ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”جمہوریت اگرچہ مثالی طرز حکومت نہیں ہے لیکن اس سے بہتر کوئی اور نظام حکومت ابھی تک دریافت نہیں ہوا“ یہ فقرہ شاید بہت سے سیاسی مشاہیر کہہ چکے ہیں۔ مجھ پر یہ بات اس طرح آشکار نہیں ہوئی جس طرح ”سورہ ابراہیم“ کے مطابق ان عظیم پیغمبر پر خدا کی یکتائی منکشف ہوئی تھی، جو نہ سورج تھا، نہ بادل، نہ ہوا نہ ہی چاند ستارے، بس وہ تھا جو دکھائی نہیں دیتا لیکن محسوس کیا جا سکتا ہے۔
طرز حکومت و سیاست، خدا کی وحدانیت، ثنویت، ثلاثت یا کثرت کا مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ خدا کی مخلوق انسان کے لیے سہولتیں، مواقع، آسائشیں، راحتیں اور آسانیاں میسر آنے کا معاملہ ہے۔
میری عمر تھی سترہ برس اور ملک میں پہلے فوجی آمر ایوب خاں کے خلاف تحریک چل رہی تھی۔ میں گورنمنٹ کالج لاہور میں ایف سی سال دوم کا طالبعلم تھا۔ میں اس تحریک کے مظاہرین میں شامل ہو گیا تھا۔ پھر بھٹو کی حکومت آ گئی تھی۔ مصطفٰی کھر نے بطور گورنر پنجاب آمرانہ طریقے اختیار کر لیے تھے۔ ان اقدامات کے خلاف باقیوں کے ساتھ میں بھی ڈٹ گیا تھا۔
مجھے پولیس نے سرعام شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ بعد میں پولیس والے خود متحیر تھے کہ میں بچ کیسے گیا۔ جیل بھیج دیا گیا تھا۔ قید تنہائی کی کوٹھڑیوں میں ناصر زیدی بھی ساتھ تھا جو بعد میں صحافی بنا جسے ایک اور آمر کے دور میں کوڑے کھانے کا اعزاز حاصل رہا۔ پولیس کے ہاتھوں شدید مار کھا کر ڈٹے رہنے والے کے طور پر مجھے جام ساقی نے جیل میں پہچان لیا تھا یوں ہماری دوستی ہو گئی تھی۔ ڈٹ جانے کی بات ایسے تھی کہ پولیس والے مجھے ڈنڈوں، مکوں، تھپڑوں اور لاتوں سے مارتے جاتے تھے اور ایک تھانیدار چیخ چیخ کر کہتا جاتا تھا، ”کہہ میں بھٹو دا سالا“ میں کہتا تھا، ”توں بھٹو دا سالا“ وہ سب مجھے اور مارتے تھے۔ یہ بات کسی مقامی اخبار نے لکھ دی تھی جو کہیں سے مع میری مار کھاتے ہوئے تصویر کے ساتھ جام ساقی کی نظروں گزری تھی۔
ان مقدمات کو سہتے سہتے ایم بی بی ایس کر لی تھی اور بہ حالت مجبوری فوج میں کپتان ہونا پڑا تھا۔ 4 جولائی 1977 کو صبح نو ساڑھے نو بجے تمام افسروں کو آڈیٹوریم میں طلب کیا گیا تھا۔ لمبے تڑنگے وجیہہ کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل اعجاز عظیم سٹیج پر آئے تھے، جن کے ہاتھ میں دو تین لکھے ہوئے صفحات تھے، تحریر کے کچھ حصوں کو سرخ قلم سے نشان زدہ کیا گیا تھا۔ انہوں نے بہت پرجوش تقریر کی تھی اور الزام لگایا تھا کہ فوج کو بغاوت پر اکسایا جا رہا ہے۔ تحریر والے کاغذات ائر مارشل اصغر خان کی جانب سے فوج کو لکھے گئے خط کی نقل تھے۔
6 جولائی 1977، وہی آڈیٹوریم، طلب کردہ وہی افسران، وہی کور کمانڈر۔ فرق اتنا تھا کہ اس بار ان کے ہاتھ میں سرخ نشان زدہ کاغذ نہیں تھے۔ تقریر جوش کے بغیر اور بھٹو کی معزول کردہ حکومت کے خلاف لیکن مارشل لاء کے حق میں تھی۔ میرا دل بجھ گیا تھا۔
فوج میں رہتے ہوئے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاءالحق کی مخالفت میں میں جو کچھ کر سکتا تھا وہ میں نے کیا تھا۔ مثال کے طور پر ایک بار ضیاء کو ملتان آنا تھا، ہیلی پیڈ پر بطور ڈاکٹر میری ڈیوٹی لگائی گئی تھی۔ میں نہ صرف یہ کہ خود نہیں گیا تھا بلکہ میں نے باقی ڈاکٹر کپتانوں کو بھی کسی بہانے اپنے کمرے میں بلا کر مارشل لاء مخالف بحث میں مصروف کیے رکھا تھا۔
ایک سال بعد جب فوج میں سروس بحال رکھنے یا نہ رکھنے کا عندیہ لینے کی خاطر مجھے اپنے کمانڈنگ افسر لیفٹیننٹ کرنل کے ہمراہ، کورکمانڈر سے ملنا پڑا تھا تو فوج میں رہنے یا نہ رہنے بارے ان کے استفسار کا جواب میں نے نفی میں دیا تھا۔ جب اعجاز عظیم صاحب نے وجہ پوچھی تو میں نے کہا تھا کہ ”سر فوج کا کوئی دین ایمان ہی نہیں ہے، ایسے ادارے میں بھلا کیا رہنا“۔ انہوں نے بھنا کر پوچھا تھا، ”کیا مطلب ہے تمہارا؟“ تو میں نے انہیں لفظوں کی شکل میں چار جولائی اور چھ جولائی کی ان کی ہی دو مختلف تصویریں دکھا دی تھیں۔ وہ مدبر شخص تھے، سر نیہوڑا کر بولے تھے، ”ہاں فوج میں ایسا ہو جایا کرتا ہے“ یہ کہہ کر ریلیز کیے جانے کے اجازت نامے پر دستخط کر دیے تھے۔
ضیاء کے پورے دور میں، میں کسی نہ کسی طرح جمہوریت کی بحالی کے لیے متحرک رہا تھا۔ تین ماہ کے لیے ایم آر ڈی پنجاب کا کنوینر بھی رہا تھا، جس دوران وائی ایم سی اے لاہور میں ایک بڑا جلسہ بھی کیا گیا تھا، جس میں معراج محمد خان جیسے زعماء شامل تھے۔
روس آنا ہوا تھا۔ پرویز مشرف نے نواز شریف کو چلتا کر دیا تھا۔ ماسکو میں میرا ایک دانشور دوست شروع شروع میں پرویز مشرف کے لیے رطب اللسان تھا۔ میں نے پہلے روز سے ہی پرویز مشرف کی مخالفت کی تھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ معاصر عہد میں کہیں بھی کسی فوجی کی حکومت نے کچھ بھلا نہیں کیا تو پرویز مشرف کوئی استثنٰی نہیں تھے۔ فوجیوں کی ذہانت و فراست سے جتنا گھر کا بھیدی آشنا ہو سکتا ہے، کوئی اور بھلا کیسے ہو سکتا ہے۔ اور تو اور میرے دوست لیفٹیننٹ کرنل (ریٹائرڈ) فرقان شیخ اور میجر جنرل (ریٹائرڈ) انور سعید خان، جن کی ذہانت بارے مجھے کوئی شبہ نہیں وہ بھی جب فوج میں تھے تو بعض اوقات ”رٹو طوطے“ کی سی زبان ہی بولا کرتے تھے۔ ان کی مجبوری ہوتی ہے کہ انہیں ماسوائے حکم سننے اور حکم سنانے کے مشاورت کرنا یا کسی اور کی مان لینا آتا ہی نہیں۔
یوں مجھ پر یا کسی دوسرے جمہوریت پسند پر جمہوریت پسندی کسی پیغمبر کی طرح منکشف نہیں ہوئی بلکہ اس کا اکتساب ہوا ہے۔ جمہوریت پسندی یا آمریت پسندی (دوسرے معانی میں حاکمیت پسندی) ہوتی ہے تو کلی طور پر ہوتی ہے، نہیں ہوتی تو کلی طور پر نہیں ہوتی۔ اگر کوئی ایک مقام پر خود کو جمہوریت پسند کہے مثال کے طور پر یہ کہ وہ ملک میں انتخابات کرائے جانے کے حق میں ہو لیکن کسی اجتماعی تنظیم میں انتخابات کی بجائے عہدہ داروں کو متعین کرنے کے حق میں ہو تو اسے کسی بھی طرح جمہوریت پسند نہیں کہا جا سکتا۔ جمہوریت دین کی طرح ہوتی ہے جس میں پورے کا پورا داخل ہونا ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر