نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

’مرتے دم تک نہ بخشنے کا دعویٰ‘ || نصرت جاوید

حکومتوں کا بنیادی فریضہ ٹھوس حقائق کا دیانت دارانہ جائزہ لیتے ہوئے ایسے اقدامات لینا ہوتا ہے جو ابتری وخلفشار کا تدارک کریں۔ ’’حکومت جاتی ہے تو جائے‘‘ جیسی گفتگو مایوس ہوئے دلوں میں سلگتی آگ کو بھڑکاتی ہے۔ اسے ٹھنڈا نہیں کرتی۔

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریک انصاف کے متعصب ترین نقاد بھی جب فراخ دلی دکھانے کو ا ٓمادہ ہوں تو یہ تسلیم کرنے کو مجبور ہوجاتے ہیں کہ یہ وطن عزیز کی پہلی سیاسی جماعت ہے جس نے روایتی اور سوشل میڈیا کی حرکیات کو متاثر کن مہارت سے استعمال کیا۔ ترقی اور خوش حالی کی دوڑ میں مختلف وجوہات کی بناء پر پیچھے رہ جانے والوں کو عمران خان صاحب کی کرشماتی شخصیت کی بدولت پیغام یہ دیا گیا کہ قومی وسائل پر چند خاندان مافیا کی صورت مسلط ہوچکے ہیں۔ جمہوری نظام کو وہ فقط اقتدار کے حصول کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اقتدار پر قابض ہوجائیں تو ریاستی سرپرستی ان کے دھندوں کو مزید پررونق بنانے میں مصروف ہوجاتی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ سیاست کو اجارہ دار سیٹھوں کے قبضے سے نجات دلائی جائے۔

ہمارے متوسط طبقے کے بے چین اور امید سے محروم ہوئے نوجوانوں کی کثیر تعداد کو اس بیاینے نے جنونی انداز میں متحرک کیا۔ ہم اس بحث میں فی الوقت الجھنے سے گریز کرتے ہیں کہ ریاستی مداخلت کے بغیر ہوئے صاف شفاف انتخابی عمل کے ذریعے تحریک انصاف کے پیغام سے متحرک ہوئے افراد اس جماعت کو جولائی 2018میں اقتدار تک پہنچانے کا حقیقی سبب تھے یا نہیں۔ اپریل 2016سے بہرحال پانامہ دستاویزات کے منکشف ہونے کی وجہ سے ایک ماحول اُبھرنا شروع ہوا۔ اگست 2018میں اس کی بدولت عمران خان صاحب وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوگئے۔

ذوالفقارعلی بھٹو کے بعد وہ یقینا ایک بہت ہی بااختیار وزیر اعظم نظر آئے۔ اہم ترین ریاستی ادارے ان کے ساتھ ’’ایک پیج‘‘ پر رہے۔ میڈیا اور عدلیہ بھی عمران حکومت کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے نظر نہیں آئے۔ ’’قوم کی لوٹی ہوئی دولت‘‘قومی خزانے میں تاہم تین برس گزرنے کے با وجود واپس نہیں آئی۔ ریاستِ پاکستان کو اپنا کام چلانے کے لئے آئی ایم ایف سے ’’امدادی پیکیج‘‘ کی درخواست کرنا پڑی۔ کئی برادر ممالک نے بھی ہماری معیشت میں ’’استحکام‘‘ دکھانے کے لئے قابل ستائش کردار ادا کیا۔ مقامی اور بین الاقوامی اداروں کے تمام تر تعاون کے باوجود مگر ہماری معیشت ابھی تک بحال نہیں ہوئی ہے۔ مہنگائی،بے روزگاری اور کسادبازاری میں سنگین تر اضافہ ہوئے چلاجارہاہے۔ دریں اثناء کرونا کی وباء بھی نازل ہوگئی جس نے لوگوں کو گھروں تک محدود ہونے کو مجبور کردیا ہے۔

ایسے عالم میں مجھ جیسے سادہ لوح افراد ٹھوس وجوہات کی بنیاد پر یہ توقع باندھنے کو مجبور ہوئے کہ ’’رائے عامہ‘‘ کا جدید اور سائنسی ذرائع کی بدولت بھرپور ادراک کے قابل تحریک انصاف نہایت خلوص سے یہ اعتراف کرلے گی کہ اس کی اپنائی پالیسیاں مطلوبہ اہداف کے حصول میں قطعاََ ناکام رہی ہیں۔ عمران حکومت کو اب کسی نئی حکمت عملی کو اختیار کرنا ہوگا۔

شوکت ترین صاحب وزارتِ خزانہ کا منصب سنبھالنے کے بعد ایسا ہی رویہ اختیارکرتے نظر آئے۔ گزشتہ چند دنوں سے لیکن عمران خان صاحب اور ان کے بلند آہنگ ترجمانوں کی فوجِ ظفر موج ’’زمین جنبد نہ جنبد گل محمد‘‘ والا پیغام دینا شروع ہوگئے ہیں۔ ٹی وی سکرینوں پر عوام کے ٹیلی فون کے ذریعے آئے سوالات کا جواب دیتے ہوئے منگل کے روز وزیر اعظم صاحب بلکہ ایک بار پھر محض شریف خاندان کو معاف نہ کرنے کی تکرار کرتے نظر آئے۔

یہ دعویٰ کرتے ہوئے حیران کن انداز میں یہ حقیقت فراموش کردی جاتی ہے کہ احتساب عدالت نے نواز شریف صاحب کو بدعنوانی کے الزام میں طویل عرصے کے لئے جیل بھیج دیا تھا۔ اپنی اسیری کے دوران سابق وزیر اعظم کوئی سرنگ کھود کر ’’فرار‘‘ نہیں ہوئے۔ ان کو جان لیوا بیماری کی بات چلی تو حکومت ہی نے انہیں جیل سے ہسپتال منتقل کیا۔ ان کو لاحق بیماری کی تشخیص کے بعد وفاقی کابینہ کو باخبر رکھنے کی رپورٹس تیار ہوئیں۔ ان کا بغور جائزہ لینے کے بعد وفاقی کابینہ نے نواز شریف کولندن جانے کی اجازت دی۔ مذکورہ فیصلے کے بعد عوام کو نواز شریف کو ’’مرتے دم تک نہ بخشنے‘‘ کا دعویٰ قابل بھروسہ محسوس نہیں ہوتا۔ کئی وجوہات کی بدولت عام پاکستانیوں کی کثیر تعداد اب یہ سوچنے کو بھی مائل نہیں ہورہی کہ نواز شریف تو کسی نہ کسی صورت بچ گئے شہباز شریف کو مگر آسانیاں نصیب نہیں ہوں گی۔ انہیں ہر صورت ’’عبرت کا نشان‘‘ بنایا جائے گا۔ حدیبیہ پیپرز والا مقدمہ ازسرنوکھلے گا۔ سارا شریف خاندان اس کی بدولت کئی برسوں تک سیاست سے کنارہ کش ہوا جیل کی سلاخوں کے پیچھے ’’چکی کی مشقت‘‘ میں مبتلا نظر آئے گا۔

پراپیگنڈہ کے ہنر کا سنجیدہ طالب علم ہوتے ہوئے اصرار کرنے کو مجبور ہوں کہ شریف خاندان کو عبرت کا نشان بنانے والی کہانی اب پٹ چکی ہے۔ اسے دہرائے چلے جانا کارِ بے سود ہے۔ اس کہانی کو بے اثر ثابت کرنے کے لئے حال ہی میں ہوئے ضمنی انتخابات کے نتائج ہی کافی تصور ہونا چاہیے۔

عمران حکومت کا بیانیہ تشکیل دینے والے نابغوں کو مگر یہ گماں لاحق ہوچکا ہے کہ وہ عوام کو اب بھی یہ پیغام دے سکتے ہیں کہ ہمارے نظام کہنہ نے’’مہنگے وکیلوں‘‘ کی بدولت عدالتوں کو ’’انصاف‘‘ فراہم کرنے نہیں دیا۔ مافیا کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے عمران خان تنہا ہی رہے۔ پارلیمان اور دیگر ریاستی اداروں خصوصاََ عدلیہ نے ان کا اس ضمن میں بھرپور ساتھ نہیں دیا۔ عوام اگر واقعتا اس ملک میں کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں تو انہیں آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف کو دوتہائی اکثریت مہیا کرنا ہوگی۔ اس اکثریت کی قوت سے عمران خان صاحب ہمارے آئین اور قوانین میں ’’انقلابی‘‘ تبدیلیاں لاتے ہوئے ملک کی تقدیر بدل ڈالیں گے۔

’’حکومت جاتی ہے تو جائے‘‘ کی تکرار کے ذریعے قبل از وقت انتخاب کی ’’تڑی‘‘ موجودہ حالات میں کسی کام نہیں آئے گی۔ نئے انتخابات کے بجائے ہمارے عوام کی بے پناہ اکثریت کو گزشتہ 3 برسوں میں بے روزگار ا فراد کی تعداد نے پریشان کررکھا ہے۔ وفاقی حکومت کے بتائے اعدادوشمار اعتراف کررہے ہیں کہ کم از کم 20 لاکھ لوگ ابھی تک روزگار سے محروم ہوچکے ہیں۔ افراطِ زر کی شرح دس کا ہندسہ پار کرنے کے بعد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ زندہ رہنے کے لئے بنیادی شمار ہوتی اشیاء کے نرخوں میں ناقابل برداشت ا ضافہ ہورہا ہے۔ گندم کی نئی فصل کو کٹے ابھی چھ ہفتے بھی نہیں ہوئے اور پنجاب کے اکثر بازاروں میں گندم کی فی من قیمت 2200 روپے تک پہنچ چکی ہے۔ چینی کے اجارہ دار ’’مافیا‘‘ کے خلاف لئے اقدامات بھی اس کی قیمت میں کمی لانے میں ناکام رہے۔ بہت عرصے تک اپنے قریب ترین دوست رہے جہانگیر ترین کو عمران خان صاحب چینی کے اجارہ دار مافیا کا کلیدی کردار ٹھہراتے ہیں۔ ان سے فاصلہ اختیار کرتے ہوئے وزیر اعظم نے داد سمیٹنا چاہی۔ عام انسانوں کو مگر اجارہ دار مافیا کے سرغنوں کی محض نشان دہی مقصود نہیں۔ ان سب افراد کو کنوئیں میں پھینک دیا جائے تب بھی عام پاکستانی شہری عمران حکومت کی ’’کامیابی‘‘ کے ڈھول اسی صورت بجائے گا کہ جب وہ بازار جائے تو وہاں چینی وافر مقدار میں ماضی کے مقابلے میں انتہائی سستے داموں میسر نظر آئے۔

عمران حکومت کا بیانیہ تشکیل دینے والے ذہین وفطین افراد نجانے کیوں یہ سمجھنے سے قاصرہیں کہ پاکستان کے عوام ’’اتنے بھی بھولے نہیں‘‘۔ حکمرانوں کے آگے سرجھکائے رکھنے کی ہمیں نسلوں سے عادت ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ مگر دلوں میں اُبلتا غصہ ایک دن پھٹ پڑتا ہے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے ’’عشرہ ترقی‘‘ کے اختتامی ایام میں ایسا ہی لاوا پھوٹا تھا۔ جنرل مشرف کے نو برس عدلیہ بحالی والی تحریک پر منتج ہوئے۔

عمران حکومت کی فی الوقت اولین ترجیح آئندہ مالی سال کے بجٹ کی تیاری ہونا چاہیے۔ اسے تیار کرتے ہوئے آئی ایم ایف کے ساتھ طے ہوئی شرائط پر غلامانہ عمل ہوا تو مہنگائی اور بے روزگاری کا نیا طوفان برپا ہوجائے گا۔ ’’چور اور لٹیرے‘‘ ٹھہرائے سیاست دان مصیبت کی گھڑی میں عوام کا ساتھ دیتے نظر نہیں آئے تو سڑکوں اور گلیوں میں بے ساختہ ہجوم ازخود انتشار برپا کرنا شروع ہوجائیں گے۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے لاطینی امریکہ کے کم از کم چار اہم ترین ممالک میں ایسی تحاریک شروع ہوچکی ہیں۔ ریاستی قوت کے وحشیانہ استعمال سے ان پر قابو پانے کی تمام تر کوششیں ناکام ثابت ہورہی ہیں۔

حکومتوں کا بنیادی فریضہ ٹھوس حقائق کا دیانت دارانہ جائزہ لیتے ہوئے ایسے اقدامات لینا ہوتا ہے جو ابتری وخلفشار کا تدارک کریں۔ ’’حکومت جاتی ہے تو جائے‘‘ جیسی گفتگو مایوس ہوئے دلوں میں سلگتی آگ کو بھڑکاتی ہے۔ اسے ٹھنڈا نہیں کرتی۔

بشکریہ: نوائے وقت

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

نصرت جاوید کے مزید کالم پڑھیں

About The Author