نومبر 9, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آپ کا رمضان ریزولوشن کیا ہے ؟||محمد عامر خاکوانی

کالج لائبریری اور پھر شہر کی بلدیہ لائبریری سے بہت سی ضخیم کتابیں پڑھیں۔ ان سے بہت کچھ سیکھا۔ مذہبی کتابیں بھی بہت سی پڑھیں۔والد کی لائبریری سے مولانا ابوالحسن علی ندوی کی کئی کتابیں پڑھیں، شورش کاشمیری کی چٹان کی فائلیں بھی یہیں دیکھیں،

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رسالوں،ڈائجسٹوں، کہانیوں، ناولوں وغیرہ پر اپنی زندگی کے ہزاروں گھنٹے صرف کئے ہیں۔ ایسا نہیں کہ یہ سب وقت ضائع ہوا، ان کی اپنی افادیت ہے۔ آج جو تھوڑا بہت قلم گھسیٹ لیتے ہیں یا مطالعے کا کچھ ذوق بنا ہے، اس میں ان سب کا کردار ہے۔ یہ خیال البتہ اکثر آتا ہے کہ ابتدا ئی عمر میں کوئی رہنمائی کرنے والا ہوتا تو شائد بہتر انداز اور زیادہ اچھی ترتیب سے مطالعہ کر پاتے۔رہنمائی نہ ہونے کے باعث بے ترتیب پڑھتے چلے گئے، جو کتاب ہاتھ آئی اسے چاٹ ڈالا۔
کہانیاں پڑھنے کی لت پرائمری کلاسز میں پڑ گئی تھی۔کرائے کی لائبریریوں سے رسالے ، ناول وغیرہ لے کر پڑھنے کا یہ فائدہ ہوا کہ پڑھنے کی رفتار تیز ہوگئی۔ ایک رات میں کئی سو صفحات کا تاریخی ناول پڑھ ڈالتے کہ اگلے دن کا کرایہ بچایا جائے۔ نسیم حجازی، عبدالعلیم شرر، قمر اجنالوی وغیرہ کے ناول انہی دنوں پڑھے۔ مجھے یاد ہے کہ ساتویں کلاس میں ایف اے کی تاریخ اسلام اور تاریخ پاک وہند کی کتاب کہیں سے ملی۔ اسے یوں ذوق شوق سے پڑھا جیسے کوئی مذہبی کتاب ہو۔پھر تاریخ طبری، تاریخ ابن خلدون وغیرہ بھی پڑھنے کو مل گئی۔ تاریخ کے بیشتر واقعات رٹ لئے تھے۔ انہی دنوں میرے ماموں امین ترین جو سینئر صحافی اور کالم نگار تھے ،وہ ہمارے گھر احمد پورشرقیہ آئے۔ والد محترم نے ماموں سے ذکر کیا کہ عامر کو تاریخ سے بڑی دلچسپی ہے۔ اسلامی تاریخ کی کتابیں پڑھتا رہتا ہے۔ماموں امین ترین نے تیکھی نظروں سے مجھے گھورا اور پھر بولے ، برامکہ خاندان کے زوال کی وجوہات بتاﺅ۔ میں نے فرفر برامکہ کی تباہی کے اسباب بتانا شروع کر دئیے، ساتھ ہی ایک دو سازشی تھیوریز بھی بیان کر دیں کہ فلاں فلاں وجہ بھی بیان کی جاتی ہے، مگر یہ منطقی طور پر درست نہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ امین ماموں جنہیں متاثر کرنا آسان کام نہیں تھا، وہ خوش ہوئے،بیس تیس روپے انعام دیا ۔
کالج لائبریری اور پھر شہر کی بلدیہ لائبریری سے بہت سی ضخیم کتابیں پڑھیں۔ ان سے بہت کچھ سیکھا۔ مذہبی کتابیں بھی بہت سی پڑھیں۔والد کی لائبریری سے مولانا ابوالحسن علی ندوی کی کئی کتابیں پڑھیں، شورش کاشمیری کی چٹان کی فائلیں بھی یہیں دیکھیں، مولانا آزاد کی غبارخاطر اور تذکرہ بھی گھر میں پڑھی۔ کالج کے ابتدائی دنوں میں فرقہ ورانہ بحثوں میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث، شیعہ مکاتب فکر کا مطالعہ بھی کیا اور مختلف دوستوں سے ان پر دھواں دھار بحثیں ہوتی۔ زلزلہ یا اس سے ملتے جلتے نام کی ایک کتاب پڑھی جودیوبندی فکر کے خلاف تھی۔ اس کتاب سے حاصل کردہ مواد سے لیس ہو کرکئی معرکے جیتے۔ پھر پتہ چلا کہ اس کے خلاف زلزلہ در زلزلہ نام کی کتاب چھپی ہے۔ انہی دنوں جماعت اسلامی کا لٹریچر پڑھا ، مولانا مودودی کی کتابیں پڑھیں، خاص کر خلافت وملوکیت نے ارتعاش پیدا کیا۔ کہیں سے اس کے رد میں لکھی کتابیں بھی مل گئیں، انہیں بھی چاٹ ڈالا۔ مولانا وحیدالدین خان کی کتاب” تعبیر کی غلطی“ بھی کالج کے زمانے میں پڑھ لی تھی۔لاہور آنا ہوا ، اردو ڈائجسٹ میںکام کے دوران وہاں کی لائبریری سے بہت فائدہ اٹھایا۔ رہائش ہاسٹل میں تھی، ساتھ والے کمرے میں ایک بلتی دوست مقیم تھے، انہوں نے داعیانہ جذبے سے ہمیں شیعہ لٹریچر فراہم کیا۔ ہم نے پڑھنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی، اسے بیلنس کرنے کے لئے مولانا عبدالشکور لکھنوی، مولانا عتیق الرحمن سنبھلی وغیرہ کی کتابیں بھی پڑھتے رہے۔ انہی دنوں علامہ تمناعمادی کے نظریات سے ایک دوست نے روشناس کرایا۔ایک دھماکہ ہی تھا، جسے مشکل سے سہہ پائے۔ اس سے پہلے جاوید غامدی صاحب کی کتاب میزان کے مختلف حصے پڑھ چکا تھا، میزان بعد میں شائع ہوئی تھی، مولانا وحیدالدین خان کی کتابوں اور ان کے الرسالہ سے تفصیلی تعارف بھی ہاسٹل کے دنوں میں ہوا۔شادی ہوئی نہیں تھی، مہینے دو بعد گھر جانا ہوتا، لاہور میں وقت ہی وقت تھا۔ ڈاکٹر غلام جیلانی برق، نیاز فتح پوری،علی عباس جلالپوری بھی لاہور کے ابتدائی برسوں میں مطالعہ کا حصہ رہے۔ برق صاحب کی بعض کتابیں البتہ احمد پورشرقیہ ہی میں پڑھ لی تھیں۔ یہ سلسلہ چلتا رہا۔ بعد میں ڈاکٹر حمیداللہ سے ڈاکٹر محمود احمد غازی ، مولانا تھانوی سے مفتی تقی عثمانی اور اعلیٰ حضرت بریلوی سے مفتی منیب الرحمن تک کئی سکالرز کو پڑھنے کا موقعہ ملا، اپنی بساط کے مطابق ان سے سیکھنے کی کوشش کی۔
ایک کام جو بہت پہلے کر لینا چاہیے تھا، وہ نہیں کر پائے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس پر ندامت اور قلق بڑھتا گیا۔آج یہ احساس ہوتا ہے کہ اپنے وقت اور مطالعے کا ایک حصہ تو دنیا کی عظیم ترین کتاب قرآن پاک پر صرف کرنا چاہیے تھا۔ انسان کو رب نے جو کچھ ہنر، صلاحیت اور استعداد دی ہے، اس کا سب سے زیادہ استعمال قرآن پاک کو سمجھنے، غور کرنے کے لئے کرنا چاہیے ۔ افسوس ہم نے بہت وقت ضائع کیا۔ زندگی سے مگر یہ بات سیکھی ہے کہ ندامت اور پچھتاوا اگر حقیقی ہے تو اس کے نتیجے میں تلافی کی کوشش ہونی چاہیے۔ پچھلے چند برسوں میں اس طرف توجہ گئی ، تھوڑا بہت کوشش بھی کی، مگر ویسی یکسوئی سے نہیں جیسا کرنے کا حق بنتا ہے۔
اس سال رمضان کی طاق راتوں میں ایک کمٹمنٹ یہ کی ہے کہ رب نے مہلت دی تو اگلے رمضان سے پہلے پہلے قرآن پاک کواچھے سے پڑھنے، سمجھنے، غور کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ میرا رمضان ریزولوشن یہی ہے، اس بار ان شااللہ اسے ہر حال میں مکمل کریں گے۔ میرا بہت سے نوجوانوں سے رابطہ رہتا ہے، مطالعے سے جنہیں شغف ہے، وہ کتابوں کی فہرست مانگتے رہتے ہیں۔ ان سے یہی کہنا ہے کہ فکشن ضرور پڑھیں، نان فکشن کو اپنے مطالعے کا حصہ بنائیں، مگر آپ کے مطالعہ، توجہ اور غورفکر کا ایک حصہ قرآن پاک اور سیرت پر صرف ہونا چاہیے۔ یہ بہت آسان ہے۔ روزانہ ایک گھنٹہ صرف اس کے لئے مختص کر دیں۔ اپنی مرضی، پسند اور ذوق کے مطابق کسی بھی ترجمہ، تفسیر کو لیں اور ایک صفحہ، دو صفحات جتنا آپ کا جی چاہے، پڑھ کر اس پر غور کریں۔ چند منٹ سیرت مبارکہ کی کسی کتاب کو پڑھنے میں لگائیں۔ ہارون الرشید صاحب نے ایک بار مجھے نصیحت کی تھی کہ ایک حدیث روزانہ پڑھ کر اس پر دس منٹ غور کر لیا جائے، اس سے جو حاصل ہوگا وہ ہزاروں صفحات کی عام کتاب نہیں دے سکے گی۔ بہت اچھا نسخہ ہے،آپ بھی آزما کر دیکھیں۔
