نومبر 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اعلان لاتعلقی۔۔۔۔||ملک سراج احمد

مخدوم جاوید ہاشمی کے متعلق ان کی جماعت کے ورکرز نعرے لگاتے پھرتے ہیں کہ وہ ایک بہادر آدمی ہیں۔اسی بہادر آدمی نے ایک دن اپنے قائد کے بیان کے تسلسل میں کچھ زیادہ ہی سخت بیان داغ دیا۔

ملک سراج احمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مخدوم جاوید ہاشمی کے متعلق ان کی جماعت کے ورکرز نعرے لگاتے پھرتے ہیں کہ وہ ایک بہادر آدمی ہیں۔اسی بہادر آدمی نے
ایک دن اپنے قائد کے بیان کے تسلسل میں کچھ زیادہ ہی سخت بیان داغ دیا۔ایک بار تو اس بیان سے ان کی اپنی جماعت میں ہی تھرتھرتلی مچ گئی ۔شاید ان کی جماعت گوجرانوالہ کے جلسہ میں اپنے قائد کی تقریر کی طرح اس بیان کی بھی توقع نہیں کررہی تھی اور نتیجہ یہ نکلاکہ ن لیگ کے ٹوئیٹر اکاونٹ سے ایک ٹوئیٹ ہوا جس میں اعلان لاتعلقی کرتے ہوئے کہا گیا کہ جاوید ہاشمی کا قومی ادارے کے بارے میں بیان ان کی زاتی رائے ہے وہ پارٹی پالیسی کی ترجمانی نہیں کرتے۔اور یوں وہ انقلاب جس کی نوید سنائی جارہی تھی شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگیا۔مگر جاوید ہاشمی نے اس کے بعد بھی ایک اور بیان دیا جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ ایک بہادر آدمی تو ہے مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہے
ابھی ان بیانات کی بازگشت ختم نہیں ہوئی تھی کہ ن لیگ کے رہنما وسابق گورنر سندھ محمد زبیر نے ایک نیوز چینل کے پروگرام میں کہا کہ ہماری کوئی لڑائی نہیں تھی اور ہماری راولپنڈی سے صلح ہوگئی ہے۔محمد زبیر نے بیان تو دے دیا مگر یہ نہیں سوچا کہ ان شاہین بچوں کا کیا بنے گا جن کو رات دن انقلاب کا سبق پڑھایا تھا۔اس بیان سے فی الوقت پارٹی نے اعلان لاتعلقی نہیں کیا لہذا جب تک باقاعدہ تردید نہیں ہوتی اس وقت تک اس بیان کو ٹھیک سمجھا جائے ۔شاید محمد زبیر کے بیان کا ردعمل تھا کہ حکومت نے شہباز کو پرواز سے روک کر پیغام دیا کہ ہنوز دلی دوراست۔
بلکہ یہی نہیں حکومت نے کابینہ کی منظوری سے شہبازشریف کا نام ای سی ایل میں ڈال کر واضح پیغام دے دیا کہ کپتان اب شریف خاندان کو کسی قسم کی رعایت دینے کے حق میں نہیں ہے۔اورلگے ہاتھوں حدیبیہ پیپرملز کا کیس بھی دوبارہ کھولنےکا اعلان کردیا۔شاید اسی لیئے ن لیگ کے قائد میاں نوازشریف نے عید نماز کے بعد لندن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے عوام کو پیغام دیا کہ وہ اس حکومت سے جان چھڑانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔میاں نوازشریف کا ایک سخت موقف سامنے آیا تو سوال تو بنتا ہے کہ پھر جاوید ہاشمی کے بیان سے اعلان لاتعلقی کیوں کیا گیا ہے۔کہیں ن لیگ پاکستان اور ن لیگ لندن الگ الگ سیاسی راستے پر تو نہیں چل رہیں۔اس سب کے باوجودقائد کا پیغام سر آنکھوں پر مگرعوام اس مخمصے کا شکار ہے کہ قائد کے بغیر وہ انقلاب کیسے لائیں یہ بے چارے عوام تو لاہور شہر سے ائیرپورٹ تک نہیں جاسکے تھے۔
رہی بات میاں شہبازشریف کی تو ماننا پڑے گا کہ ان کی رہائی سے حکومت فرسٹریشن کا شکار نظر آرہی ہے صرف حکومت کیوں بلکہ ن لیگ کا وہ دھڑا بھی جو معاملات کو مریم نواز کے ہاتھوں میں رکھنا چاہتا ہے۔اس پر میاں شہبازشریف کی خاموشی ظلم ڈھا رہی ہے کہ پتہ نہیں کیا بولیں اور کب بولیں۔ایسے میں انہوں نے ایک سرپرائز تو اپنے مخالفیں کو دیا جب پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کو عید مبارک کا فون کیا۔اس فون کال سے میاں شہباز شریف کے مستقبل کے سیاسی لائحہ عمل سے متعلق اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔خوش گمان تو اس کو پی ڈی ایم کے لیئے اچھا شگون قرار دے رہے ہیں۔حالانکہ پی ڈی ایم نے سندھ کے حلقہ بدین میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں پیپلزپارٹی کے مخالف جی ڈی اے کے امیدوار کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ عید کے بعد پی ڈی ایم کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ویسے پی ڈی ایم سے اب کوئی امید باقی نہیں رہی۔
زیادہ سے زیادہ یہی ہوسکتا ہے کہ حالیہ فلسطین اسرائیل تنازعہ پر پی ڈی ایم میں شامل مذہبی جماعتیں اسرائیل کے خلاف پاور شو کریں اور فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کریں۔وگرنہ یہ بھی المیہ ہی ہے کہ مسلم دنیا کے حکمرانوں کی اکثریت سوائے باہمی رابطوں کے کچھ نہیں کرسکی نا ہی او آئی سی کا ہنگامی اجلاس طلب ہوا اور نا ہی مسلم دنیا کی طرف سے کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری ہوسکا۔بدنصیبی نہیں تو اور کیا ہے کہ افریقہ اور ایشیا میں پھیلے درجنوں مسلمان ممالک نے اسرائیل کے ظلم کے باوجود اس سے اعلان لاتعلقی نہیں کیا۔سفارتی تعلقات ختم کرنے کی دھمکی نہیں دی۔موجودہ حکمرانوں نے امت کے تصور کو ہی ختم کردیا ہے۔ایک بار پھر رفع یدین کے حکم کی ضرورت ہے تاکہ موجودہ حکمرانوں کی بغلوں سے زاتی منفعت کے بت گریں اوروہ امہ کے اجتماعی مفاد پر سوچ سکیں۔
جہاں تک سوچنے کی بات ہے تو موجودہ حکومت بھی غربیوں سے متعلق بہت کچھ سوچ رہی ہے اور اسی لیئے برادر اسلامی ملک سے چاول کی امداد لے آئی ہے مگر جس انداز میں اس کو پیش کیا گیا اس سے حکومت کو خفت اٹھانا پڑی ابھی یہ خفت کم نہیں ہوئی تھی کہ عیدالفطر کے حوالے سے رویت ہلال کمیٹی کے ایک چاند کو دیکھنے کے فیصلے نے حکومتی کارکردگی پر چارچاند لگادئیے۔گویا کوئی کام ڈھنگ سے نہیں کرنا اور جگ ہنسائی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا۔وفاقی وزیرفواد چوہدری کے مطابق چاند کی عمر 13 گھنٹے سے کچھ زائد تھی اور ایسے میں چاند کا نظر آنا ممکن ہی نہیں ہے تو وہ کون لوگ تھے جن کو چاند نظر آگیا اور ان کی شہادتیں قبول کرلی گئیں۔یا پھر جمعہ کے دو خطبوں کا بوجھ زیادہ تھا جو کھلاڑیوں کا کھلاڑی کپتان نہیں اٹھا سکا۔کچھ تو ہے جو غلط ہوا ہے اور وہ کیا ہے اس کا فیصلہ حکومت کو کرنا ہوگا۔جو ہونا تھا ہوگیا اب حکومت فیصلہ کرلے کہ آئندہ روئیت ہلال کا معاملہ کس طرح نمٹایا جائے گا۔وقت آگیاہے کہ حکومت ایک واضح پالیسی بنائے اور اس پر سختی سے کاربند ہوجائے تاکہ ہر سال عید پر چاند کی روئیت کے حوالے سے پیدا ہونے والے تنازعات کا سدباب کیا جاسکے۔
براے رابطہ 03334429707
وٹس ایپ 03352644777

ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد

وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد

بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد

عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد

حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد

ملک سراج احمد کے مزید کالم پڑھیے

About The Author