ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر آپ شادی شدہ مرد ہیں تو بیگم کے ساتھ کبھی نہ کبھی گائناکالوجسٹ کے کٹہرے میں ضرور کھڑے ہوئے ہوں گے۔ اگر ابھی خوش قسمتی یا بدقسمتی سے یہ بور کے لڈو آپ نے نہیں کھائے تو خاطر جمع رکھیے آپ کا وقت ضرور آئے گا۔
اگر آپ عورت ہیں تو تب بھی آپ نے ایک خشک مزاج، تنک ڈاکٹر کے منہ سے مشین گن کے فائر کی طرح نکلتے ان سوالوں کی بوچھاڑ کا سامنا ضرور کیا ہو گا۔
کتنے حمل ہوئے، کب کب ہوئے، نتیجہ کیا رہا، اسقاط یا بچہ، زچگی طبعی رہی یا سیزیرین، زچگی کے بعد کسی پیچیدگی کا سامنا، دودھ کون سا پلایا؟ وقفے کے لئے کیا استعمال کیا؟
طبی اصطلاح میں ان سوالات کو آبسٹیٹرک ہسٹری کہا جاتا ہے اور ہر سوال کی ایک افادیت ہے۔
شومئی قسمت کہ ہم ڈاکٹر بننے کے بعد ان مراحل سے گزرے سو سوالات کی تندی و تیزی کی آنچ مدھم ہی رہی۔ لیکن آبسٹیٹرک ہسٹری تو ہماری بھی تھی اور وہ بھی کافی تیکھی سو آرزو رکھتے تھے کہ پوچھا کرے کوئی!
پہلا حمل ویسا ہی تھا جیسے عموماً سب نئی بیاہتا کا ہوتا ہے، بغیر کسی خیال اور آرزو اور بنا ممتا کے امڈتے جذبات۔ سچ پوچھیے تو بچے ہمیں کبھی بھی اچھے نہیں لگتے تھے۔ کسی بھی بچے کو روتے دیکھتے تو کانوں پہ ہاتھ رکھ لیتے، گو موت پہ تو ابکائیاں آنے لگتیں، ضد کرتے دیکھتے تو ماں باپ کو ہدایت نامہ برائے پرورش سنانا شروع کر دیتے۔ سو ہمارے حمل کی دفعہ ایک عالم منتظر تھا کہ دیکھئے محترمہ کیا گل کھلائیں گی۔ اب انہیں بھی آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو گا!
لیجیے صاحب، شادی ہوئی تو نتیجہ بھی سامنے آنا ہی تھا۔ پاؤں تو بھاری ہو گیا لیکن نہ کوئی ناز و انداز، نہ کوئی قیمتی فرمائش، نہ کمزوری کی شکایت، نہ کچھ خاص کھانے کی اشتہا، نہ نخرہ۔
اپنی نوکری میں دن رات مصروف رہے۔ پھرتی سے سیڑھیاں چڑھتے، اترتے اور ان سب لوگوں کو جھٹلاتے جو حمل کو بیڈ ریسٹ کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں۔ دبلے پتلے بھی تھے سو بہت سوں کو علم ہی نہ ہوا کہ ہم کون سی منزل کے مسافر ہیں!
زچگی ایک خوفناک خواب سے کم نہیں تھی۔ باوجود اپنے ہی ہسپتال میں ولادت کے عمل سے گزرتے ہوئے، ہم پیچیدگیوں کا شکار ہوئے۔ ننھی پری کا دم گھٹا جا رہا تھا سو دھاتی اوزاروں کی مدد لی گئی اور اس کی قیمت بہت برسوں کے بعد ایک اور آپریشن کے ذریعے چکانی پڑی۔
چلیے جی ممتا کا نور چہرے پہ تو پھیل گیا لیکن اب گود میں ایک بچی تھا، جس کے ساتھ سب کچھ ویسا ہی تھا جو دوسرے بچوں کے ساتھ ہوتا ہے اور جن پہ ہم شدید ناک بھوں چڑھایا کرتے تھے۔ اب تو ایک دنیا آنکھ لگائے بیٹھی تھی کہ غالب کے پرزے کس دن اڑیں گے اور تماشا دیکھنے سب آئیں گے۔
صاحب، ہم بھی کچی گولیاں نہیں کھیلے تھے۔ سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے بڑی بوڑھیوں کے نسخوں سے منہ موڑ کے سوچا، لو کتابیں پڑھنے، فلمیں دیکھنے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سائنسی دماغ ہونے کا فائدہ اگر ہم ایک بچہ اپنی مرضی سے نہ پال سکے۔
سو زچگی سے پہلے ہی ایک منشور ترتیب دیا گیا۔
ہم ہونے والے بچے کی جنس الٹرا ساؤنڈ پہ دریافت نہیں کریں گے اور بچہ ہوا یا بچی، اس کا استقبال دھوم دھام سے کیا جائے گا۔
بچے کو کوئی بھی گود میں نہیں اٹھائے گا۔ نہ نانی، نہ دادی، نہ خالہ، نہ پھوپھی، نہ چاچی نہ چاچا۔ یہ اصول ماں باپ پہ بھی لاگو ہو گا۔ جس نے بھی بچی سے لاڈ کرنا ہے، بچی کی کاٹ کے قریب جائے اور بچی سے زبانی کلامی جتنے چاہے لاڈ اٹھائے، کوئی پابندی نہیں ہو گی۔
بچے کو روزانہ نہا دھلا کے، ایک چھوٹی سی چادر میں اس طرح باندھا جائے گا کہ اسے یہ احساس ہو کہ وہ ابھی بھی شکم مادر میں محفوظ ہے۔ بازو اور ٹانگیں سیدھی اور کسی ہوئی چادر، سیفٹی پن کے ساتھ بندھی ہوئی۔ پہلے تین مہینے بچہ اسی طرح گزارے گا۔
بچے کو موسمی کپڑے پہنائے جائیں گے، موسم گرما میں غیر ضروری چیزیں لادنے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر ٹوپی پہنانی ہے تو ملائم کاٹن کی ایک پتلی تہہ والی ٹوپی!
