نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

حاکموں کے ساتھ تباہ کن تصویریں بنانے والے|| محمود جان بابر

پارلیمان کے ایوانوں اور راہداریوں میں حقیقی عوامی نمائندوں کے ساتھ ساتھ وہ بھی پہنچ چکے ہیں جنہوں نے عوام کی بجائے خواص اور حکمران بنانے کی فیکٹریوں میں انوسٹمنٹ کی۔

محمود جان بابر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمیں یاد ہے چند دہائیاں پہلے جب حکمرانوں کو کچھ خاص قسم کے لوگوں کی حمایت کی ضرورت پڑی تو انہوں نے ان میں سے کسی کو اسلحے اور کسی کو منشیات کا کھلا دھندا کرنے کی اجازت دی یوں بہت ساروں نے کروڑوں اربوں کما لئے ان میں سے کچھ الیکشن میں حصہ لے کر پارلیمان میں پہنچے اور وہاں پہنچ کر عوام کی بجائے اپنے ”محسنین“ کے کام آنے لگے اور جب بھی ضرورت پڑی ان کے ووٹوں اور پارلیمان میں کردار نے حکمرانوں کی ڈولتی نیا کو ڈوبنے سے بچایا یوں دونوں طرف والوں کا کام چلتا رہا۔

وقت کے ساتھ ساتھ ایک طرف ان حکمرانوں کے بچے ملک کے حقیقی ورثا کی صورت میں پلتے رہے اور ہر آنے والی حکومت میں ان کو باضابطہ حصہ ملنے لگا تو ساتھ ہی ان ”نودولتیوں“ کی نسلوں نے بھی اپنے اپنے آبائی علاقوں میں پارلیمان کی نشستوں پر ڈیرے ڈال لئے وہیں بڑے شہروں میں پیسے کے بل پر معززین کی قطاروں میں مستقل جگہ بنالی اب بھی ان کی بڑی بڑی جائیدادیں اور پلازے شہر کے بیچ کھڑے ہیں اور ان میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔

ان دونوں کی کئی دہائیاں پہلے شروع ہونے والی مفاداتی دوستیاں اب بہت ساری جگہوں میں رشتے داریوں میں بھی تبدیل ہو چکی ہیں یہاں تک کہ رات کو میڈیا پر ایک دوسرے کی جماعت اور طرز سیاست پر تنقید کے دوران منہ سے جھاگ اڑاتے رہنما بھی اپنے بچوں کے رشتوں کی صورت ایک دوسرے کے ساتھ سلے ہوئے ہیں ایک نظریے کے بدترین مخالف کی بیٹی اس نظریے کے حامی کے گھر بیاہی جا رہی ہے تو کہیں پر اسٹیبلشمنٹ سے نفرت کا اظہار کرنے والوں نے یا تو بیٹی یا بیٹے کی شادی پرو اسٹیبلشمنٹ رہنما کے گھر میں کر کے ان کا ”مستقبل محفوظ“ کر لیا ہے۔ نظر ڈالیں گے تو قریبا تمام اہم رہنما اور ان کے بچے رشتے داریوں میں ایک دوسرے کے ساتھ گندھے ہوئے ہیں اور حکومت یا اختیار کسی کا بھی ہو تو یہ سب اور ان کے بچے محفوظ ہی رہتے ہیں۔

وقت گزرتا رہا پرو اسٹیبلشمنٹ سے اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور اینٹی سے پرو تک کا سفر طے کرنے والے سیاستدانوں میں سے کسی کو حکومت ملی اور کوئی راندہ درگاہ ہوا لیکن اس دوران جو طبقہ بالکل محفوظ رہا وہ اب تک بننے والی تمام حکومتوں میں شامل تھے اور شامل ہیں اور ان کو آئندہ حکومتوں میں بھی شامل ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

پارلیمان کے ایوانوں اور راہداریوں میں حقیقی عوامی نمائندوں کے ساتھ ساتھ وہ بھی پہنچ چکے ہیں جنہوں نے عوام کی بجائے خواص اور حکمران بنانے کی فیکٹریوں میں انوسٹمنٹ کی۔ ان غیر عوامی نمائندوں کا سب سے بڑا ہتھیار حسب ضرورت بدلتے رہنا رہا۔ سیاسی حکمرانوں، حکومتی پارٹیوں کے سربراہان اور بڑے فوجی و سرکاری افسران کے ساتھ بے دھڑک تصویریں بنا کر معاشرے میں عزت دار بننا اس کام کے لئے پہلی سیڑھی کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ یہی تصویریں ہیں جن کی وجہ سے قوم کو ایسے ایسے ٹیکے لگے جس کا درد اور منفی اثر ان پر آج بھی قائم ہے۔

موجودہ وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ان کو چیک دیتے ہوئے لوگوں کی تصویریں دیکھ کر وہی سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ چند کروڑ روپے کا عطیہ دے کر یہ تصویر ساتھ لے جانے والا اسے کہاں کہاں اور کیسے کیش کرے گا؟ اس کا جواب ڈھونڈنا بھی کوئی ایسا مشکل کام نہیں اگر چیک دینے والا تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہے تو وہ اس تصویر کی قیمت اپنے طلبہ کے والدین سے ہی وصول کرے گا اور وزیراعظم کے ساتھ تصویر کو استعمال کر کے سرکاری اداروں کی دسترس سے بھی بچے گا۔ کون ہو گا جو وزیراعظم کے ساتھ تصویر بنانے والے کسی شخص پر ہاتھ ڈال سکے؟ وزیراعظم تو بہت دور کی بات ہے یہاں تو ایک ایس ایچ او کے ساتھ بنی تصویر بھی لوگوں کی بچت کا باعث بنتی ہے۔

سنا ہے کہ ماضی میں اور موجودہ دور میں بھی کہیں ایوان صدر، ایوان وزیراعظم اور دیگر اہم ترین مقامات پر بیٹھے کچھ لوگوں نے خود یا ان کے کارندوں نے ان کے ساتھ بننے والی تصویروں کی باضابطہ قیمت وصول کی۔ ہماری خوش گمانی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو کیا پتہ ہو گا کہ انہیں اسلام آباد کے ان کے دفتر یا کہیں بھی ان کے ساتھ تصویر بنانے والا تاجر یا کاروباری شخص ان کی تصویر کو کن کن مقاصد کے لئے استعمال کر سکتا ہے؟ لیکن کیا انہیں نہیں معلوم کہ یہ ان کی تصویر ہی تھی جس کو اپنے پوسٹرز پر لگا کر ان کے پارٹی رہنماؤں کی اکثریت اسمبلیوں میں پہنچ چکی ہے۔

موبائل فون کے اس دور میں کسے نہیں پتہ کہ کون کس کے ساتھ تصویر بنانے سے انکار کر سکتا ہے تاہم حکمرانوں، سرکاری حکام اور سیاسی جماعتوں کے قائدین کو اس بات کا ضرور خیال رکھنا چاہیے کہ ان کے ساتھ تصویر بنانے والا انہیں کن کن مقاصد کے لئے استعمال کر سکتا ہے۔

شہر پشاور میں زندگی کی بہاریں گزریں ایسے ایسے ان پڑھ اور عوام کو دھوکہ دینے والے نظروں سے گزرے جن کو اپنا نام بھی لکھنا نہیں آتا لیکن وہ ان تصویروں اور خاص لوگوں پر انوسٹمنٹ کی بدولت لوگوں کے ساتھ کاروبار میں دھوکے کرتے ہیں اور قانون سے بچنے کے لئے وہ متعلقہ اداروں کے افسران اور اہلکاروں کو خود پر ہاتھ ڈالنے سے باز رکھتے ہیں۔ ان تصویروں میں وہ تصویریں اور بھی قابل اعتراض ہیں جو یہ عناصر غریبوں کو زکوة اور خیرات دیتے ہوئے بناتے ہیں اور پھر خود کو نیک ثابت کرنے کے لئے انہیں فیس بک کی وال پر سجاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

افغانستان، جنگ کے پلٹتے سائے۔۔۔ محمود جان بابر

کانچ کا وجود اور پتھر سے دشمنی۔۔۔ محمود جان بابر

پاکستان میں افغانوں کے چالیس سال ۔۔۔ محمود جان بابر

محمود جان بابر کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author