آپ جس مسلک سے تعلق رکھتے ہیں ، بے شک اسی کے کسی عالم دین کا ترجمہ قرآن پاک پڑھیں۔ اصل بات قرآن سے جڑنا اور تعلق بنانا ہے۔ فہم قرآن کا ذوق پیدا ہوجائے گا تو آپ خود ہی ایک سے دوسرے اور خوب سے خوب تر کی تلاش میں نکلیں گے۔ پہلا قدم تو اٹھائیں۔ مولانا فتح محمد جالندھری کا ترجمہ قرآن بہت مشہور ہے، نیٹ پر عام دستیاب ہے، ہارڈ کاپی میں بھی آسانی سے مل جاتا ہے۔ مفتی تقی عثمانی صاحب کا آسان قرآن ترجمہ آج کل بڑا مشہور ہے، 360islamاور کئی دوسری ایپس میں یہ شامل ہے۔ مجھے سید قاسم محمود صاحب کا شاہکار قرآن ترجمہ پسند ہے، اس میں قرآنی متن کے ساتھ مولانا جالندھری کا لفظی ترجمہ، سید مودودی کا بامحاورہ ترجمہ اور علامہ عبداللہ یوسف علی کا انگریزی ترجمہ شامل ہے، کہیں کہیں تفسیری حاشیہ۔ ڈاکٹر طاہر القادری کا ترجمہ قرآن عرفان القرآن بہت خوب ہے۔ کہیں کہیں کسی آیت کی تفسیر میں بعض مفسرین نے مختلف تعبیر کی، انہوں نے وہ سب ہی شامل کر لی ہیں ۔ قرآن میں بہت جگہوں پر رب تعالیٰ نے اپنے آخری نبی حضرت ﷺ کو مخاطب کر کے بات کہی ہے۔ مختلف ترجمہ کرنے والوں نے اسے مختلف انداز سے لکھا ہے۔ قادری صاحب نے ہر بار وہاں پر لفظ لکھا ”اے حبیب مکرّم “،اس اصطلاح سے جو محبت اور پیار جھلکتا ہے، اس کا جواب نہیں۔ سید مودوی کی تفسیر تفہیم القرآن بہت مشہور ہے۔دنیا کی بہت سی زبانوں میں ترجمہ ہوچکی۔
اعلیٰ حضرت بریلوی مولانا احمد رضا خان کے ترجمہ قرآن کی بڑی شہرت ہے۔ مولانا غلام رسول سعیدی صاحب نے متعدد جلدوں میں ترجمہ تفسیر لکھی تھی۔جسٹس پیر کرم شاہ صاحب کی تفسیر بھی مشہورہے۔ چند دن پہلے جامعہ علوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاﺅن کے استاز مولانا عمر انور کی کتاب” آسان بیان القرآن مع تفسیر عثمانی“ دیکھنے کو ملی۔ بیان القرآن مولانا تھانوی کی مشہور تفسیر ہے جبکہ تفسیر عثمانی مولانا عبدالقادر کا ترجمہ ہے جبکہ تفسیری حاشیہ مولانا شبیر احمد عثمانی کا ہے۔ مولانا عمر انور نے دونوں مشہور تفاسیر کو اکٹھا کر کمال کام کیا ہے۔ کتاب نہایت دلکش طباعت میں ہے، ایسی حسین کتابیں کم ہی دیکھنے کو ملیں۔ مولانا عمر انور مفتی اعظم پاکستان مولانا محمد شفیع کے پڑنواسے ہیں۔
مولانا وحیدالدین خان کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔ انہوں نے ایک نیا کام یہ کیا کہ قرآنی متن کے بغیر صرف ترجمہ قرآن شائع کیا۔اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آسانی سے اسے اٹھتے بیٹھتے پڑھا جا سکتا ہے۔ ان کی ویب سائٹ سے یہ مفت ڈاﺅن لوڈ ہوسکتا ہے۔ بات وہی ہے کہ آپ کو جو مناسب ترجمہ یا تفسیر لگے وہی پڑھیں، قرآن کو سمجھنے کے لئے مگر وقت ضرور نکالیں۔ رمضان کی طاق راتیں ہیں۔ آج بھی ستائیس رمضان کی شب ہے۔ عین ممکن ہے شب قدر ہو۔ اپنا رمضان ریزولوشن فہم قرآن کو بنا لیں۔ان مقدس شب وروز میں قرآن کو سمجھنے کی کمٹمنٹ کریں، آغاز کر دیں۔ رب سے رہنمائی اور توفیق مانگیں، ان شااللہ کامیاب ہوں گے

 

یہ بھی پڑھیے:

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

محمد عامر خاکوانی کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author