بچے کو فیڈر سے دودھ نہیں پلایا جائے گا۔ جب ماں گھر ہوگی تو ماں کا دودھ، غیر موجودگی میں یا تو چمچ کی مدد سے دودھ اور چھ مہینے کے بعد ، کوئی بھی ٹھوس چیز! رات کو بھی ماں کا دودھ ہی دیا جائے گا۔
سب سے اہم اور خاص شق آخری تھی جس پہ ہم نے میکے سسرال سمیت بہت جھاڑیں کھائیں، ظالم سنگدل اور شقی القلب ماں ہونے کے القابات سمیت بہت کچھ سنا مگر ہم نے اپنے منشور میں ترمیم کرنے سے انکار کر دیا۔
بچہ چاہے جتنا بھی روئے اسے گود میں لے کر بہلانے، سہلانے، کندھے سے لگا کر تھپکنے، کسی بھی طرح ہلا ہلا کر چپ کروانے کی اجازت نہیں ہو گی۔
اگر بچہ بھوکا ہے تو پیٹ پوجا کروا دی جائے گی، گیلا ہے تو کپڑے تبدیل ہو جائیں گے، گو موت سے فراغت ہو گئی ہے تو زیر جامہ بدل دیا جائے گا۔ پیٹ میں درد ہے تو الٹا لٹا کے ڈکار دلوا دیا جائے گا۔ بیمار ہے تو دوا پلا دی جائے گی، موسم کی شدت تنگ کر رہی ہے تو کپڑے ہلکے یا گرم پہنا دیے جائیں گے۔
غرض جو بھی تکلیف ہے وہ رفع کی جائے گی لیکن اگر یہ ریں ریں بلاوجہ کی ہے تو ہم کان دھرنے والے نہیں۔ آزمائیں گے کہ سننے والے کی قوت برداشت اور صبر زیادہ ہے یا رونے والے کی ہمت اور طاقت!
اس منشور کو ترتیب دیتے ہوئے ہمارا کہنا یہ تھا کہ اس بچے کو اپنی طرح کا انسان سمجھیے کہ تمام تر وہی حسیات رکھتا ہے۔ سو اسے اس نئی دنیا میں رہنے کے آداب سے آگاہ کروا دیجیے، اس کی احتیاجات کا خیال رکھیے، اسے فطرت کے نزدیک رکھ کر پا لیے، اسے ماں کے دودھ کی صورت میں اس کا حق دیجیے۔
سو صاحب ہوا وہی جو ہم نے سوچا تھا ہماری بچی نہ رو رو کے بے حال ہوئی، نہ وقت نا وقت قے کرتی پھری، نہ پاخانے نے ناک میں دم کیا اور نہ ہی راتوں کو بلاوجہ جگا کے ہماری نیند حرام کی۔
اب اس میں ہمارا کیا قصور کہ ہمارا تماشا دیکھنے کے منتظر، منتظر ہی رہے اور ہماری ترکیبوں پہ ہنسنے والے بعد میں یہ کہنا شروع ہوئے کہ ان کی تو بچی ہی نرالی ہے۔ ماں پاس ہو نہ ہو، خود سے ہی کھیلتی رہتی ہے، تنگ ہی نہیں کرتی۔
یہ سن کر ہم دل میں سوچتے کہ سدھانے والے کا کمال بھی تو دیکھیے کہ شروع میں جب بچی رو رو کے تماشا کرتی، ہم اجنبی بن کے پاس سے گزر جاتے۔ بالآخر بچی نے ہی ہتھیار ڈال دیے یہ سوچتے ہوئے کہ ان کے حصے میں ایک ڈھیٹ ماں آئی ہے سو احتجاج کا یہ طریقہ موثر نہیں۔
للہ یہ نہ سمجھیے گا کہ بچوں نے اپنی باری آنے پہ ہمیں ناکوں چنے نہیں چبوائے۔ بچے تو آخر ہمارے ہی تھے سو کچھ تو اثر ہونا ہی تھا۔ یقین کیجیے وہ کہانیاں بھی ہماری زنبیل میں موجود ہیں، بس ابھی ان کی باری نہیں آئی!
ماں بننے کا دن مبارک!
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر