نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کتابیں بھی مرجاتی ہیں||رضاعلی عابدی

میں کبھی نہیں چاہوں گا کہ احباب دنیا سے گزر جانے کی باتیں کریں اور دل کو دکھانے والا لب و لہجہ اختیار کریں۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ لوگ سنجیدگی سے نہ صرف سوچیں بلکہ کوئی عملی قدم اٹھا کر یہ طے کریں کہ ان کی کتابیں کہیں ٹھکانے لگانے کا کیا بندوبست ہوگا، یہ کتابیں ردّی والے کو بلا کر اُس کے حوالے تو نہیں کردی جائیں گی۔

رضاعلی عابدی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پچھلے دنوں میں نے ایک سوال اٹھایا تھا کہ جن باذوق اور علم دوست لوگوں نے پچاس پچاس ساٹھ ساٹھ سال لگا کر کتابیں جمع کی تھیں،ان کی آنکھ بند ہونے کے بعد کتابوں کے ان ذخیروں کا کیا بنے گا؟میرا خیال تھا کہ اس بارے میں ہر طرف سے تبصرے اور مشورے آئیں گے۔کچھ نہ آیا۔ ہاں مگر صاف لگا کہ اکثر احباب جو خاموش ہیں ،دل ہی دل میں کیا کہہ رہے ہیں۔ یہ کہ نہیں ابھی کچھ عرصہ اور ،ابھی کچھ اور جی لیں، فی الحال جی تو رہے ہیں۔

میں کبھی نہیں چاہوں گا کہ احباب دنیا سے گزر جانے کی باتیں کریں اور دل کو دکھانے والا لب و لہجہ اختیار کریں۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ لوگ سنجیدگی سے نہ صرف سوچیں بلکہ کوئی عملی قدم اٹھا کر یہ طے کریں کہ ان کی کتابیں کہیں ٹھکانے لگانے کا کیا بندوبست ہوگا، یہ کتابیں ردّی والے کو بلا کر اُس کے حوالے تو نہیں کردی جائیں گی۔

لگے ہاتھوں ایک کتاب کی کہانی سن لیجئے۔ میں سنہ ستّر کے عشرے میں لندن کی انڈیا آفس لائبریری اور برٹش لائبریری میں اپنے دادا پردادا کے زمانے کی اردو کتابیں دیکھ رہا تھا، اُس وقت سینکڑوں کتابیں میری نظر سے گزریں۔ ان میں ایک کتاب میرے ذہن پر اپنا نقش چھوڑ گئی۔ اس کتاب کا نام ’الوانِ نعمت‘ تھا اور وہ سنہ ۱۸۷۶ء میں دلّی میں چھپی تھی۔ کوئی بلاقی داس اُس کے مصنف تھے اور اس حیرت انگیز کتاب میں لکھاتھا کہ انیسویں صدی میں کھانے کیسے پکائے جاتے تھے ۔میں نے ایک بار ڈاکٹر جمیل جالبی سے بلاقی داس کا ذکر کیا۔وہ تو اردو ادب کی لاجواب تاریخ لکھ چکے تھے۔انہوں نے بتایا کہ بلاقی داس پرانی دلّی کے کتب فروش تھے، خود کتابیں لکھتے تھے اور اپنے ہی چھاپے خانے میں چھاپتے تھے۔میں اس کتاب سے قورمہ پکانے کی ترکیب نقل کر لایا اور پھر جو قورمہ پکا وہ خالص دلّی کا انداز لئے ہوئے تھا۔ میں عرصے تک سوچتا رہا کہ بلاقی داس کی کتاب سے مواد لے کر اپنے کھانے پکانے کے طور طریقوں پر کتاب لکھوں گا۔ وقت گزرتا گیا یہاں تک کہ لائبریری جانا اور پرانی کتابوں میںسر کھپانا میرے لئے مشکل ہوتا گیا۔پچھلے دنوں مجھے اردو کی ترقی اور فروغ کے لئے بے مثال کام کرنے والی ریختہ فاؤنڈیشن کے سالم سلیم صاحب کا خیال آیا جو اچھے دوست ہیں۔ میں نے ان سے ’الوانِ نعمت‘ کا ذکر کیا ، خیال تھا ان کے ذخیرے میں موجو د ہوگی۔ نہیں تھی۔ مگر وہ ڈٹ گئے اور کہنے لگے کہ شہر دلّی میں کہیں نہ کہیں ملے گی ضرور۔ کچھ روزبعد نہ صرف ان کی خوش خبری آئی بلکہ ’الوانِ نعمت‘ کی پوری نقل کمپیوٹر کے ذریعے آگئی۔پرانی دلّی کے کسی کتب خانے میں موجود تھی ۔یہ اس کا دوسرا ایڈیشن تھا جو سات سال بعد ۱۸۸۳ء میں چھپا تھا اور میں نے تو صرف ایک جلد دیکھی تھی۔ اس بار بلاقی داس نے کتاب تین جلدوں میں مکمل کی اوراورنگ زیب کے زمانے سے خودبلاقی داس کے زمانے تک کھانے کیسے پکائے جاتے تھے، سارے نسخے جمع کردئیے۔جب گھی کو روغن زرد اور دھنیےکو کشنیز کہا جاتا تھا اور کسی کھانے میں آلو اور ٹماٹر کا ذکر تک نہ تھا۔اب بلاقی داس کے کارنامے کے ساتھ کیا ہونا چاہئے ، بعد میں سوچیں گے۔ابھی تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ دلّی والوں نے اپنے بزرگوں کی یادگار کتابیں حفاظت سے رکھی ہیں اور انہیں جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ہمیشہ کیلئے محفوظ کردیا ہے۔ تاریخ لکھنے والے ان کارروائیوں کی قدر جانتے ہیں۔

اسی دوران مجھے پاکستان کے شہر کوئٹہ سے اپنے دوست عبدالقادر رند کا برقی خط ملا جس میں ان کے علاقے بلوچستان کے عظیم اسکالر ڈاکٹر عبدالرحمان براہوی کا ذکر ہے۔ ان کے ذاتی کتب خانے میں ، رند صاحب کے بقول، دس ہزار سے زیادہ کتابیں ہیں اور وہ بھی نادر اور نایاب ۔ اس وقت ڈاکٹر براہوی کی عمر نوّے برس ہے اور انہیں یہ فکر ستائے جارہی ہے کہ ان کتابوں کا کیا ہوگا۔رند صاحب کے خط سے اشارہ ملتا ہے کہ بلوچستان کے ان دور دراز علاقوں میں کتابوں کے خدا جانے کتنے ذخیرے اپنے مالکوں کی طرح آخری سانسیں لے رہے ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے حکومت سے بار بار درخواست کی گئی ہے کہ ایک زمین کا ٹکڑا دیا جائے جہاں کتب خانہ قائم کرکے علم کے ان جواہر کو یک جا کردیا جائے تاکہ علم کی متلاشی دنیا ان سے مستفید ہو ۔مگر حکومت کو دوسرے جھنجھٹوں سے نجات ملے تو علم و آگہی کی خاطر کچھ کرے۔

میں نے عمر کا بڑا حصہ کراچی میں گزارا۔ خوب جانتا ہوں کہ ملک کی تقسیم کے بعد جو لوگ ترک وطن کرکے نئے وطن پاکستان آئے تھے، جیسے بھی بنا، اپنے ساتھ بزرگوں کی چھوڑی ہوئی کتابیں لے آئے تھے۔وہ شکم کی آگ میں جلتے ہوئے ہجرت کے مارے ہوئے لوگ ایک ایک کرکے خالق حقیقی کے دربار میں اپنے نام لکھاتے گئے۔ اور وہ جن کتابوں کو اپنی گود میں رکھ کر لائے تھے وہ آج تک ہر اتوار کے روز شہر کے فٹ پاتھ پر فروخت ہوتی ہیں۔

پھر خیال ہوتا ہے کہ اسی بہانے یہ کتابیں علم دوستوں کے گھروں میں منتقل ہورہی ہیں۔ مگر یہ سعادت ہر کتاب کو نصیب نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ کتنی ہی کتابیں مقدس اور متبرک جان کر دریا میں بہادی گئیں یا دفن کر دی گئیں۔ ہم کتابوں کے ایسے عاشقوں سے واقف ہیں جنہوں نے کنوؤں میں اتر کر یا قبرستان میں زمین کھود کر نایاب کتابوں کو مٹنے سے بچا یا ہے۔مگر ایسے سر پھرے کتنے ہوں گے۔ انگلیوں پر گنیں تو دو چار انگلیاں بچ رہیں گی۔

مولانا مجھے نہ کہا جائے۔۔۔رضاعلی عابدی

کچھ لوگ ٹیکہ لگائیں گے۔۔۔رضاعلی عابدی

جمہوریت کا تجربہ بھی ناکام ہو رہا ہے؟۔۔۔رضاعلی عابدی

رضا علی عابدی کی دیگر تحریریں پڑھیے

About The Author