوئی نہیں کہ سندھ کارڈ کے غیر مشروط استعمال کا حق ان کے پاس ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ پنجابی ٹوٹ کر چاہتے ہیں تو ویسے ہی سر اٹھا کر سوال بھی پوچھتے ہیں۔ الیکٹ ایبلز کی قوت ، تاجروں کے سرمایہ اور کونسلروں کے نیٹ ورک کی بنیاد پر الیکشن ہائی جیک کرنا الگ بات ہے۔ اس کام میں ن لیگ ماہر رہی ہے۔
عوامی سیاسی تحریک چلانا بالکل ہی مختلف معاملہ ہے۔ہر فوجی آمر بلدیاتی انتخابات کراتا ہے اور ٹھیک ٹھاک ووٹ پڑتا ہے۔ غیر جماعتی انتخابات میں بھی لوگ باہر نکل کر ووٹ ڈال دیتے ہیں اور جب بڑی جماعتوں کے قائد جلاوطن ہوں ، تب صف دوم کی جماعتوں کو بھی ووٹ پڑ جاتے ہیں۔ سیاسی تحریک ہی ٹیسٹ کیس ہے۔ جلسوں میں عوامی شمولیت ہو تو سوشل میڈیا پر کمپین چلانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ہر کوئی خود تسلیم کر لیتا ہے۔ بات پنجابی کے جاگنے یا سونے کی نہیں، بات پنجابی ہونے کے دعوے دار لیڈر کی سچائی اور بیانیہ کی قوت کی ہے۔
جب بیانیہ مصنوعی ہو تو لاکھ سوشل میڈیا کا ملمع چڑھایا جائے، کوئی فائدہ نہیں۔ عمران خان اپنی ہر تقریر میں عثمان بزدار کے قصیدے پڑھتے ہیں،ان کی کارکردگی کو سراہتے ہیں ، مگر کسی پر اثر ہوا؟ نہیں۔ سٹیج پر بیٹھے لیڈر بھی منہ پھیر کر مسکرانے لگتے ہیں۔ سچ سچ ہے، جھوٹ جھوٹ ۔ میاں نواز شریف تین بار وزیراعظم بن گئے،مگر ان کا جمہوریت سے کوئی تعلق رہا نہ ہی اب وہ انقلابی ہیں۔ الیکشن ان کے لئے صرف اقتدار میں آنے کا ایک ذریعہ ہے ، بس صرف اتنا ہی معاملہ ۔ اگر وہ جمہوریت کے لئے دس فیصد بھی سنجیدہ ہوتے تو سب سے پہلے اپنی جماعت میں جمہوریت لاتے، بلدیاتی سسٹم کو مضبوط بناتے، انتخابی اصلاحات لا کر سرمایہ داروں کو الیکشن سے باہر رکھتے، اپنے مخلص نظریاتی کارکنوں کو ٹکٹیں دے کر اسمبلی میں پہنچاتے۔
اپنے سیاسی نابالغ ، ناپختہ سوچ رکھنے والے بچوں کو قیادت پر بٹھانے کے بجائے پارٹی کے تجربہ کار قربانیاں دینے والے سیاستدانوں کو آگے لاتے۔ ایسا کچھ نہیں ہوا تو یہ جمہوریت، عوام، سبق سیکھنا، انقلاب وغیرہ سب کہانیاں ہیں بابا۔ ابصار عالم نے دعویٰ کیا کہ 1977ء کے بعد سیاسی جماعتوں نے سبق سیکھا اور اپنی طرز سیاست کو بہتر کیا۔ کیسے ؟80 اور 90 کے عشرے میں ہماری بڑی سیاسی جماعتیں کیا کرتی رہیں؟ ایک دوسرے کو گرانے کی کوششیں، محلاتی سازشیں۔ ایک دوسرے کے خلاف ذاتی حملے، پروپیگنڈہ ، لانگ مارچ ، ہارس ٹریڈنگ وغیرہ وغیرہ۔
مشرف نے جب نواز شریف کو اٹھا کر باہر پھینک دیا تو بی بی نے اپنے ابتدائی بیانات میں فوجی آمر کا خیر مقدم کیا۔ان کا خیال تھا کہ شائد انہیں موقعہ دیا جائے گا، مشرف نے جب دونوں کو باہر پھینکا تو پھر مسلم لیگ، پیپلزپارٹی دونوں کو محرومی کا احساس ہوا، مل کر اتحاد بنایاجو چند ماہ بمشکل چل پایا۔میاں صاحب معاہدہ کر کے باہر چلے گئے۔ پانچ سات سال بعد ان سب نے مل کر ایک میثاق جمہوریت طے کیا، حامی لکھاریوں نے اس کے قصیدے پڑھے ، عظیم جمہوری کامیابی قرار دیا۔ ہوا کیا؟ میثاق جمہوریت پر دستخط کرنے سے پہلے اور اس کے فوری بعد محترمہ بے نظیر بھٹو نے انگلینڈ کے ذریعے امریکی اسٹیبلشمنٹ کو انوالو کیا، بہت سی یقین دہانیاں کرائیں اور باقاعدہ طور پر فوجی آمر سے مذاکرات کئے ۔
میثاق جمہوریت میں واضح لکھا تھا کہ کبھی کسی آمر سے مذاکرات نہیں کرنے۔بی بی نے مزے سے یہ سب کیا۔ اپنے کیسز سے ریلیف پانے کے لئے این آر او حاصل کیا اور وطن لوٹ آئیں۔ وہ ٹی ٹی پی کی دہشت گردی کا نشانہ بنیں تو آصف زرداری جو پیپلزپارٹی کے ناپسندیدہ ترین شخص تھے، اچانک ہی پارٹی قائد بن گئے۔ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے منصوبہ بندی کے تحت’’ پاکستان نہ کھپے‘‘ کا نعرہ لگایا اور پھر جناب زرداری نے عظیم وطن پرست ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اسے روکا اور’’ پاکستان کھپے ‘‘کا نعرہ لگا کر ہیرو بن گئے ، ساتھ ہی اگلے پانچ برسوں کے لئے ملک کے طاقتور ترین شخص بھی۔ذوالفقار مرز کی اتنی حیثیت تھی کہ وہ ایسا نعرہ لگا پاتے؟ وہ کیا تھے؟
زرداری صاحب کے فرنٹ مین ۔ بعد میں بدین کے ایم پی اے بنے اور بس۔ آج مرزا کہاں ہیں؟ دودھ میں گری مکھی کی طرح نکال کر باہر پھینک دئیے گئے۔ یہ سب سوچا سمجھا ڈرامہ تھا، جسے عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے کھیلا گیا۔ اگلے دس برس تک دونوں بڑی جماعتیں اپنی اپنی باری پر فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرتی رہیں۔ میاں نواز شریف نے زرداری حکومت کو پانچ سال تک غیر مشروط سپورٹ دی۔ ہر اہم موقعہ پر وہ ملک سے باہر چلے جاتے۔
پنجاب پر ان کی حکومت تھی، جانتے تھے کہ زرداری صاحب اپنی نالائقی اور بیڈ گورننس سے پیپلزپارٹی تباہ کر رہے ہیں، اگلی باری ان کی ہوگی۔ ویسا ہی ہوا۔ زرداری صاحب نے اب نورا کشتی شروع کر دی۔ خورشید شاہ اپوزیشن لیڈر تھے جسے لوگ طنزیہ وزیر برائے اپوزیشن امور کہنا شروع ہوگئے۔ یہ طے ہوگیا تھا کہ ن لیگ نے سندھ میں دخل نہیں دینا اور پیپلزپارٹی نے پنجاب کو’’ علاقہ غیر‘‘ سمجھنا ہے۔ میاں صاحب نے سندھ مسلم لیگ تباہ کرا لی اور زرداری صاحب نے پیپلزپارٹی پنجاب پر فاتحہ پڑھ لیا۔دونوں کی فرینڈلی اپوزیشن اور موقعہ پرستی کے نتیجے میں جو سیاسی خلا پیدا ہوا، اسے عمران خان نے پر کیا۔ عمران خان جیسا سیاسی حرکیات سے نابلد شخص ہرگز اتنی مقبولیت نہ حاصل کر پاتا، اگر بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنی طرز سیاست درست کی ہوتی اور1977 سے سبق سیکھا ہوتا۔ 77 19کا سب سے اہم سبق تو یہ ہے کہ حکمران کو بیوروکریسی کے بجائے عوام سے جڑا ہونا چاہیے۔
، اسے حقیقی جمہوریت نافذ کرنی چاہیے، گراس روٹ لیول پر سیاسی کارکن کے ساتھ تعلق مضبوط ہونا چاہیے۔ اگر ن لیگ نے ایسا کیا ہوتا تو میاں نواز شریف ملک میں ہوتے یا باہر، ان کی جماعت پر فرق نہیں پڑنا تھا۔ پھر اسٹیبلشمنٹ یا جو بھی ان کے خلاف سازشیں کرتا ، ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ میاں صاحب کو سب سے زیادہ نقصان ان کی اپنی غیر جمہوری سوچ نے پہنچایا ہے۔ یہی نقصان زرداری صاحب کو بھی ہوا، ان کی خوش قسمتی کہ سندھ میں چونکہ متبادل سیاسی قوت ہی موجود نہیں، اس لئے ووٹر مجبور ہے۔شریف خاندان نے تو خیر دانستہ ایسا کیا، لیکن اگر عمران خان سندھ پر توجہ دیتے اور وہاں تنظیم سازی کرتے، سندھی ووٹر کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کرتے تو ممکن ہے پچھلے الیکشن میں پیپلزپارٹی کی سادہ اکثریت نہ بن پاتی۔
خیر عمران خان کی حکومتی ناکامی نے تو پنجاب میں بھی ن لیگ کو زندہ رکھاہوا ہے۔اگر وہ پنجاب میں ایک کمزور ترین شخص کو وزیراعلیٰ بنانے کے بجائے کسی ڈھنگ کے بندے کو ذمہ داری دیتے ، جو ڈیلیور بھی کرتا تو پنجاب میں ن لیگ بری طرح ٹوٹ پھوٹ جاتی۔
اس کی وہی حالت ہوتی جو 2002 سے 2007 تک پنجاب میں تھی۔ شائد اس سے بھی بری۔ ایک اہم نکتہ رہ گیا، اسٹیبلشمنٹ کے کرداراور(ابصار عالم کے بیان کردہ) پانچ طبقات کی مبینہ انٹلکچوئل کرپشن کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ ممکن ہے جائزہ لینے سے انٹلکچوئل کرپشن کا یہ طوق الزام لگانے والوں کی گردن میں پڑ جائے۔ ان شااللہ اس پر بات ہوگی۔
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر