ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پردیس ہے، عید ہے، کھڑکی سے باہر موسم بہت اچھا ہے پر دل کے موسم کا کیا کریں؟
کبھی کبھی جی چاہتا ہے وقت کے اڑن کھٹولے پہ جا بیٹھوں، اپنے بچپن میں جا اتروں، وہ سارے منظر پھر سے دیکھوں، وہ لمحے مٹھی میں بند کرنے کی کوشش کروں جو ہاتھ سے ریت کی طرح پھسل کے عمر عزیز کے خلا میں گم ہو چکے ہیں۔
جونہی رمضان شروع ہوتا، ہم ابا سے تقاضا کرنا شروع کر دیتے کہ عید کارڈ جلدی لا کر دیں۔ ہمارے ابا ہر بچے سے عید کارڈ کی تعداد پوچھتے اور مطلوبہ تعداد مہیا کر دیتے۔
پھر ایک ہنگامہ برپا ہوتا۔ عید کارڈ لکھے جا رہے ہیں، دور شہروں کے کزنز، سکول کی سہیلیاں، محلے کے دوست، استاد، اور ہاں ہیڈ مسٹریس کے نام۔
لفافوں پہ ٹکٹ چسپاں کیے جاتے، حوالہ ڈاک ہوتے اور اب ایک نیا مرحلہ درپیش ہوتا، ہر روز ڈاکیے کا انتظار۔
ہمارے ابا کا ایک اصول اور وہ سختی سے اس پہ کاربند تھے۔ ساری ڈاک دیکھتے مگر کسی بچے کے نام آنے والا لفافہ کبھی نہ کھولتے، سیدھا بچے کے ہاتھ میں دیتے، ذاتیات میں دخل اندازی نہ کرنے کا چاہے سامنے بچہ ہی کیوں نہ ہو، کا پہلا سبق تب سیکھا اور اعتماد کا دوسرا سبق بھی۔
روزانہ ڈاک آتی، کچھ کارڈ سب کے نام مشترکہ ہوتے اور کچھ سب کے اپنے اپنے۔ اب سب بہن بھائیوں میں مقابلہ شروع ہوتا، کس کے نام سب سے زیادہ کارڈ۔ میرا خیال ہے آپ بوجھ سکتے ہیں کہ جیت کس کے حصے میں آتی تھی۔
اب عید کی تیاری کا مرحلہ شروع ہوتا۔ ہمارے گھر میں آزادی رائے اور پسند ناپسند کی بہت اہمیت تھی، سو ہر بچے سے پوچھا جاتا کہ وہ کیسے کپڑے جوتے پہننا چاہتا ہے۔ لڑکوں کے کپڑے درزی کے حوالے کیے جاتے تھے۔ اماں سلائی کڑھائی میں طاق، سو لڑکیوں کا محاذ وہ سنبھال لیتیں۔ اس سلسلے میں گھر کا سب سے مشکل بچہ ہم ہوتے۔
اس زمانے میں ڈیزائنر کپڑوں کا چلن
نہیں ہوا تھا۔ لیکن ہمیں تو کچھ مختلف چاہیے ہوتا تھا سو سیکنڈ ہینڈ انگلش میگزین خریدا جاتا۔ انگریزی میکسی اور فلیپر ڈیزائن ڈھونڈے جاتے، کس کے ساتھ کس طرح کا کپڑا چلے گا، اس پر غور و فکر ہوتا۔ میری دونوں بہنیں میری خاموش ساتھی ہوتیں۔
اماں انگریزی نہیں پڑھ سکتی تھیں پر وہ اس سارے عمل میں ہمارا بھرپور ساتھ دیتیں۔ ڈیزائن سمجھتیں، اخبار پہ بناتیں، کاٹتیں، کامن پن سے جوڑتیں۔ اور اس سارے عمل کو اس وقت تک کرتی رہتیں، جب تک ہم پاس نہ کر دیتے۔
اب اخباری نمونے کی روشنی میں
کپڑے کی باری آتی، تراش خراش ہوتی اور بالآخر میگزین کی ماڈل، میگزین سے باہر آ جاتی۔
اب سوچتی ہوں کہ ہماری کم تعلیم یافتہ ماں کے پاس اپنی اولاد کی خواہش پورا کرنے کا کتنا شوق، صبر، اور مستقل مزاجی تھی۔
اور یہاں ہم نے تیسرا سبق سیکھا کہ
ہمارے ماں باپ ایک لڑکی کی اپنی سوچ، کچھ مختلف کرنے کا خیال اور ماڈرن بننے کی کوشش میں قطعی حائل نہ ہوئے۔ اور یہ درس سننے کو نہ ملا
”ہمارے گھروں میں ایسا نہیں ہوتا“
”اچھی لڑکیاں اس طرح کے کپڑے نہیں پہنتیں“
”یہ حرام ہے“
اب جوتوں کا مرحلہ آتا!
ہمیں ایڑھی والے جوتے پہننے کا بے حد شوق اور مسئلہ یہ کہ چھوٹی عمر میں ٹانگ تڑوا چکے تھے۔ جڑ تو چکی تھی پر ماں باپ کو احتیاط کی فکر ہر وقت دامن گیر رہتی تھی۔ ایسی ہی ایک عید تھی جب اماں نے ہماری فرمائش پوری کرنے سے انکار کر دیا ہمارے رونے دھونے کا بھی کوئی اثر نہ ہوا۔ اب آخری حربہ بھوک ہڑتال تھی۔ معاملہ ابا کی عدالت میں پہنچا اور دلائل میں ہم جیت گئے اور ہماری جیت کا احترام کیا گیا اور یہ چوتھا سبق تھا جو ہم نے سیکھا۔
اختلاف رائے کے بعد جیتنے والے کی رائے کا احترام، چاہے وہ عمر اور مرتبے میں کم ہی کیوں نہ ہو۔
ہمیں تصویر کھنچوانے کا بے حد شوق تھا آپس کی بات ہے کہ اب بھی ہے
عید کا دن تھا، خوب دل لگا کے تیار ہوئے، عمر کوئی گیارہ بارہ سال۔ چھوٹے دو بہن بھائیوں کے ساتھ باہر نکلے۔ وہی پھیری والا، وہی غبارے، وہی جھولے، وہی سستے کھلونے ہماری طبعیت کسی پہ مائل نہ تھی ہمیں کچھ نیا کرنا تھا (یہ عادت آج بھی ہے۔ )
آئیڈیا سوچا گیا، دو اور چھوٹے چھوٹے بچوں کو ساتھ ملایا، عیدی کے پیسے جمع کیے گئے اور ٹیم لیڈر اپنے ساتھیوں کو لے کر قریبی بازار کی طرف چل پڑی بغیر کسی گھر کے بڑے کے۔
ہمیں آج بھی اس فوٹوگرافر کی شکل پہ ابھرنے والی حیرت یاد ہے جو پانچ چھوٹے بچوں کو اکیلے سٹوڈیو میں داخل ہوتے دیکھ کے ابھری تھی اور ان پانچ بچوں میں سب سے بڑی ایک گیارہ بارہ سال کی بچی تھی جس نے تصویر کھنچوانے کے نرخ طے کیے تھے اور پھر سائز منتخب کیا تھا۔ بعد میں جب وہ تصویر ہمارے اور ان بچوں کے والدین تک پہنچی تو حیرت اور پریشانی کئی دن تک ان کے چہروں کا حصہ تو بنی مگر ڈانٹ کہیں نہیں تھی۔ اور یہ شفقت اور مہربانی کے ساتھ غلطی معاف کرنا ہمارا پانچواں سبق تھی۔
وقت کے پلوں سے بہت پانی بہہ چکا۔ ماں باپ گزر چکے۔ وہ مقام نہیں رہے، منظر بدل چکے۔ خد و خال پر وقت نے بیتے ہوئے موسم تحریر کر دیے، پر حافظے کی تختی پہ وقت بہت سے نقوش چھوڑ گیا ہے جو اب سرمایہ حیات ہیں۔
ایک بات حیرت میں مبتلا کرتی ہے۔ آج زندگی کے ایسے موڑ پہ کھڑے ہیں جہاں ہر چیز ہاتھ بڑھانے کی دسترس میں ہے، ہر خواہش کے لئے صرف خواہش ہونا ہے لیکن نہ ہاتھ اٹھتا ہے اور نہ ہی خواہش جنم لیتی ہے۔ وہ سادہ اور معصوم دل جو ماں باپ کی محبتوں کے سائے میں مچلتا تھا، کب کا ٹھہر چکا، خواہشیں شعور کے اس تالاب میں اتر چکیں جہاں آنکھ سے حیرت اور دل سے عید کے میلے کی خوشی رخصت ہو چکی۔
اب وہ دل اپنے بچوں کو دیکھ کے دھڑکتا ہے، اب اپنے بچوں کی بے تابیاں اس دل کو گرماتی ہیں۔
مگر وقت بدل چکا!
آج کا بچہ نئے ہزاریے کا بچہ ہے۔ اکیسویں صدی کے رنگوں میں جیتا ہے۔ غبارے، جھولے، گنڈا گولہ، پھیری والے، یہ سب اب اس کی عید کا حصہ نہیں۔
ہاں تصویر کا شوق باقی ہے لیکن سٹوڈیو اور فوٹوگرافر والی تصویر نہیں بلکہ سیلفی!
تو چلیے سیلفی کھینچ لیجیے! رسم دنیا بھی ہے، موقع بھی اور دستور بھی!
پردیس سے دیس والوں کو عید مبارک!
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر