رضاعلی عابدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور غضب ہونے کو ہے۔ پٹنہ کی بے مثال تاریخی خدا بخش لائبریری کی عمارت مسمار کی جارہی ہے۔ یہ سرپھرے ٹھیکے دار اور دیوانے حکام کوئی فلائی اوور بنانے چلے ہیں جس کا نقشہ اس طرح بنایا ہے کہ شہر کے لاجواب کتب خانے کی عمارت راہ میں پڑتی ہے۔ منصوبہ یہ ہے کہ عمارت کے بڑے حصے پر بُل ڈوزر چلایا جائے اور تاریخ کی ایک درخشاں نشانی کو ملیا میٹ کیا جائے۔ علم سے اور ذوق لطیف سے بے بہرہ یہ کون لوگ ہیں جو اپنے ہی صوبے کی ایک شان دار عمارت کو خاک میں ملانے چلے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے نزدیک علم اور آگہی کے مقابلے میں سڑک کی چوڑائی اور ٹریفک کی روانی زیادہ اہم ہے۔
بہار میں اورپورے ہی ہندوستان کے علمی اور ادبی حلقوں میں پٹنہ کی خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری کی عمارت کا بڑا حصہ منہدم کرنے کی خبر پر شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ خود بہار میں اس پر صدائے احتجاج بلند ہوئی ہے اور نہ صرف اس علمی ذخیرے سے فیض اٹھانے والے بلکہ اس کی تاریخی اہمیت کے قدر دان لوگ بھی اپنے اپنے طور پر برہمی کا اظہار کررہے ہیں۔سابق آئی ایس پی افسر امیتابھ کمار داس نے ، جو اپنی محنت اور کام سے لگن کی وجہ سے جانے جاتے تھے،اپنا اعلیٰ کارکردگی کا صدارتی تمغہ صدر جمہوریہ ہند کوواپس کردیا ہے۔جس کے ساتھ انہوں نے صدر کے نام کھلے خط میں لکھا ہے کہ بد عنوان ٹھیکے داروں اور ٹینڈر مافیا کے منافع خوروں نے وزیر اعلیٰ کو آمادہ کرلیا ہے کہ فلائی اوور کی راہ میں پڑنے والی خدا بخش لائبریری کا اگلا حصہ زمین بوس کردیا جائے۔امیتابھ کمار داس نے لکھا ہے کہ یہ کتب خانہ صرف بہار یا بھارت کی نہیں، پوری انسانیت کی میراث ہے اور یہ ہندوستان کی گنگا جمنا تہذیب کی پہچان ہے۔انہوں نے لکھا ہے کہ علم سے محبت کرنے والے کی حیثیت سے مجھے حکومت بہار پر فیصلے سے دلی صدمہ پہنچا ہے ۔ میں نے سالہا سال ملک کی خدمت کی ہے جس کے بعد میں اس فیصلے پر احتجاج کئے بغیر نہیں رہ سکتا اور اس کے لئے میں آپ کا عطا کیا ہوا تمغہ واپس کرتا ہوں اور ملک کے تما م علم دوستوں سے اپیل کرتا ہوں کہ جنہیں پدم شری یا ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ ملا ہے وہ بھی علم کے اس عظیم ذخیرے کو تباہی سے بچانے کے لئے احتجاج کے طور پر اپنے میڈل واپس کردیں۔امیتابھ کمار داس نے کہا ہے کہ خدا بخش لائبریری کو بچانے کے لئے وہ آخر دم تک لڑیں گے۔(اس پر مجھے بہار ہی کے شہر سہسرام کے دسرتھ دوبے یاد آگئے جو شیر شاہ کے عالی شان مقبرے کو بچانے کے لئے دلّی کے حکام سے ہر وقت دو دو ہاتھ کرتے رہتے ہیں اور اپنے مطالبے منوائے بغیر چین سے نہیں بیٹھتے)
اس سے پہلے ملک کے سرکردہ عالم ِ دین ،پروفیسر اخترالواسع نے بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے نام اپنے خط میں گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مشہور زمانہ خدا بخش لائبریری شہر پٹنہ میں علم و عرفان کے تاج محل کی حیثیت رکھتی ہے۔انہوں نے وزیر اعلیٰ سے خطاب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آپ اپنی علم دوستی اور اردو، عربی اور فارسی کی حمایت کی وجہ سے مشہور ہیں اور آپ نے اقلیتوں کے جذبات اور احساسات کا ہمیشہ خیال رکھا ہے پھر یہ کیوں کر ممکن ہے کہ آپ کی حکمرانی میں بہار کی پیشانی سے علم کے درخشاں جھومر کو نوچنے کے منصوبے بن رہے ہیں۔پروفیسر اخترالوا سع نے وزیر اعلیٰ سے اپیل کی ہے کہ فلائی اوور کسی اورمتبادل جگہ تعمیر کیا جائے۔
میں خود کو ان خوش نصیبوں میں شمار کرتا ہوں جنہیں پٹنہ کی خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری کو قریب سے دیکھنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ یہ سنہ انیس سو بیاسی کی بات ہے، برصغیر میں قدیم کتب خانے دیکھنے کی خواہش مجھے صوبہ بہار کے شہر پٹنہ لے گئی ۔ان دنوں عابد رضا بیدار جیسا بیدار مغز شخص ایک ایسے کتب خانے کا نگراں تھا جہاں عراق پر تاتاریوں کے حملے کے دوران دجلہ و فرات میں دریا بُرد کی جانے والی بچی کھچی کتابیں موجود تھیں اور جہاں اسپین میں تاریخی کتابوں کے الاؤ سے نکالی ہوئی کتابیں نشانی کے طور پر موجود تھیں۔اُس روز وہاں جو منظر میں نے دیکھا،اپنی کتاب’کتب خانہ‘ میں اس کا احوال آج پڑھتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں۔ قارئین کی دل چسپی کے لئے وہی سطریں یہاں نقل کرتا ہوں۔ یاد رہے یہ سنہ انیس سو بیاسی کی بات ہے:
’’تو یہ ہے ایک جیتے جاگتے ، پھلتے پھولتے کتب خانے کا احوال۔ اس کی موجودہ عمارت اب بڑھا کر دوگنی کی جارہی ہے، اس میں ائر کنڈیشنڈ کمر ے ہوں گے جن میں قلمی کتابیں محفوظ رہیں گی۔میں جس روز وہاں پہنچا،بہت بڑے عملے کو مصروف پایا۔ کہیں تحقیق ہورہی تھی، کہیں اشارتی کارڈ بن رہے تھے،کہیں زیروکس کاپیاں اور مائیکرو فلمیں بنائی جارہی تھیں اور کہیں خوش نویس بیٹھے پرانی دستاویزوں کی نقلیں اتار رہے تھے۔ ایک شعبے میں جلد بندی ہو رہی تھی، ایک گوشے میں ناقص کاغذوں کو موسم کے اثرات اور کیڑوں مکوڑوں سے بچانے کے لئے کیمیاوی عمل جاری تھا۔ خلیج کے علاقے سے ایک بزرگ تشریف لائے تھے جو زکوٰۃ پر اتھارٹی ہیں ، وہ قدیم کتابوں کا مطالعہ کر رہے تھے۔کتب خانہ قارئین سے بھرا ہوا تھا اور ہر طرف زندگی کے آثار اور ہر سمت چہل پہل تھی۔یہ تو تھی زمین کی صورت حال، آسمانوں تک میری نگاہ تو نہیں پہنچی مگر مجھے محسوس ہوا کہ وہاں کہیں خدا بخش کی روح بے حد مسرور ہوگی۔
خدا کے ہاں ایسے ہی لوگوں کی بخشش ہوتی ہے، مجھے یقین ہے‘‘۔
اقتباس ختم، قصہ تمام ہونے کو ہے۔
جمہوریت تماشا بن گئی۔۔۔رضاعلی عابدی
مولانا مجھے نہ کہا جائے۔۔۔رضاعلی عابدی
کچھ لوگ ٹیکہ لگائیں گے۔۔۔رضاعلی عابدی
جمہوریت کا تجربہ بھی ناکام ہو رہا ہے؟۔۔۔رضاعلی عابدی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر