نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈیرہ اسماعیل خان ۔ سرکس اور کرونا کی تیسری لہر ||گلزار احمد

اب جبکہ عیدالفطر قریب آ رہی ہے کرونا نے ہمیں پریشان کر رکھا ہے ۔ رہ رہ کے عید کے میلے ٹھیلے یاد آ رہے ہیں۔اب نہ وہ رونقیں نہ رش نہ مٹھایاں نہ شربت نہ دریا کا کنارہ نہ ڈھول ڈھمکا نہ دریس نہ گلے سے ملکر عید مبارک ۔ بس گھر میں بیٹھے رہینگے تصور جاناں کیے ہوئے۔ہ

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب جبکہ عیدالفطر قریب آ رہی ہے کرونا نے ہمیں پریشان کر رکھا ہے ۔ رہ رہ کے عید کے میلے ٹھیلے یاد آ رہے ہیں۔اب نہ وہ رونقیں نہ رش نہ مٹھایاں نہ شربت نہ دریا کا کنارہ نہ ڈھول ڈھمکا نہ دریس نہ گلے سے ملکر عید مبارک ۔ بس گھر میں بیٹھے رہینگے تصور جاناں کیے ہوئے۔ہم بچپن کے زمانے میں عید کے موقع پر حق نواز شھید پارک کے شمال میں ایک کھلے میدان میں جہاں اب TMO پلازہ اور مارکیٹ ہے سرکس دیکھنے جاتے اور فنکاروں کے کرتب دیکھکر حیران ہوتے۔اس وقت توپانوالہ گیٹ کے سامنے کھلے میدان تھے البتہ پلازہ سینما پاکستان بننے سے پانچ چھ ماہ پہلے بن چکا تھا اور سرکس اس کے بالمقابل میدان میں لگتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سرکس کی زندگی پر کئی فلمیں بھی بنیں۔ اس میدان کے مغربی سائیڈ پر ایک بزرگ کا دربار ہے جہاں اس وقت شھر کے لوگ دلھا لے آتے اور سہرا بندی ہوتی۔ دلھا کی بہنیں گھڑی گھڑولے کی رسم کے لیے اس دربار کے نلکے سے گھڑے میں پانی بھرتیں۔دن کو یہ میدان ٹانگہ سٹینڈ کا کام بھی کرتا۔ خیر ایک دفعہ سرکس کی لڑکی کو نازے کملے نے چک مار دیا اور پولیس نے ڈنڈے مار کر بے چاری کو بڑی مشکل سے چھڑوایا۔بعد میں اس میدان میں ایک اور دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ایک فقیر کھوکھے میں بیٹھتا تھا اور اسی کھوکھے میں دن رات رہتا تھا۔لوگ دل کھول کر خیرات دیتے۔ایک دفعہ رات کو اتنی بارش ہوئی کہ پانی کھوکھے کے اندر چلا گیا۔صبح لوگوں نے دیکھا کہ اس کھوکھے کے اردگرد سیکڑوں کرنسی نوٹ تیر رہے تھے جو بابے نے جمع کر رکھے تھے۔پتہ نہیں ساغر صدیقی نے اس فقیر کے لیے یہ شعر کہا تھا؎جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی۔۔
اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے۔کیونکہ کسی نے بابے کو نوٹ واپس نہیں کیے جس کے ہاتھ جو لگا چلتا بنا۔ڈیرہ میں سرکس کی صحیح تاریخ کا تو پتہ نہیں مگر ڈیرہ میں چونکوں اور بیٹھکوں میں قصہ گو سیف الملوک۔ سسی پنوں۔سوہنی ماہیوال اور ہیر رانجھا کے قصے سناتے اور کچھ تھال بجا کر ساتھ گیت گاتے۔جب ہندو یہاں تھے تو انکے اتنے تہوار تھے شاید کوئی دن ان تہواروں کے بغیر خالی جاتا ہو۔جب میں لاھور کے سکول داخل ہوا تو لاہورمیں کئی میلے لگا کرتے تھے لیکن ان میں اہم ترین دو ہوتے ہیں ؛ ایک داتا گنج بخش کے عرس کے موقع پرجبکہ دوسرا مادھو لال حسین کے عرس پرجو ’ میلہ چراغاں ‘ کے نام سے لگتا ہے۔ ان میلوں کا ایک لازمی جزو ’ سرکس ‘ بھی ہوا کرتی تھی جس کا بڑا اور اونچا تمبو دور سے ہی میلے میں آنے والوں کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتا تھا۔لاھور فلموں کا مرکز تھا ۔ایک دفعہ وہاں فلم ۔۔The greatest show on earth.. بھی لگی جس کی کہانی سرکس کی زندگی سے متعلق تھی جو محبت حسد اور لڑائیوں سے بھری ہوتی ہے۔ ۔ چارلٹن ہیسٹن اس فلم میں ویسا ہی کردار ادا کر رہا تھا جیسا راج کپور کی فلم ’ میرا نام جوکر ‘ میں دھرمیندر نے ادا کیا ہے یعنی سرکس کے منیجر کا ؛ اس کہانی کے ساتھ کہ سرکس کی سٹیج پر کیا ہوتا ہے اور اس کے بیک یارڈ میں کیا کیا گل کھلتے ہیں ۔ ایک بڑی سرکس کو چلانے میں اس کے منیجر کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، خاص طور پر جب سرکس کے کرداروں میں جوکر ۔فنکار۔جادوگر۔جمناسٹک والی لڑکیاں جمع ہوں تو ان کو کیسے ڈیل کیا جاتا ہے۔ لاھور میں گزارے تعلیم حاصل کرنے والےچھ سالوں میں مجھے لالی وڈ کے فنکاروں سے بھی بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔اب تھوڑا سرکس کی تاریخ دیکھتے ہیں۔دنیا میں سرکس کی تاریخ بہت پرانی ہے ابتداء میں یہ گھوڑوں کے کرتب دکھانے سے یونان میں شروع ہوا پھر 250 سال پہلے برطانیہ میں PHILIP ASTLEY نے 1768ء میں اسے جدید شکل دی ۔ جب گھوڑوں کے کرتب دکھانے کے دوران وقفہ ہوتا تو میوزیشن۔ڈانسر۔جادوگر۔مسخرے ۔ایک ویل کا سائکل چلانے والے اور کچھ کرتب دکھانے والے اپنے فن کا مظاہرہ کر کے شائقین کو مشغول رکھتے۔اس طرح پھر یہ یورپ اور ایشیا میں پھیلتا گیا۔ برصغیر ہندوستان میں vishnupant chatrre جو ایک راجہ کے گھوڑوں کا انچارج تھا وہ راجہ کے ساتھ اٹلی گیا اور وہاں رائل سرکس دیکھا اور بہت متاثر ہوا۔بعد میں واپس انڈیا کے شھر کیرالہ میں اس نے راجہ کے تعاون سے 1880ء میں سرکس شروع کیا۔اس طرح پھر یہ برصغیر میں تھیٹر کے ساتھ پھیلتا گیا۔ ڈیرہ میں پتلی تماشا دکھانے والے gypsy اور جادو کا تماشا لگانے والے تو بیسویں صدی کے شروع سے موجود تھے مگر سرکس بعد میں آیا جب رسل و رسائل کے ذرائع پیدا ہوئے۔ پاکستان میں آج سے چالیس پینتالیس سال پہلے 1970ء میں میاں فرزند علی مرحوم نے لکی ایرانی سرکس کی بنیاد رکھی تھی۔ یہ مشہور زمانہ سرکس آج بھی باقاعدگی سے لگتا ہے جس میں طرح طرح کے کھیل تماشے اور تفریحی آئیٹم ہوتے ہیں۔ان میں ناچ گانے سے لے کر شیروں اور ہاتھیوں کے کمالات، مختلف حلیوں کے جوکر اور مشکل کرتب۔۔۔جیسے موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلانا وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ پورا ملک گھوم گھوم کر مختلف شہروں اور قصبوں میں یہ سرکس پورا سال اپنا سفر جاری رکھتا ہے اور اس کی دھوم ابھی تک ویسی ہی برقرار ہے جیسی1970ء اور80ء کی دہائی میں تھی۔ دو سال پہلے لکی ایرانی سرکس میرے گھر سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے سندھ کے کنارے پر لگتا رہا جس کے مکالمے رات کو لاوڈسپیکر پر میرے گھر سنائی دیتے تھے۔اب تو کرونا کی وجہ سے دریا پر ہو کا عالم ہے۔؎ نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں، نہ وہ حُسن میں رہیں شوخیاں۔۔
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی، نہ وہ خم ہے زُلفِ ایاز میں۔۔

About The Author